وادی کشمیر کا ذرہ ذرہ اپنی خوبصورتی کا شاہکار ہے ۔ یہاں کے جنگلات، بیابان ، سبز وادیاں ، بلند و بالا برفیلی چوٹیاں خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے جبکہ یہاں کے پیڑ پودے ، درختاں اس خوبصورتی کو دوبالا کرتے ہیں تبھی تو اس کوخطے کو ”زمین پر جنت“ کا نام دیا گیا ہے ۔ قارئین جہاں پر پیڑ پودوں کی بات ہے تو وہاں وادی کشمیر کے چنار کے درخت کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے ۔ وادی کشمیر میں پایا جانا والا درخت نہ صرف کشمیر کی پہنچان ہے بلکہ یہ ہمارے ثقافتی ورثی کی بھی نشانی ہے ۔ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی چنار کے درختوں کی پونپل کھلتی ہے اور سبز پتے نکلنے شروع ہوتے ہیں ۔ چنار کے درخت کے پتے پورے سیزن میں کئی رنگ تبدیل کرتا ہے جہاں یہ گرماءمیں سرسبز ہوتا ہے وہی موسم خزاں کے آتے آتے یہ پتے لال ، سُرخ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جبکہ موسم سماءکے ابتدا میں یہ زردی اختیار کرتے ہیں ۔ موسم خزان میں چنار کے درختوں سے گرتے پتے وادی کشمیر کی خوبصورت میں اضافہ کرتے ہیں۔ چنار کے درختوں کا ذکر یہاں کی لوک کہانیوں اور داستاں میں بھی پایا جاتا ہے ۔اسی طرح سرسبز میدان موسم گرماءمیں ایک الگ ہی نظارہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ میدان سبز چادر کی مانند ڈھلوانوں ، باغات اور کھلے میدانوں میں نظر آتے ہیں ۔ یہ گھاس کے میدان نہ صرف وادی کی بصری کشش کو بڑھاتے ہیں بلکہ متعدد جانوروں کی انواع کے لیے ضروری رہائش گاہیں فراہم کرکے خطے کے ماحولیاتی توازن میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم جنگلات کی بات کریں تو جنگلات میں مختلف اقسام کے جنگلی پھول کھلتے ہیں۔ جنگلوں میں موجود درختاں ہرے بھرے ہوتے ہیں جو کہ مختلف مخلوق کےلئے زندہ رہنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات میں مختلف ایسے پیڑ پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں، ان میں آرٹیمیا، لیونڈ ، ویلیر اور دیگر اقسام کے پودے ہوتے ہیں جو مختلف ادویات بنانے کےلئے کام آتے ہیں یا مقامی سطح پر علاج کےلئے استعمال میں لائی جاتی ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ جنگلوں اور سبز میدانوں میں مختلف اقسام کی ایسی سبزیاں بھی پائی جاتی ہیں جو قدرتی طور پر اُگتی ہے جس کےلئے نہ ”کھاد ، نہ دواپاشی اور ناہی اس کےلئے سنچائی کےلئے پانی درکار ہوتا ہے تاہم یہ سبزیاں مختلف امراض کےلئے بھی مفید مانی جاتی ہے۔اسی طرح چمپا، جو اپنی خوشبو کے لیے مشہور ہے، کشمیر کے نباتات میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اس کے خوشبودار پھول عطر، بخور اور روایتی تقریبات میں استعمال ہوتے ہیں۔ چمپا کی مہکتی خوشبو ہوا میں لہراتی ہے، ایک غیر حقیقی ماحول بناتی ہے اور زائرین کو ایک ناقابل فراموش حسی تجربہ دیتی ہے۔قارئین اس کے علاوہ یہاں مقامی سطح پر بہت سے ایسے پھول ہیں جو نہ صرف خوبصورت بلکہ خوشبو دار بھی ہوتے ہیں ان میں خاص طور پر گلاب جن کا رنگ سفید، گلابی ہوتا ہے یہ گلاب ”کشمیری گلاب “ کے نام سے مشہور ہے جو خشبو تیار کرنے اور عطر گلاب جیسی ادویات کےلئے استعمال میں لایا جاتا ہے اس کے علاوہ گلاب کے پتے مختلف پکوانوں کے ساتھ ساتھ مشروبات جیسے ”قہوہ “ میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
قارئین جیسا کہ یہ بات آپ کو معلوم ہی ہے کہ وادی کشمیر میں مختلف اقسام کے میوہ جات بھی اُگتے ہیں اور وادی کشمیر میں باغبانی کے شعبے میں کافی ترقی دیکھی گئی ہے یہاں کے میوہ باغات صدیوں سے یہاں کی معیشت کو استحکام بخشتی ہے ۔ قارئین مانا جاتا ہے کہ وادی میں سیب کا تعارف سر والٹر لارنس سے منسوب ہے، جنہوں نے 1800 کی دہائی کے آخر میں سیب کے پہلے درخت لگائے تھے۔ تب سے، سیب کی کاشت کشمیر کی معیشت اور ثقافتی ورثے کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے، گلابی اور سفید سیب کے پھول موسم بہار میں ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے اور ان میوہ باغات میں وادی کی حقیقی خوبصورتی جھلکتی ہے ۔ وادی کشمیر میں کاشتکاری چاہئے پھول بانی کی ہو ، میوہ کی کاشتکاری ہو، سبزیوں کی ہو یا دیگر فصلوں کی کاشتکاری ہو یہ نہ صرف خطے کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے بلکہ اس سے کشمیر کی ایک ثقافتی شناخت بھی قائم ہے البتہ موسمیاتی تبدیلی، زرعی اور جنگلاتی اراضی پر شہر کاری نے یہاں پر کاشتکاری کے شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ اور اس طرح سے یہ بے ہنگم شہر کار ی کشمیری ثقافت کےلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ مقامی سرکار اور ماحولیات کے تحفظ کےلئے کام کرنے والی انجمنوں کی جانب سے اس طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور ماحولیات کے تحفظ کےلئے نہ صرف عوامی بیداری پھیلائی جارہی ہے بلکہ زمینی سطح پر بھی کام کیا جاتا ہے تاہم اس کے باوجود بھی ماحولیات کو کافی خطرہ لاحق ہے کیوں کہ جنگلاتی اراضی ، زرعی زمین اور آبی ذخائر پر ناجائز قبضہ جاری ہے اور تعمیراتی سرگرمیاں بھی بلا روک ٹوک جاری ہے جس پر اگر فوری روک نہ لگائی جائے تو اس خطہ جنت میں زمین بنجر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔