کشمیر کی محبت میں گرفتار دیارِ غیر سے تشریف آور سیاح برف پوش پہاڈوں کے دامن میں واقع شہرہ آفاق سیاحتی مقام پہلگام کے حسن وجمال سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ مصروف ترین زندگی سے کچھ دنوں کی فرصت لینے کے بعد فرحت آفرین وادی گلپوش میں سکون اطمینان کے لمحات گزارنے کے سلسلے میں خوشی وانبساط میں محو خوب انجوائے کر رہے تھے۔ ان مہمانوں کی آمد سے پورے کشمیر میں رونق لوٹ آئ تھی۔
سیاحتی مقامات پران سیلانیوں کی آمد سے ہر طرف چہل پہل تھی، رونق تھی اورعیش و نشاط کی سرمدی ہوائیں فضاء بسیط میں گشت کررہی تھیں۔مگر کس کو معلوم تھاانسانیت اور کشمیریت کے قاتل کشمیر کو لہو لہو کرنے کے طاق میں بیٹھے ہیں۔ کس سے معلوم تھا 22اپریل کشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن ہوگا؟ کون جانتا تھا کشمیر لہو لہو ہوگا، کشمیریت پر دھبہ لگانے کی کوشش ہوگی اور انسانیت دم توڈ بیٹھے گی۔اس داستان الم کو بیان کرنے میں الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ہیں، قلم کی زبان گُنگ ہے اور ذہن مفلوج۔ ضمیر کی عدالت میں ہزاروں سوال اُٹھ رہے ہیں آخر ان معصوموں کی کیا خطاء؟ کس جُرم میں ہنستے کھلتے چہرے گُل کردئے گئے؟ کیا بگاڈا تھا ان لوگوں نے جو صرف کشمیر کی خوبصورتی میں گرفتار تھے۔ آخر یہ موت کا تانڈو ناچ کیوں اور کیسے؟بیوی کے سامنے شوہر کی نعش خون میں غلطاں کا یہ منظر وجود کو لرزہ بہ اندام کر رہا ہے۔خواتین کی چیخ و پکار سے عام وخواص ملول و مضطرب ہے۔ ہر سو غم و الم کی آندھیاں تیزی سے گشت کر رہی ہیں۔کشمیر کی تاریخ میں ایسا پہلا واقع جب 28بے گناہ اور معصوم سیاحوں پر حملہ کرکے انہیں مار ڈالا گیا۔ ۔28گھرانوں کےچشم و چراغ گُل کرنے والے ان درندوں نے انسانیت کو پاوں تلے رونڈ ڈالااور کشمیر یت کو نیلام کیا ۔اس حملے سے ہر کشمیری کی کمر ٹوٹ چکی ہے، ہر گلی میں سوگ ہے، ہر علاقے میں ماتم ہے اور ہر شہر میں آہ و فغان ہے۔ تعلیمی ادارے مقفل ہیں، بازار ویران اور شہرو گام سنسان ہے۔ چہار سُو نوحہ ہے، آہ فغاں ہے ،رنج و الم ہے۔ پوری کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ کشمیری کی ممہان نواز قوم کو داغدار بنانے والے ان وحشی درندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے جائے۔ کشمیری قوم ددد و الم سے چُور چُور ہوچکی ہے اور بار بار سوال کرتی ہے آخر یہ خونِ ارزاں کیوں ہوا؟ اس انسانیت سوز واقعے پر جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن رسمی تعزیتی پیغامات اور سیاسی تقریروں سے بات نہیں بنے گئ بلکہ اس خلاف اجتماعی طور آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ایکطرف سے پوری وادی غم میں ڈوب چکی ہے، لوگ سڑکوں پر ہے ہیں، کسی کا چولھا نہیں جل رہا ہے، ہر آنکھ نم ہے اور ہر دل بےقرار لیکن دوسری طرف کچھ لوگ معصوم کشمیریوں کو بدنام کرنے میں کوئ کثر باقی نہیں چھوڈ رہے ہیں۔ خدا را انصاف کیجئے۔ تعصّب کی عینک آنکھوں سے اُتارئے۔ نفرت کی دیواروں کو مٹائے۔ گُزشتہ 30سال سے کشمیر کے سینےپر تینگ و تفنگ اور گن گرج سے یہاں کے قبرستان آباد ہوچکے ہیں۔چار سال سے اسمیں کمی آچکی تھی اور سیاحت کو فروغ مل چکا تھا مگر شومی قسمت! لمحوں کی بہاریں خزاں میں تبدیل ہوگئیں۔ کشمیر خون میں بار پھر غلطاں، کشمیریت نیلام، معصوم انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ ایک بار پھر قتل و غارت کابازار گرم ہوا، پھر ایک بیوی بیوہ ہوگئ،پھر کئ گھرانوں کے سرپرست کشمیر کی خوبصورتی کا لطف اُٹھاتے ہوئے درندوں کی درندگی کے شکار ہوگئے اور پھر ایک قیامٹ ٹوٹ پڑی لیکن اس قیامت خیز مرحلے پر پوری کشمیر قوم مہلوک شدہ خانوادوں کے غم میں برابر شریک ہیں۔ کل سے ہر گلی اور ہر نکڑ پر کشمیری لوگ سیاحوں کی مدد کے لئے آگئے آرہے ہیں۔ کشمیری قوم سیاحوں کی حفاظت کرتے کرتے اپنی سینے پر گولی کھانے والے لوگ ہیں۔ سرکار پر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اس واقعے میں قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائں اور کل سے جو حالات بن چکے ہیں، دوریاں پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں انکو مٹانے کے لئے کام شروع کرے۔ کشمیر میں مقیم سیاحوں کو یقین دلایا جائے کہ بنا کسی ڈر اور خوف کے یہاں رہ سکیں۔ شعبہ سیاحت سے وابستہ ہزاروں لوگوں کی نیندیں کل سے اُڑ چکی ہیں انکی اس بےقراری اور بے چینی کو دور کرکے دوبارہ ایک خوشگوار ماحول پیدا کرے۔