قارئین مختلف انسانوں میں مختلف شوق ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کےلئے وہ بڑے سے بڑے خطرے بھی مول لیتے ہیں جبکہ کوئی تیراکی کا شوقین ہوتا ہے تو کوئی ”بیل “کی سواری کا شوق رکھتا ہے اسی طرح کئی لوگوں کو نئی جگہوں کی تلاش کا شوق رہتا ہے جبکہ کئی لوگ کوہ پیمانی کا شوق رکھتے ہیں ۔ کوہ پیمانی کئی طرح کے چلینج سے بھر پور ہوتا ہے جس میں نہ صرف انسان کو ذہنی مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ پختہ ارادہ اور جسمانی مضبوطی بھی ضروری ہے کیوں کہ پہاڑوں کو سر کار جسمانی طور پر ایک بہت بڑا چلینج ہوتا ہے ۔ یہ سفر نہ صرف کوہ پیماﺅں کو فطرت کے قریب جانے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ وہ خوف و خطر کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں ۔پہاڑوں کو سر کرنے کا سفر اُس وقت شروع ہوتا ہے جب کوہ پیما پگڈنڈی پر پہلا قدرم رکھتا ہے اور مضبوط ذہنی اور جسمانی ارادے کے ساتھ یہ سفر شروع کرتا ہے ۔ ایک کوہ پیمااپنے سفر کے آغاز سے قبل ہی اس کےلئے جسمانی اور ذہنی تیاری کرتا ہے اور اپنے جس کو مختلف موسمی تبدیلی کےلئے تیار کرتا ہے اور سخت سردی برداشت کرنے کی مشق کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ڈھلوانوں، نوکیلے پتھروں پر چھڑنے اور اُترنے کی پہلے ہی مشق کرتے ہیں ۔ موسمی تبدیلی ، تھکان اور بھوک پیاس کو برداشت کرنے ضروری ہوتا ہے جو کوہ پیماو¿ں کو جسمانی دباو¿ کے لیے تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ پہاڑ پر چڑھنا صرف جسمانی طاقت کے بارے میں نہیں ہے، اس میں رکاوٹوں پر قابو پانے، توجہ مرکوز رکھنے اور سفر کے مشکل ہونے پر آگے بڑھنے کے لیے مضبوط ذہنیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چوٹی تک پہنچنے کی امید کوہ پیما کے عزم کو تقویت دیتی ہے لیکن اسی طرح یہ علم بھی کہ چوٹی تک پہنچنے کا راستہ چیلنجوں سے بھرا ہو گا جس کے لیے صبر، حکمت عملی اور موافقت کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض اوقات کوہ پیماﺅں کو مختلف مسائل جیسے شدید بارش یا ہوا کا سامنا بھی رہتا ہے اور اس کےلئے بھی وہ ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ قارئین کوہ پیمائی کوئی آسان کام نہیں ہے جہاں اس کےلئے پختہ ارادہ ، مضبوط جسمانی اور ذہنی طاقت وہی کوہ پیمائی میں تیاری بہت ضروری ہے اور کوہ پیما اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس سفر کو شروع کرنے سے پہلے ہی وہ کئی مہینوں تک اس کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور مشق کرتے رہتے ہیں ۔ کوہ پیماﺅں کےلئے جہاں پہاڑ پر چڑھنے کی صلاحیت اور جانکاری ضروری ہے وہیں ان کےلئے راستے کی جانکاری بھی ضروری ہے۔ وہ اس سفر کے بارے میں تمام راستوں کا اچھے سے مطالع کرنے کے ساتھ ساتھ اُن پہاڑوں کے راستے اور موسمی حالات کا مطالعہ کرتے ہیں جس پر وہ چڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قارئین کوہ پیماﺅں کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایسے آلات اور سازوسامان رکھیں جو انہیں اس سفر میں درکار ہو اور اس کی معیاریت بھی لازمی ہے اس لئے وہ سفر سے پہلے ہی اس کےلئے بجٹ مقرر کرتے ہیں۔ کوہ پیما جس چوٹی کو سر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اس کو پہلے تصور میں ہی کامیابی کے ساتھ سر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیوں کہ ذہنی طور پر اس سفر میں آنے والے چلینجوں کےلئے تیار رہنا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا جسمانی طور پر چلینج کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
قارئین ان کوہ پیماﺅں میں مرد و خواتین دونوں اصناف حصہ لیتی ہیں اور ان کوہ پیماﺅں میں ایک لیڈر ”سارہ بھی “ہے ۔ سارہ جب ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑی تھی تو سرسراتی ہوا کے ساتھ سفید برف کی چوٹی پر سورج کی کرنیں ایک چمک پیدا کرتی تھیں سارہ نے اپنی کوہ پیمائی ٹیم کے ساتھ چڑھائی شروع کی، ہر قدم اسے اپنے مقصد کے قریب لاتا رہا۔ جب وہ سرسبز جنگلوں اور پتھریلی پگڈنڈیوں سے گزرتے تھے تو نئے نئے چلینج کا سامنا رہتا تھا ۔جوں جوں انہوں نے بلندی حاصل کی ان کےلئے مشکلات اور زیادہ بڑھ رہی تھیں۔سارہ نے اپنی ٹانگوں میں جلن اور اپنے پیک کے وزن کو محسوس کیا، لیکن وہ ہر قدم کے ساتھ سامنے آنے والے حیرت انگیز نظاروں سے متاثر ہو کر آگے بڑھ گئی۔ سارہ کےلئے یہ زندگی کا پہلا تجربہ تھا جس میں اس سفر کے دوران اسے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہا ہے البتہ ٹیم کے ساتھ اس کے حوصلے بلند تھے کیوں کہ کوہ پیمائی کی ٹیم ایک دوسرے کا ساتھ تب تک نہیں چھوڑتے جب تک نہ وہ اپنی منزل کو نہیں پاتے ۔ کوہ پیمانی کے سفر کے شروع ہوتے ہی کوہ پیماﺅں کےلئے ایک الگ دنیا شروع ہوتی ہے جہاں پر نہ کوئی مدد ، نہ ٹیکنالوجی کام آتی ہے بلکہ یہ سفر قدرت کے ماحول پر منحصر ہوتا ہے جہاں قدرت کی طاقت کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس طاقت کے آگے انسان کا بس نہیں چلتا ۔ پگڈنڈی ختم ہوتی ہے نوکیلے پتھروں کا سفر شروع ہوتا ہے کہیں کہیں پر ایسی ڈھلوان ہوتی ہے جس پر چڑھتا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ برفیلی علاقوں سے گلیشر تک یہ سردی سے کپکتا دینے والا سفر ہوتا ہے ۔ سفر کے دوران موسم کب تبدیل ہو کسی کو معلوم نہیں ہوتا ۔ اسی گڑھی موسم بہتر ہوتا ہے اور سورج کی کرنیں گرمی دیتی ہے تو اسی پل شدید طوفانی ہوائیں چلنے کے ساتھ ہی ژالہ باری اور شدید بارش کا سامنا ہوتا ہے جو آگے سفر جاری رکھنے میں دشواریاں پیش کرتا ہے۔اونچائی پر آکسیجن کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور ہوا کا دباﺅ کم ہونے سے کوہ پیماﺅں کو ذہنی دباﺅ بڑھتا ہے ۔اس کے علاوہ ہوا کا دباﺅ کم ہونے اور آکیسجن کی کمی کی وجہ سے انہیں متلی آنے کے ساتھ ساتھ چکر آنااور سردرد کا سامنا بھی رہتا ہے ۔ انہیں ہوا کے دباﺅ سے نمٹنے کےلئے وقت درکار ہوتا ہے اسلئے وہ اونچائی پر چڑھنے سے پہلے بیس کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے تاکہ وہ تازہ دم ہوں اور آگ کا سفر جاری رکھ سکیں۔کوہ پیمائی کے شوقین اس سفرکو یاد گار بناتے ہیں جو دنیاکے شور شرابہ اور ہنگامہ خیز کی زندگی سے دور فطرت کی آغوش میں وقت گزارنے کا موقع فراہم ہوتا ہے ۔ کوہ پیمائی کا سفر ان لوگوں کےلئے دنیا کی بڑی کامیابی ہوتی ہے کیوں کہ یہ ان کے حوصلے ، عزم، ہمت اور صبر کا امتحان ہوتا ہے ۔