وادی کشمیر کا ماضی شاندار رہا ہے جس کی بھر پور تاریخ ہے جو یہاں پر قدیم ثقافت اور تہذیب کو اُجاگر کرتی ہے جس میں کشمیریت انسانیت اور ہمدردی کی مثالیں جھلکتیں ہیں ۔ موجودہ دور سے ہٹ کر اگر ہم کشمیر کے ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہاں پر ہم آہنگی ، بھائی چارے اور ایثار کی مثالیں ملتی ہیں ۔ کشمیریت کی جڑیں ماضی سے پیوست ہیں جہاں پر شیومت ، بدھ مت اور اسلام ایک سے پنپ رہی تھی اور اپنے اثرات سماج پر چھوڑے جس نے ایک منفرد ثقافت کو تشکیل دیا جس کو کشمیریت کہتے ہیں۔ وادی کشمیر علم و ہنر کا بھی مرکز رہا ہے جہاں پر علماء، سنتوں اور صوفیوں نے خداپرستی اور روحانی اقدار کو فروغ دیا ہے ۔ قارئین وادی کشمیر ویدک دور کا مرکز رہا ہے اسی طرح فارسی کا بھی بول بالا ہوا جس نے کشمیر اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک پُل کا کام کیا جس نے کشمیر میں ایک ملی ثقافت کو پروان چڑھانے میں رول اداکیا ۔ تاہم کچھ دہائیوں سے یہاں پر بکھرتا ہوا ماحول دیکھنے کو ملا جس کی بڑی وجہ بیرونی اثرات اور نظریات کو اپنانا ہے جس نے کشمیریت کی بنیاد کو کمزور کرنا شروع کردیا ہے ۔ تاہم اس طرح کے چلینجوں کے باوجود بھی ایک نیا کشمیر اُبھر کر سامنے آرہا ہے ۔ قارئین وادی کشمیر کی ثقافتی تاریخ اور نئے کشمیر کے وژن کو سمجھنے کےلئے ماضی کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ وادی کشمیر پر مختلف قوموں کی حکومت رہی ہے جن میں موریوں سے لیکر مغلوں تک اور مغلوں سے لیکر انگریز سکھ اور ڈوگروں تک مختلف ادوار دیکھے گئے ہیںاور ہر دور نے اپنے نقوش چھوڑے جس نے ایک ملی جلی ثقافت کو جنم دیا ۔ اسی لئے کشمیر میں ہر طرح کی ثقافت کی نشانیاں پائی جاتی ہیں ایک طرف مغل دوسری طرف موریوں اور دیگر حکمرانوں نے اپنے طرز پر حکمرانی چلائی ۔ قارئین کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے راج ترنگنی میں مفصل طور پر ذکر کیا گیا ہے جو کہ 12ویں صدی کی حکمرانی ثقافت اور دیگر حکمرانی کے معاملات کا اس میں ذکر کیا گیا ہے ۔ جہاں تک چوتھی صدی کے بدھ مت کی بات ہے تو اس دور میں وادی کشمیر میں بدھ مت کو فروغ ملا اس ضمن میں سکالر واسو بندھو اور ابھینو گپتا نے اس معاملے میں بہتر ڈھنگ سے روشنی ڈالی ہے جس میں تاریخی واقعات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔
قارئین وادی کشمیر میں قرون وسطیٰ کی حکمرانی کی وجہ سے یہاں پر عربی اور فارسی متعارف ہوا اور صوفیت سامنے آئی ۔ صوفیت کو شیخ نورالدین نورانی جیسے صوفی بزرگوں نے صوفیت کو فروغ دیا اور اسلام کی ترویج میں انہوںنے ایک اہم کرداراداکیا ہے ۔ قارئین شیخ نورالدین نورانی جیسے صوفی بزرگوں کے ذریعے اسلام کی آمد نے موجودہ ثقافتی تانے بانے کو نہیں مٹا دیا بلکہ اسے مزید تقویت بخشی، انہوںنے اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کیا اور روحانیت کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کی کوشش کی ۔ قرون وسطیٰ کے دور کے بعد یہاں پر مغل دور شروع ہوا ۔مغلوں نے فن تعمیرات ، صنعت و ہرفت اور دستکاری کو فروغ دیا جس میں قالین بافی، شال بافی، پیپر ماشی اور دیگر دستکاریاں شامل ہیں۔ مغلوں کے دور میں کشمیری دستکاری کو عالمی وسعت ملی اور اس کو بین لاقوامی سطح پر متعارف کرانے میں مدد ملی ۔
قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر میں مختلف قوموں کی حکمرانی رہی ہے ۔ مغلوں کے زوال کے بعد جب پورے ہندوستان پر انگریزوں نے قبضہ کیا تاہم کشمیر میں سکھوں نے اپنا تسلط قائم کیا جس کے بعد 1846میں بے نامہ امرتسر کے تحت ڈوگرہ مہاراجہ نے سکھ حکمرانوں سے کشمیر کی حکمرانی حاصل کرلی اور اسی وقت سے کشمیر کے سیاسی اور ثقافتی دور میں تبدیلی دیکھی گئی ۔
تاہم 20صدی میں ایک اور سیاسی تبدیلی اُس وقت دیکھنے کو ملی جب شیخ محمد عبداللہ نے ڈوگرہ راج کے خلاف آواز اُٹھائی اور نئے کشمیر کا نعرہ دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر مسلم اکثریتی خطہ ہے جن کو اپنے حقوق ہونے چاہئے تاہم تقسیم ہند کے بعد وادی کشمیر کے سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی جس میں جموں کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اور 1947میں ہوئے برصغیر کی تقسیم نے کشمیر کے حالات پر بھی اثرات ڈالے اور کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک متنازعہ خطہ بن گیا کیوں کہ ایک حصے پر پاکستان نے قبضہ کرلیا تو دوسرا حصہ بھارت کے ساتھ رہا ۔ اسی تناظر میں 1990میں جموں کشمیر میں شورش بپا ہوئی اور تشدد کا آغاز ہوا جس نے خاندانوں کے خاندان ختم کئے ۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے بچھڑ نے پر مجبور کیا اور سینکڑوں کنبے اپنے پیاروں سے محروم ہوئے ۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران حالات میں کافی بہتری آئی اور نیا کشمیر کا وژن پھر سے پنپنے لگا ۔ اس نئے کشمیر میں کشمیریت کو زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس نئے کشمیر کے وژن کو کشمیری ثقافت اور تاریخ کو مٹانے کے لئے نہیں بلکہ اس کے احیاکےلئے ہونا چاہئے جس میں پھر سے مختلف مذاہب کے لوگ مل جھل کر ایک ساتھ ایک تہذیب کا حصہ بنیں ۔