وادی کشمیر جو امن و سلامتی خوبصورتی اور مہمان نوازی کا مسکن رہی ہے اسی سرزمین کے ہر گل کو انسانیت کے قاتلوں نے لال کردیا اور کشمیریت کے نام پر وہ دھبہ لگادیا جس کی مثال نہیں ملتی ۔ پہلگام سانحہ پر ملک کا ہر شہری رنجیدہ اور غمزدہ ہوا ہے کیوں کہ یہ حملہ انسانیت کو جھنجوڑنے والا حملہ تھا ۔ وادی کشمیر جو اپنے مہمان سیاحوں کےلئے باہیں پھیلائی ان کا استقبال کرتی ہیں اور مہمانوں کےلئے اپنی پلکیں سجاتے ہیں آج وہی کشمیری اپنے ان مہمانوں کی میت کو دیکھ کر زاروقطار روتے ہیں ۔ یہاںسے ہر کوئی سیاح خوش وخرم اور مہمان نوازی کے گیت گاتا ہوا اپنے وطن واپس جاتا ہے لیکن آج پہلگا میں مارے گئے سیاحوں کی لاشیں یہاں سے واپس چلی گئیں جو کہ ایک المیہ ہے ۔ پہلگام حملہ نہ صرف کشمیریت پر حملہ ہے بلکہ یہ انسانیت سوز واقعہ ہے جس کی اسلام میں نہ کوئی گنجائش ہے اور ناہی ایسا کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے یہاں تک کہ اسلام کہتا ہے کہ ”ایک بے گناہ “ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ اس طرح سے اس وحشیانہ حملے نے پوری انسانیت کو چھلنی کردیا ہے ۔
قارئین یہ حملہ ”دہشت گردی “ کی ایک زندہ مثال ہے اور یہ ان کی ناکامی کو اُجاگر کرتا ہے کیوں کہ اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کےلئے وہ اس طرح کے کسی بھی بیہمانہ قتل عام کو انجام دے سکتے ہیں انہوںنے یہ کرکے دکھایا ہے ۔ تاہم اس طرح کے حملے انہیں اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس سے ان کے عزائم ظاہر ہوتے ہیں جو کہ ہر کسی کےلئے چشم کشا ءہے ۔ دہشت گردوں نے ان معصوم سیاحوں کا قتل عام کیا جویہاں پر اپنے گھر سے دور محض وادی کے پر سکون فضاءمیں چند لمحے گزارنے آئے تھے جو ان کےلئے زندگی بھر کی یادوں میں رہتی لیکن ان بدنصیبوں کو کیا پتہ تھا کہ کوئی درندہ صفت انسان ان کی زندگی چھین لے گا ۔ یہ ظاہر ہے کہ اس قتل عام کے پیچھے ”دہشت گردوں “ کا کوئی بڑا مقصد تھا وہ چاہتے تھے کہ کسی خاص مسئلے سے توجہ ہٹاکر صرف اسی طرف دنیا کی نظریں رہیں تبھی تو اس گھناونے جرم کو انجام دیا گیا ہے ۔ کیوں کہ انسداد بغاوت کے سخت ردعمل اور بڑھتی ہوئی تنہائی کی وجہ سے اب فوجی یا اسٹریٹجک تنصیبات پر حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے، ان گروہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ نرم اہداف کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہ طاقت نہیں ہے جو ان نئے حربوں کی رہنمائی کرتی ہے، بلکہ سراسر مایوسی ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دہشت گردوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ ہر شخص کی شناخت جان کر ہی اس پر گولی چلاتے تھے تو ظاہر ہے کہ یہ منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا جانے والا سانحہ ہے ۔ وادی کشمیر میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں اور اس طرح کے حملوں سے اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دنیا جان سکے کہ وادی کشمیر کے حالات آج بھی ابتر ہی ہیں ۔ البتہ وہ اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکتے کیوں کہ کشمیریوں نے پہلگا م حملے کے بعد جس طرح سے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کشمیری کبھی بھی اس طرح کے خونی کھیل کا ساتھ نہیں دیں گے اور وہ دہشت گردی کے خلاف منظم ہیں۔
قارئین جموں کشمیرمیں دہشت گردوں کی ناکامی کا اعتراف پاکستانی آرمی کے چیف نے دبے الفاظ میں بھی کیا ہے جنہوںنے اپنے بیان میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیتے ہوئے اس معاملے کو مزید اشتعال انگیز قراردیا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ عالمی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کرانے کےلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی طرز پر پاکستانی دہشت گردوں نے ممبئی حملہ یعنی 11/26سانحہ انجام دیا تھا جس میں سینکڑوں افراد کی جان چلی گئی تھی اور اس حملے کے مساٹر مائنڈ تہور رانا جو اس وقت زیر حراست میں ہیں اور حال ہی میں اس کو امریکہ سے ہندوستان لایا گیا ہے اب یہ عدالتی کارروائی کا سامنا کرے گا جو پاکستان کے براہ راست ممبئی حملے میں ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے ۔اس پس منظر میں پہلگام حملہ نہ صرف وادی میں امن میں خلل ڈالنے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے بلکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے خون آلود ماضی کے بارے میں بین الاقوامی توجہ کو حقیقت سے ہٹانے کے لیے ایک حسابی خلفشار کے طور پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن اس منصوبے میں بھی وہ ناکام ہوجائیں گے کیوں کہ عالمی سطح پر اس حملے کو ”پاکستان کی دہشت گردی “ کے زاﺅے سے دیکھا جارہا ہے اور اب اس پر پردہ ڈالنے کی پاکستان کی کوششیں کام نہیں کریں گے ۔ عالمی سطح پر یہ رائے بھی ظاہر ہورہی ہے کہ یہ حملہ صرف اس طرف توجہ مبذول کرانے کےلئے کیا گیا ہے ۔
قارئین گزشتہ برسوں کے دوران وادی کشمیر میں امن و ترقی کی جو رفتار رہی ہے اس سے سیاحتی شعبے کو کافی فروغ ملا اور مرکزی اور یوٹی انتظامیہ کی کاوشوں کی بدولت حالیہ برسوں کے دتعداد سیاحوں کی ریکارڈ توڑ آمد دیکھنے کو ملی تھی ۔ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد نے کشمیر ”ٹورازم “ میں ایک نئی جان ڈال دی تھی اور اس شعبے سے ہر فرد خوش و خرم تھا چاہے وہ شکارہ والے ہوں، ہوٹل مالکان ، ٹرانسپورٹر، مزدور ، گھوڑے والے ، پونے والے اور دیگر افراد جو بلواسطہ یا بلا واسطہ اس شعبے سے وابستہ ہیں مطمین تھے کیوں کہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد وادی کشمیر میں سیاحت کا ایک نیا دور شروع ہوچکا تھا جس سے یہاں کی معیشت اور روزگار کو فروغ مل رہا تھا ۔ تاہم اس حملے نے سرکار کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے کیوں کہ مختلف ممالک کی جانب سے پھر سے ٹراول ایڈوائزری جاری کی گئی ہے اور کشمیر میں سیاحت کو خطرہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس طرح سے یہ حملہ نہ صرف انسانیت پر حملہ ہے بلکہ یہ کشمیری معیشت پر بھی حملہ قراردیا جاسکتا ہے۔ اس حملے کے بعد سینکڑوں افراد کا روز گار ختم ہوگیا ہے کیوں کہ ہوٹل بند پڑے ہیں ، رستوران اور شوروموں میں کوئی سیاح نظر نہیں آرہا ہے اور جو کل تک چہل پہل تھی وہ یکایک ختم ہوگئی ہے ”بقول شاعر، کل چمن تھا آج ایک سحرا ہوا “ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا۔“
پاکستان جو طویل عرصے سے وادی کشمیر میں ”درپردہ جنگ “ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس حملے کے بعد وہ پوری طرح سے ناکام ہوچکا ہے کیوں کہ کشمیریوں نے جس انداز سے اس حملے کی مذمت کی اور پاکستان کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج کیا اس سے ظاہر ہے کہ پاکستان سمجھ چکا ہوگا کہ کشمیریوں نے اس کے ناپاک عزائم کوبھانپ لیا لے ۔ ہلگام قتل عام کے ردعمل میں جو کچھ سامنے آیا وہ خوف یا خاموشی نہیں بلکہ وادی کے کونے کونے سے زبردست مذمت تھی۔ مقامی تاجروں نے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ہڑتال کی کال دی ہے۔ مذہبی رہنما، سول سوسائٹی کے ارکان اور عام شہری اٹھ کھڑے ہوئے، صرف مرنے والوں کا سوگ منانے کے لیے نہیں، دہشت گردوں کو بالواسطہ بتانے کے لیے کافی ہے۔ لوگوںنے صاف الفاظ میں یہ ظاہر کیا کہ ”یہ ہماری جنگ نہیں ہے جس میں عام انسانوں کا قتل عام ہو اور معصوموں کا خون بہے ، یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے کہ ہم اپنے یہاں آنے والے مہمانوں کے جسم زخموںسے چھلنے کردے بلکہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی میں ان کی راہوں میں پھول بچھاتے ہیں ۔
قارئین وادی کشمیر نے جو اس واقعے کے خلاف ہڑتال کیا اور اس کی پر زور مذمت کی یہ صرف محض ایک ہڑتال نہیں بلکہ اس انسانیت سوز واقعے اور ”دہشت گردی “ کے خلاف اجتماعی ریفرنڈم ہے جس میں لوگوں نے واضح کیا کہ کشمیری عوام اس طرح کی کسی بھی دہشت گردانہ اور پر تشدد کارروائی کے خلاف ہیں اور یہ ریفرنڈم پاکستان میں بیٹھے ان ہینڈلرز کے خلاف بھی واضح پیغام تھا کہ کشمیری عوام اب اس طرح کے مزموم حرکات پر خاموش بیٹھنے والے نہیں ہے ۔ پہلگام حملے کے بعد مقامی لوگ ہی سب سے پہلے سیاحوں کی مدد کو پہنچے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کی تغ و د میں لگ گئے جب تک سرکاری امداد پہنچی کشمیری لوگوں نے ہی سیاحوں کی مدد کی جو کہ ایک مثال ہے ۔
وادی کشمیر میں حالات بہتر ہونے کے بعد اگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ سکول کھلے ہیں ، سیاح ریکارڈ توڑ تعداد میں وارد کشمیر ہورہے ہیں ، کاروبار چل رہا ہے اور تعمیر و ترقی کا دور عروج پر ہے لیکن اس کے باجود بھی خطرہ درپردہ ہیں جیسے کہ ہم نے پہلگام حملے کو دیکھ لیا ہے تو آگے چل کر اس کےلئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور ان خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے تاکہ اس طرح کے واقعات رونماءہونے سے قبل ہی ٹالا جاسکے ۔ دوشمن پردے کے پیچھے ہے جن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کےلئے چوکس رہنے اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ کشمیر سے متعلق منفی پروپگنڈا کے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ مشاہدے میں آیا ہے جب پہلگام سانحہ وقوع پذیر ہوا تو قومی میڈیا کے کچھ اداروں کی جانب سے فرسودہ اور دقیانوسی تصورات کی تشہیر کی اور وادی کشمیر کو ایک جہنم زار ثابت کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ قومی میڈیا کے کچھ ادارے کشمیر کے خرمن امن میں آگ لگانے کی بھر پور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے بجائے اگر وہ پاکستان کے پروپگنڈا کا توڑ کرتے انہوںنے کشمیریوں کے خلاف ہی محاذ کھول کے رکھ دیا ہے جو قومی مفاد کے منافی ہے ۔ اس طرح کی کارروائی ہندوستان کی اخلاقیات کو بدنام کرتی ہے اور قومی اتحاد کے تانے بانے کو زک پہنچارہی ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے تعصبانہ روئے کو ترک کیا جائے اور اس حقیقت کیا ہے اور اس حملے کے پیچھے کے محرکات پر بات کی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کو بھی اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ہے ۔ قارئین جیسے کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ پہلگام جس کا مطلب ”پوہل یعنی چرواہا“ گام یعنی گاﺅں ہے یہ ایک ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا اور جس طرح سے اس حملے بعد پہلگام کے لوگوںنے اس کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اس کو اُجاگر کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وادی کشمیر کے ان زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کی جائے نہ کہ منفی بیانئے سے زخموں کو کریداجائے ۔