وادی کشمیر کو ہندوستان کے دیگر شہروںتک ریل کے ذریعے رابط برسوں پُراناخواب ہے جو کہ اب پورا ہونے جارہاہے ۔ وادی کشمیر میں ریل تو پہلے ہی چالو ہے تاہم یہ صرف ابھی تک بارہمولہ سے بانہال تک ہی چل رہی ہے جبکہ کٹرا سے کشمیر تک اگرچہ ریل لائن مکمل ہوچکی ہے اور اس کی جانچ یعنی حفاظتی ٹرائل بھی انجام دی گئی تاہم ابھی تک اس کو باضابطہ طور پر چالو نہیں کیا گیا ہے اور کٹرا کشمیر ریلوے کا افتتاح ابھی باقی ہے جس کےلئے لوب بے صبری سے انتظار کررہے ہیں ۔ قارئین وادی کشمیرسے دلی تک براہ راست ٹرین جب چالو ہوگی تو یقینی طور پر اس سے وادی کشمیر کےلئے ترقی کے نئے نئے دروازے کھل جائیں گے اور کشمیر کی معیشت کو فروغ ملے گا۔ ریل چالو ہونے سے یقینی طور پر عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور سیاحت سے لیکر تعلیم صحت اور کاروبار جیسے اہم شعبوں میں ترقی ہوگی ۔ وادی کشمیر کی زمین زرخیز ہونے کی وجہ سے یہاں پر آبادی کابڑا حصہ زرعی سرگرمیوں سے منسلک ہیں خاص طور پر اگر ہم میوہ صنعت کی بات کریں تو وادی کے شمال و جنوب میں سیبوں کی کاشتکاری کی جاتی ہے ۔ وادی میں پیدا ہونے والے سیبوں کو ملک کی مختلف منڈیوں تک پہنچانے کےلئے ریل ایک وصیلہ بن سکتا ہے ۔ جیسے کہ یہ بات معلوم ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ پر موسمی صورتحال کی وجہ سے کئی کئی دنوں کو مال بردار گاڑیوں کو روکا جاتا ہے خاص کر کشمیر سے باہر کی منڈیوں تک جانے والے سیب کی گاڑیوں کو تین تین چار چار روز تک درماندہ ہونا پڑتا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر ریل استعمال کی جاتی ہے اور یہ ریل کاشتکاروںکو قومی اور بین الاقوامی منڈیوں تک زیادہ موثر طریقے سے رسائی حاصل کرنے کے قابل بنائے گی، ان کی آمدنی میں اضافہ کرے گا اور سڑکوں کی تاخیر سے ہونے والے مالی نقصانات کو کم کرے گا جس کے نتیجے میں کاشتکاروںاور میوہ تاجروں کو فائدہ ہوگا۔ اسی طرح اگر ہم سیاحت کی بات کریں تو وادی کشمیر جو کہ سیاحتی مقام کے طور پر پہلے ہی دنیا بھر میں مشہور ہے اور جموں کشمیر کی جی ڈی بی میں اہم حصہ ڈالتی ہے ، ریل رابطہ قائم ہونے سے اس میں بھی بہتری آئے گی کیوں کہ اکثر و بیشتر سیاحوں کی یہ شکایت رہتی ہے کہ دلی سے سرینگر تک ہوائی ٹکٹ بہت زیادہ قیمت کی ہوتی ہے جبکہ دلی سے بیرون ملک ٹکٹ اس سے کافی سستی ہوتی ہے اور اگر سیاحوں کو اپنے اپنے شہروں سے ہی سرینگر تک ریل کے ذریعے آنے کا موقع ملے گا تو یقینی طو پر سیاحت کو فروغ ملے گا۔ سیاحت کے فروغ سے نہ صرف کاروبار بڑھے گا بلکہ بے روزگاری پر بھی کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اور روزگار کے نئے نئے مواقعے پیدا ہوں گے ۔
سرینگر جموں شاہراہ اگرچہ آ ج وہ سڑک نہیں ہے جو دو یا تین دہائیوں قبل تھی جس پر کئی کئی دن سفر میں گزرتے تھے آج کل تو سرینگر سے جموں اور جموں سے سرینگر تک سفر صرف 6سے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں ۔ تاہم موسمی صورتحال کی وجہ سے آج بھی کہیں کہیں پر پتھر گرآنے اور زمین کھسکنے کے واقعات رونما ءہوتے ہیں جس کی وجہ سے شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حمل معطل رہتی ہے ۔ اور جب سرینگر سے کٹرا تک ریل خدمات شروع ہوں گی تو یہ متبادل راستہ کے طر پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے جس سے تاجروں ،مسافروں ، مریضوں اورسیاحو کو کافی راحت ملے گی اور وقت کم لگنے کے علاوہ یہ سفر سستا بھی ہوگا۔ وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ ملک کے کئی شہروں میں تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جبکہ وادی سے مریض بھی مختلف ہسپتالوں میں جاکر علاج ومعالجہ کرواتے ہیں تو ریل شروع ہونے سے انہیں بھی کافی فائدہ ملے گا اور وقت کا ضیاں بھی نہ ہوگا اور کم قیمت پر بھی وہ اپنی منزلوں تک پہنچ پائیں گے ۔ ایسے خدشات ہیں کہ نئے ریلوے لنک سے وادی کا جموں شہر پر انحصار کم ہو سکتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر اس کے ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار متاثر ہوں گے۔ تاہم، بہتر رابطے سے تجارت اور سیاحت کو فروغ دے کر دونوں خطوں کو فائدہ پہنچے گا۔
قارئین جہاں یہ ریل خطے کی مجموعی ترقی اور معیشت کی مضبوطی میں اہم ثابت ہوسکتی ہے وہیں یہ فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے بھی کافی اہم ثابت ہوگی کیوں کہ سرحدی علاقوں تک ریل لائن کے ذریعے رسد پہنچانا آسان ہوجائے گا اور فوج کی نقل و حمل آسان ہوگی ۔ اگرچہ ابھی سرحدی علاقوں تک ریل خدمات شروع نہیں ہوئی ہے البتہ اس منصوبے پر عمل جاری ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ اگلے چند برسوں کے دوران کپوارہ، اوڑی اور دیگر سرحدی علاقوں تک ریل چلے گی۔
قارئین جیسے کہ یہ بات عیاں ہے کہ وادی کشمیر ماحولیاتی لحاظ سے کافی اہم خطہ ہے اور ریل منصوبے سے اگرچہ ترقی کے نئے دروازے کھل جائیں گے البتہ ماحولیات کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ماحولیات کے تحفظ کےلئے بھی منصوبہ بندی کرنی ضروری ہے ،ریلوے پٹریوں کے لیے زمین کے حصول کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، خاص طور پر زرخیز علاقوں میں جہاں کے رہائشیوں کو زرعی زمین اور ذریعہ معاش کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ شفاف مکالمے اور منصفانہ معاوضے کے ذریعے ان خدشات کو دور کرنا منصوبے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔سرکار کو چاہئے کہ وہ ریل لائن کےلئے درکار اراضی کا تعین کرنے سے قبل اچھی طرح سے سروے کریں اور جنگلاتی علاقوں اور آبی وسائل کے نذدیک سے ریل گزارنے سے گریز کیا جائے ۔ ترقی تو ضروری ہے لیکن ماحولیاتی نقصان کی قیمت پر ترقی نہیں ہونی چاہئے ۔