وادی کشمیر جہاں قدرتی خوبصورتی دلفریب مناظر پیش کرتی ہیں وہیں اس سرزمین نے کئی نامور شخصیات کو بھی جنم دیا ہے ، مردوں کے ساتھ ساتھ کئی ایسی خواتین بھی کشمیر سے نکلی ہیں جنہوںنے اپنے بلند حوصلوں، جدوجہد اور لگ سے مختلف شعبہ جات میں نام کمایا ہے ۔ قارئین وادی کشمیر گزشتہ دہائیوں سے کئی طرح کے چلینجوں سے نبرد آزما رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگیوں میں کئی تبدیلیاں رونماءہوئیں اور مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ تاہم مشکلات اور چلینجوں کے باوجود بھی کشمیری خواتین نے حوصلہ بلند رکھتے ہوئے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرہے اور ایک امید کی کرن بن کر اُبھرتے ہوئے دوسری خواتین کےلئے مشعل راہ بن چکی ہیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں کشمیری خواتین نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ جہاں تک تعلیمی شعبے کی بات ہے تو اس شعبے میں کشمیری خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے ۔بہت سی خواتین مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم اور کیریئر حاصل کر رہی ہیں، جو ان گنت نوجوان لڑکیوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ جبکہ شعبہ طب اور دیگر شعبوں میں کشمیری خواتین نے بہترین مثالیں پیش کی ہیں ان ہی خواتین میں سے سرینگر سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر امراض خواتین لیڈی ڈاکٹر روف بھی ہے جنہوںنے اپنی زندگی دیہی علاقوں میں خواتین کو طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر روف دیہی خواتین کو بہتر طبی سہولیات بہم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کو مفید مشوروں سے بھی وقت وقت پر نوازتی ہے اور انہیں زندگی میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے ۔ قارئین کشمیری خواتین کی کامیابی کی کہانیاں طویل ہیں تاہم یہاں پر کچھ ایک کا ذکر کیا جارہا ہے ۔ تو اسی طرح کی ایک اور خاوتین رویدہ اسلام ہے جنہوںنے انڈین پولیس سروس میں شمولیت اختیار کرکے وہ کشمیر کی پہلی ایسی خاتون ہے جنہوںنے دقیانوسی تصورات، سماجی بندھنوں سے پرے اپنے خوابوں کو پنکھ دیکر دیگر لڑکیوں کےلئے بھی راہ ہموار کی ہے جو اس طرح کے خواب اپنے سینوں میں سجائے رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کاروباری خواتین کی بات کریں تو اس میدان میں بھی کشمیری خواتین آگے بڑھ رہی ہیں ۔ ان ہی کامیابی کاروباری خواتین میں عظمیٰ خان بھی ہیں جنہوںنے اپنی دستکاری کو ایک الگ پہنچان دی ہے ۔ انہوںنے نہ صرف خود کےلئے روزگار پیدا کیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے دیگر خواتین کاریگروںکو بھی روزگار مہیا ہورہا ہے ۔ اسی طرح ایک اور لیڈی بلقیس بانو ہے جنہوںنے شی ہوپ نامی سوسائٹی قائم کی ہے جو خواتین کو مختلف ہنروں کی تربیت فراہم کرتی ہے ۔ قارئین جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے چاہئے وہ تعلیم ہو، ہیلتھ ہو ، کاروبار ہو یا کھیل کا میدان ہو ۔کشمیری خواتین نے نمایاں کردار نبھایا ہے ۔ بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والی کم عمر تجمل الاسلام کے نام سے تو سبھی لوگ واقف ہیں جس نے بین الاقوامی سطح پر کک باکسنگ چمپین شپ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اول پوزیشن حاصل کرلی ہے ۔ اسی طرح سے سرینگر کی رہنے والی ایک اور لڑکی افشا عاشق نے کئی بین الاقوامی فٹبال ٹورنامنٹس میں ہندوستان کی نمائندگی کی ہے اور وہ پورے خطے کی نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک تحریک ہے۔اسی طرح دیگر کھیلوں میں بھی کشمیری لڑکیاں اپنی حوصلہ مندی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور سماجی بندھنوں کو توڑ کر ایک آزاد ماحول میں اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل رہی ہیں۔ کشمیری خواتین طویل عرصے سے خطے کے امیر ثقافتی ورثے کی محافظ رہی ہیں۔ انہوں نے روایتی دستکاری، موسیقی اور آرٹ کی شکلوں کو محفوظ کیا ہے، انہیں آنے والی نسلوں تک پہنچایا ہے۔ بارہمولہ کی ایک ہنر مند کاریگر گلشن نے اپنی زندگی کشمیری کشیدہ کاری کے قدیم فن کو محفوظ کرنے کے لیے وقف کر دی ہے۔ اس کی شاندار تخلیقات نہ صرف اس کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں بلکہ خطے کی بھرپور ثقافتی میراث کی بھی عکاس ہیں۔
قارئین اگر ہم اداکاری کی بات کریں تو کشمیری خواتین نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں اور کئی ڈراموں اور فلموں میں کشمیری خواتین نے مختلف رول نبھائے ہیں ۔ ان ہی خواتین میں سرینگر سے تعلق رکھنے والی ٹی وی آرٹسٹ حنا تسلیم بھی ہے جو اپنے فن جوہر سے لوگوںکو محظوظ کیا ہیں۔ حنا تسلیم اپنے اداکرانہ کردار کے ساتھ ساتھ خواتین میں سماجی بیداری بھی پیدا کررہی ہے اور انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ وادی کے معروف گلو کار وحید جیلانی اکثر اپنی موسیقی میں کشمیری خواتین کی جدوجہد کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کی کامیابی کی داستانوں سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں۔ غرض کشمیری خواتین آج کے دور میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلنے کی کوشش کررہی ہے اور تعلیم کے ذریعے اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کررہی ہیں۔ پہلے اگرچہ خواتین میں شرح خواندگی کم تھیں تاہم کچھ سالوں میں اس میں بہتری آئی ہے اور اب کشمیری خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہورہا ہے یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم میں بھی کشمیری خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ اگرچہ وادی کشمیر میں خواتین کو کئی طرح کے مسائل کا آج بھی سامنا ہے تاہم ان کی ہمت اور حوصلے قابل سراہنا ہے اور انہیں ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔