وقف املاک نہ کسی مذہبی لیڈر کی ملکیت ہوتی ہے اور ناہی کسی خاص انجمن کی ملکیت ہے بلکہ یہ لوگوں کی جانب سے اسلام کے کاموں کےلئے ذاتی طور پر عطیہ کی جاتی ہے اور اس جائیداد کا حساب وکتاب، نگرانی اور نظم ونسق کےلئے بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس کے ذمہ یہ ہے کہ وہ اس ملی جائیداد کی نہ صرف دیکھ بھال کریں بلکہ اس کی حفاظت اور ترقی کو بھی یقینی بنائیں البتہ اس وقف جائیداد کوذاتی مفادات کےلئے استعمال میں میںلایا گیا ہے اور وقف املاک کی لوٹ و کھسوٹ کا معاملہ پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی تھا ۔اس وقومی اثاثے سے متعلق کوئی ”آڈیٹ“ نہ ہونا اور جوابدہی کے فقدان کی وجہ سے وقف ملکیت کو ذاتی سمجھ کر اس کے ذمہ داروں نے اس کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھی ۔ قارئین کو یاد ہوگیا کہ جموں کشمیر میں اس وقف کا نام پہلے ”مسلم وقف بورڈ “ تھا جو وقت کے وزیر اعلیٰ یا ریاست کے سربراہ کے زیر نگرانی کا م کرتا تھا ۔ البتہ مرحوم مفتی محمد سعید نے اس کا نام تبدیل کرکے اس کو ”مسلم وقف بورڈ “ رکھا تھا ۔ اس وقف بورڈ کے تحت جواثاثے تھے اس کی نگرانی سرکار کے ذمہ ہے ہی تھی لیکن سرکار اپنے کار درد میں مصروف رہتی ہے جبکہ وقف کے ذمہ داران اور اس کو چلانے والے سرکاری ملازم نہیں تھے ۔ قارئین وادی کشمیر کی جہاں بات ہے تو ایک مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے سبب یہاں پر بہت سارے آستان، زیارت گاہیں اور خانقاہیں موجود ہیں جو وقف کے زیر کنٹرول ہیں البتہ ان عبادتگاہوں سے جو ماہانہ کروڑوں روپے بطور نذرانہ آتا تھا اس کا کہیں حساب کتاب نہیں تھا اور ناہی کوئی ان سے یہ پوچھنے والا تھا کہ اس نذرانہ کی رقم کا کیا ہوا اور کس کام پر خرچ ہوئی ہے جبکہ اس رقم کو کئی ایسے کاموں پر استعمال میں لایا جاسکتا تھا جو عوام کے فائدے کے ہوتے ،لیکن یہ دیکھا گیا کہ اس اس جائیداد کو فلاحی کاموں کے استعمال کے بجائے اس کے ذمہ دارں نے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا ۔ وادی کشمیر کی با ت کریں تو وادی کشمیر میںمختلف جگہوں پر وقف کی جائیدادیں موجود ہیں جن میں دکانین ، عمارتیں اور باغات شامل ہیں ۔ ان دکانات کو اُس وقت کے ذمہ داروں نے نہ صرف اپنے منظور نظر افراد کو دیئے بلکہ ان کا کرایہ بھی نہ ہونے کے برابر رکھا گیا جبکہ ان ہی بازاروں میں نجی دکانوں اور عمارتوں کی کرایہ وقف کی مقرر شدہ کرایہ سے دو سو گنا زیادہ ہے ۔اگر ہم لالچوک ، خانیار، نوہٹہ، بارہمولہ، کپوارہ، اننت ناگ اور دیگر جگہوں پر دکانوں کی بات کریں تو یہ اہم مارکیٹ میں ہیں جن کا کرایہ سب سے زیادہ ہونا چاہئے تھا لیکن نہیں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ان جگہوں پر ہونے کے باوجود بھی کرایہ سالانہ تین سو روپے تھا جو کہ سراسر ناانصافی ہے ۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر میں وقف جائیداد کو وقف ذعماﺅں نے ذاتی ملکیت سمجھ کر اس کی بندر بانٹ بھی جاری رہی ہے ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ دیگر مذاہب سے منسلک جائیدادوں میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ وادی کشمیر میں وقف کی جائیداد میں کمی آتی گئی ۔ وقف کی جانب سے آج تک کوئی بھی ایسا فلاحی کام انجام نہیں دیا گیا جس سے لوگوں کو راحت ملتی اور لوگ اس کو اپنا سمجھتے تھے جبکہ عام لوگوں کا یہی تاثر ہے کہ وقف جائیداد ان لوگوں کی جاگیر ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں ۔ اس کے انتظام کے معاملے میں کوئی حساب کتاب اور محاسبہ نہیں ہوتا اور ناہی عام لوگوں کو اس ضمن میں کبھی آگاہ کیا جاتا رہا ہے کہ وقف کی کل جائیداد کیا ہے اور اس میں گزشتہ ستر برسوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ وقف جائیداد کا اگر صحیح استعمال کیاجاتا تو یہ ایک قومی سرمایہ بن جاتا جو بے روزگاری کو دور کرنے میں بھی اہم رول اداکرتا ۔ اگر وادی کشمیر میں قائم شدہ وقف بورڈ کی جانب سے سکول ، ہسپتال اور دیگر ادارے کھولے جاتے تو یقینی طور پر لوگوں کو اس سے روزگار بھی ملتا اور وقت جائیداد میں اضافہ بھی ہوتا۔ تاہم وقف میں موجود بد نظمی، لوٹ کھسوٹ نے اس اہم ادارے کے اثاثے بڑھانے کے بجائے
گھٹادیئے ۔اس لئے ضروری ہے کہ وادی کشمیر میں جو وقف ادارہ ہے اس میں نہ صرف شفافیت لائی جائے بلکہ وقف کے ذمہ داروں کو جوابد ہ بھی بنایا جائے تاکہ وقف جائیداد جوکہ ایک ملی اثاثہ ہے اس کی صحیح دیکھ بھال ہو اور اس کی ترقی یقینی بن جائے ۔ قارئین یہ معاملہ صرف وادی کشمیر یا جموںکشمیر کا ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں وقف کی جائیداد کی بندر بانٹ ہوتی رہی ہے اور اب اگر مرکزی سرکار کی جانب سے ”وقف ترمیمی ایکٹ“ لایا گیا ہے جو نہ صرف وقف جائیداد کی نگرنی کرے نے کا سرکار کو حق دیتا ہے بلکہ حساب و کتاب ، محاسبہ اور نگرانی کا بھی حق دیتا ہے تو اس میں بُرائی کیا ہے لوگ سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں۔