ماہ رمضان کے متبرک ایام چل رہے ہیں یہ مہینہ تزکیہ نفس، ایثار اور صبر کرنے کےلئے انسان کو تربیت فراہم کرتا ہے ۔ رمضان المبارک اسلامی کلینڈر قمری تاریخ کے مہینوں میں 9واں مہینا ہے ۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں ما ہ رمضان کی آمد کا بے صبری سے انتظار کرتے رہتے ہیں کیوں کہ یہ ماہ رمضان کئی طرح سے مسلمانوں کےلئے اہم ہوتا ہے خاص طور پر قربت الٰہی کےلئے یہ ماہ اہم ہوتا ہے جس میں انسان زیادہ سے زیادہ عبادات کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ ماہ رمضان کے تیس روزے متواتر طور پر رکھنے کے بعد شکرانہ کے طور پر عید الفطر کے روز عید نماز اداکی جاتی ہے اور اس بات پر خوشی منانے کےلئے تہوار منایا جاتا ہے کہ اللہ تعلیٰ نے مومنین کو ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی زیادہ سے زیادہ حمد و ثناءاور عبادت کریںتاکہ یہ ایمان کی پختگی اور تزکیہ نفس کی علامت بنے ۔
ماہ رمضان کے تیس دنوں تک مسلمان صبح فجر سے غروب آفتاب تک فاقہ رہتے ہیں یہ صرف جسمانی طور پر کھانا پانا چھوڑنا نہیں ہے بلکہ یہ روحانی تزکیہ کےلئے بھی فاقہ ہوتا ہے ۔ قارئین کو معلوم ہے کہ ماہ رمضان اُن پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہیں جو مسلمانوں کےلئے لازم ملزوم ہیں جن میں پہلا کلمہ ، دوسرا نماز اور تیسر اروزہ ہے جبکہ چوتھا زکوٰة اور پانچواں حج کرنا ہے ۔ اور انہی پانچ ارکان میں سے ایک روزہ داری ایک اہم اور فرض ہے ۔ روزہ کے معنیٰ کو اگر دیکھیں تو اس کے معنیٰ ”صوم “ کے ہیں یعنی دور رہنے کے ایک مسلمان جب روزہ دار ہوتا ہے تو وہ ان تمام چیزوں سے دور رہتا ہے جو وہ معمول کی زندگی میں روزانہ کرتا ہے جیسے کہ دن میں کھنا پینا، تمباکو نوشی وغیرہ سے دوری بنائے رکھنا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کاموں سے بھی دور ی بنائے رکھنا ضروری ہے جس کی ممانیت کی گئی ہے ۔ اس طرح سے رمضان نہ صرف جسمانی طور پر صبر بلکہ روحانی طور پر بھی ایمان کو مضبوط کرنے کی ایک مشق ہے ۔ جو مسلمانوں کو خود نظم و ضبط، ہمدردی اور غور و فکر کی مشق کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے روح کو پاک کرنے، اللہ کی عبادت میں اضافے اور الہی کے قریب ہونے کا ایک طریقہ ہے۔ روزہ کے دوران ایک مسلمان دیگر لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، انصاف اور ماونت کرتے رہتے ہیں ۔ روزہ رکھنا کا مطلب یہ نہیں کہ انسان صرف بھوک پیاس برداشت کرے بلکہ دیگر لوگوں کی مدد کرنا جیسے کہ کمزور ، غریب اور مفلوک الحال افراد کی مالی مدد کرنا اس میں اہم ہے کیوں کہ اللہ تعلیٰ نے فرمایا ہے کہ جو بھی اس ماہ رمضان میں ایک روپے اللہ تعلیٰ کی راہ میں خرچ کرے گا اس کو 70ہزار نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ جو ایک رکعت نماز اداکرے گا اس کو ستر ہزار رکعتوں کا ثواب ملے گا ۔ ایک آیت قرآن کی تاوت کرنے والے کو ستر ہزار آیتوں کا ثواب ملے گا ۔ غرض پورے مہینے میںمسلمان نماز، عبادت اور صدقہ کے کاموں میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کا مقصد رمضان کے دوران قرآن پڑھنے اور اس پر غور و فکر کرنا، روحانی بلندی اور ذاتی تبدیلی کی تلاش ہے۔
قارئین جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ ماہ رمضان میں روزے رکھنا کا مطلب صرف یہ نہیں کہ انسان پورے دن کچھ کھائے پیئے بغیر رہے بلکہ یہ تزکیہ نفس کا بہترین موقع ہوتا ہے اور ما ہ رمضان میں روحانی تربیت اس کا اہم جز ہے ۔ اس مہینے انسان کو اللہ تعلیٰ کے نظام قدرت سے متعلق غور و فکر اور اس مقصد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے جس مقصد کےلئے اللہ تعلیٰ نے بندوں کو اس روئے زمین پر بھیجا ہے ۔ یہ بلند اوصاف، بلند اخلاق اور ہمدردی کا درس دیتا ہے اس ماہ رمضان میں ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات، ہمدری سے پیش آنا بھی ضروری ہے اور اگر کوئی شخص کسی سے ناراض ہو، بغض ہو تو اس کے روزے کا کوئی معنیٰ نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ صدقات، خیرات کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مفلوک الحال افراد بھی اللہ تعلیٰ کے اس مہینے کی برکتوں کے فیض سے اپنی زندگی آسانی کے ساتھ گزار سکیں تو اس کےلئے اللہ تعلیٰ نے زکوٰة کا نظام اور صدقہ دینے کا حکم دیا ہے ۔ یہ مہینہ انسان کو اللہ تعلیٰ کی خوشنودی کےلئے خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ زکوٰة کا نظام دنیا میں پہلا وہ ونظام ہے جس میں مال دینے والے کے مال میں کبھی کمی نہیں ہوتی ہے لینے والو خود بھی زکواة اداکرنے کے قابل بن جاتا ہے جس سے معاشرے میں مساوات کو فروغ ملتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صدقہ فطر بھی ماہ رمضان میں ایک اہم چیز ہے اور صدقہ فطر عید الفطر سے قبل اداکرنا بھی ضروری ہے تاکہ یہ اُن لوگوں تک وقت سے پہلے پہنچے جو مفلوک الحال، غریب ، کمزور ، ناتواں ، بزرگ اور ستم زدہ لوگ ہوتے ہیں جن کی مالی حالت کمزورہوتی ہے ۔ا ور صدقہ فطر جب ان تک پہنچتا ہے تو وہ بھی عید کی ان خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں ۔
قارئین ماہ رمضان کے تیس دنوں تک روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر کو موقع آتا ہے یہ دن شکر گزاری اور خوشی کادن ہوتا ہے عیدالفطر کے روز سبھی مسلمان ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعلیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے عید کی نماز اداکرتے ہیں اور اس روز مسلمان اس بات پر اللہ تعلیٰ کا شکربجالاتے ہیں کہ اللہ تعلیٰ نے انہیں ماہ رمضان کے دوران صبر اور ہمت عطاکی جس کی بدولت وہ روزہ رکھ پائے اور اللہ تعلیٰ کی عبادت بہتر ڈھنگ سے کرسکے ۔ عید الفطر صرف انفرادی جشن کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اجتماعی طور پر اکٹھے ہونے کے بارے میں ہے۔ عید کے تہوار کا جذبہ مسلمانوں کو خاندان کے افراد، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنے اور ضرورت مندوں کے ساتھ خیر سگالی بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ عید کا فرقہ وارانہ پہلو تقریبات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ سماجی روابط کو مضبوط کرتا ہے ۔ عید کی خوشیوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں اور مسلمانوںکومبارکباد پیش کرتے ہیں ،ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں ۔ قارائین عید منانے کا مقصد شکر بجا لانے کے ساتھ ساتھ اپنی کمونٹی کے لئے ہمدردی ، انصاف ، سخاوت کا جذبہ پیدا کرنا بھی ہے ۔ جس طرح ایک آسودہ حال شخص اپنے کنبہ کو خوش رکھنے کےلئے عید کے روز مختلف پکوان تیار کرواتا ہے ، بچوں کےلئے نئے کپڑے ، وغیرہ خریدتا ہے اسی طرح سماج کے دیگر پسماندہ اور مفلوک الحال کنبوں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کےلئے خوشی کے سامان مہیا رکھیں اور اسلام کے نظام میں انہیں یہ اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ آسودہ حال غریب کنبوں کو صدقہ ، خیرات ، زکواة دیکر ان کی مالی مدد کریں اس کے بدلے اللہ تعلیٰ انہیں ایک تو ان کے مال میں برکت کرتا ہے دوسرا ان کےلئے اجر عظیم ہے ۔