منقسم ریاست جموں کشمیر کے دو حصوںمیں الگ الگ نوعیت کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہیں جہاں وادی کشمیرمیں تعمیر و ترقی ، خوشحالی کا دور ہے وہیں پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں بد عنوانی، اظہار رائے پر قدغن، عدم تحفظ اور عام لوگوں کی زندگیاں مختلف مصائب سے دوچار ہیں اور یہ صورتحال منقسم خطے کی دو الگ الگ تصاویر پیش کررہی ہیں۔ جموں کشمیر میں مختلف مواقعوں پر مختلف پروگرمام منعقد کئے جاتے ہیں اور تہواروں پر رنگا رنگ تقاریب منعقد ہوتی ہیں خاص کر جھیل ڈل کے پُر سکون پانی پر تیرتے شکاروں ، ہاوس بوٹوں کے ذریعے کئی پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ مغل باغات اور ٹولپ گارڈن اس کو مزید پُرمسرت بنادیتی ہے اور حال ہی میں اس مشہور گارڈن کا وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں افتتاح بھی ہوا تھا تو اس سے طرح کی تقاریب سے لوگوں میں ایک خوشی کا ماحول پھیل جاتا ہے ۔ قارئین اس طرح کے ماحول کے قیام کےلئے جہاں انتظامیہ سرگرم رہتی ہیں وہی فوج کا اس میں اہم کردار رہتا ہے ۔ وادی کشمیر میں تعینات بھارتی فوج نہ صرف امن وقانون کی صورتحال کو بہتر بنانے کےلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ مقامی کمونٹی کی فلاح و بہبود کےلئے بھی سرگرم ہے ۔ وادی کشمیر کے مختلف دیہی اور سرحدی علاقوں میں خاص طور پر فوج کی جانب سے آوٹ ریچ پروگراموں کے تحت طبی کیمپ منعقد کرائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو مفت علاج اور ادوات فراہم کی جاتی ہے ۔ اسی طرح کھیل کے حوالے سے بھی مختلف سرگرمیاں جاری رکھی جاتی ہیں اور مقامی نوجوانوں کےلئے مختلف ٹورنامنٹس منعقد کرائے جاتے ہیں۔ طلبہ کےلئے تعلیمی سیشنوں کا انعقاد ہوتا ہے ۔ اسی طرح سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں موسیقی اور رقص کی محفلیں سجائی جاتی ہیں جس سے طلبہ کے اندر ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے ۔دوسری جانب اگر ہم سرکار کی بات کریں تو سرکاری انتظامیہ کی جانب سے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ اسی طرح صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ترقیاتی کاموں کو اولین ترجیح دی جارہی ہے ۔ اس طرح سے وادی کشمیرکے لوگ نہ صرف امن و قانون کی بہتر صورتحال کا مشاہدہ کررہے ہیں بلکہ وہ ایک خوشحال مستقبل کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔
اس کے برعکس اگر ہم پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کی بات کریں تو وہاں پر پاکستانی فوج کا ظلم اور جبر بڑھ رہا ہے ۔ وہ اس طرح سے وہاں اپنی ڈھاک بنائے ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خطہ ان کے قبضے میں ہیں۔ اسی طرح اگر ہم پو او کے انتظامیہ کی بات کریں تو ان کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے خطے میں لوگوں کو شدید تکالیف کا سامنا ہے ۔ بجلی ، پانی اور سڑک جیسی بنیادی ضروریات سے لوگ محروم رکھے جارہے ہیں ۔ طبی خدمات کا فقدان ہے جبکہ بد نظمی ، بد عنوانی کا دبدبہ بھی ہے ۔ پولیس جہاں چاہئے جس کو چاہئے حراست میں لیتی ہے اور بغیر کسی قانونی جواز کے ان کی گرفتاری کو طول دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح جبری گمشدگی ، حراستی ہلاکتیں اور ٹارگیٹ کلنگ اب وہاں معمول بن چکا ہے۔ مظفرآباد، وادی نیلم اور کوٹلی جیسے علاقے جبر اور آمریت کے مترادف ہیں۔ پاکستانی فوج پی او کے کو ترقی اور فلاح و بہبود کے لائق علاقے کے بجائے محض ایک سٹریٹجک اثاثہ سمجھتی ہے۔ ناانصافیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو اکثر وحشیانہ طاقت سے پورا کیا جاتا ہے، جو مساوات اور ترقی کے مطالبات کو مزید دباتا ہے۔جبکہ پاکستان کی فوجی تسلط کے تحت انتظامیہ اپنی عوام کی شکایات کو دور کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے، جس سے وہ مستقل مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہاں پر اظہار رائے پر قدغن ہے ، کوئی سچ بولے یا انتظامیہ اور فوج و پولیس کی ان حرکات کے بارے میں کچھ کہے تے اس کے خلاف نہ صرف کیس درج کئے جاتے ہیں بلکہ انہیں ملک دشمن قراردیکر ان کو پابند سلاسل بنادیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیاپراپنی رائے ظاہر کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہوتی ہے ۔
قارئین اس طرح کی صورتحال منقسم جموں کشمیر کے دو حصوں کی فرق کو واضح کرتا ہے ۔ وادی کشمیر کے سرینگر ، بارہمولہ اور کپوارہ ، اننت ناگ، پلوامہ اور دیگر قصبہ جات میں عوام کو ہر طرح کی بنیادی سہولیات فراہم ہے اور لوگ ایک آزادانہ ماحول میں زندگی گزاررہے ہیں تو دوسری طرف اگر ہم پی او کے مظفر آباد ، راولاکوٹ اور کوٹلی شہروں کی بات کریں تو وہاں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کاسامنا ہے ۔ ایک طر ف بھارت جموں کشمیر میں تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی مواقعے پیدا کرنے کی طرف توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پاکستان نے او او کے میں ایک عامرانہ طرز نظام قائم کیا ہے خطہ تعمیر وترقی سے کوسوں دور ہے اور لوگ پریشان حال ہے ۔ اس یہاں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے پر بات کریں ۔ ایک طرف پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے لوگ عدم تحفظ کے شکار ہیں تو دوسری طرف بھارت کے زیر تسلط جموں کشمیر میں لوگ ایک باوقار زندگی گزاررہے ہیں ۔ تو اس معاملے میں عالمی برادری کا رول اہم ہے اور پاکستانی انتظامیہ اور فوجی حکمرانوں کو اس بات کےلئے جوابدہ بنایا جانا چاہئے ۔ قارئین عالمی سطح پر خوشی کا دن منانے کا مقصد بھی یہی ہونا چاہئے کہ دنیا کے جن خطوں میں لوگوں کو زبردستی فوجی طاقت کے بل پر دبایا جاتا ہوں ، ان سے ان کی زمینیں چھینی جاتی ہوں، ان کے نوجوانوں کو پُر اسرار طریقے سے قتل کیا جاتا ہو اور ان کی آواز کو دبانے کےلئے بیجا طاقت کا استعمال کیا جاتا ہو ان خطے کے عوام کو اپنا حق دلانے اور انہیں وہ خوشی لوٹانے کےلئے آواز بلند کی جائے ۔ یہ دن پو او کے کے لوگوں کے حق میں آواز اُٹھانے کا موقع ہے تاکہ اس دن کی اہمیت کی صحیح طریقے سے اُجاگر کی جاسکے ۔