وادی کشمیر میں فوج اور عوام کے مابین بڑھتی قربت کے نتیجے میں نہ صرف فوج پر لوگوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے بلکہ اس سے فوج کو دہشت گردی کو ختم کرنے کےلئے بھی ایک طاقت ملی ہے ۔ فوج اور عوام ایک نیا رشتہ قائم کررہے ہیں جو خطے کے جامع امن کےلئے لازمی ہے ۔ وادی کشمیر میں طویل عرصے سے جو خلفشار پایا تا تھا اس سے اب کشمیر باہر نکل رہا ہے اور اس کام میں اگرچہ فوج کا اہم رول ہے تاہم اب عوام بھی فوج کے ساتھ تعاون کررہی ہے اور یہ ایک اہم اور مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ فوج اور عوام کے درمیان جو شکوک و تناﺅ تھا یہ دھیرے دھیرے ختم ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں امن کے قیام کےلئے مشترکہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔ اس طرح سے وادی کے نئے منظر نامے کی تشکیل ہورہی اور حفاظتی اقدامات اور ”دہشت گردی “ کے خلاف اپنی کاروائی میں فوج کو مقامی انٹیلی جنس مل رہی ہے جو اسے موثر کارروائی میں مدد گار ثابت ہورہی ہے ۔
قارئین دہائیوں سے جاری رہنے والی تشدد کی کارروائیوں کے چلتے مقامی لوگ دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی لفظ کہنے سے انتقامی کارروائی کے ڈر سے کتراتے تھے اور یہ خوف اب دھیرے دھیرے ختم ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں اب وادی کے متعدد اضلاع میں اس حوالے سے ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے جس کے نتیجے میں لوگ فوج کے قریب ہورہے ہیں اور مقامی لوگ تیزی سے قیمتی انٹیلی جنس فراہم کر رہے ہیں جس سے فوج کو دہشت گردی کے خلاف درست اور موثر کارروائیوں میں مدد ملی ہے۔ سیکورٹی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بڑھتی ہوئی عوامی حمایت خطے کی انسداد بغاوت کی کوششوں میں ایک لازمی ستون بن گئی ہے۔ اس طرح سے مقامی لوگ صرف تماشائی یا خوف کے ڈر سے خاموشی اختیار نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ وادی کشمیر میں قیام امن اور حفاظت کےلئے فوج کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں ۔ وادی میں فوج کی جانب سے چلائے جانے والے سد بھاونا آپریشن کی وجہ سے ہی فوج اور عوام کے مابین قریبی رابطہ قائم ہوا ہے ۔ اس آپریشن کے تحت فوج کی جانب سے کئی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں جس کے تحت طبی کیمپو ں کا انعقاد کیا جارہا ہے جن میں عام لوگوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کی جارہا ہے ۔ اسی طرح اگر ہم تعلیمی شعبے میں فوج کی خدمات کے بارے میں بات کریں تو فوج کی جانب سے مختلف سکولوں میں سٹیشنری و دیگر تعلیمی مواد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دور دراز علاقوں میں ”آرمی گڈ ول “سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں پر بچوں کو معیاری اور جدید تعلیم فراہم کی جارہی ہے ۔ اسی طرح نوجوانوں کےلئے مختلف کھیلوں کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ تاکہ نوجوانوں کو منشیات اور دیگر سماج دشمن سرگرمیوں سے دور رکھا جائے ۔فو ج کی جانب سے تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کیرئر ورکشاپس، برون وادی دوروں کااہتمام ، اور ہنر مندی کی تربیت فراہم کی جارہی ہے ۔ اس طرح کے فلاحی اقدامات سے نہ صرف فوج مقامی لوگوں کا اعتماد حاصل کررہی ہے بلکہ نوجوانوں کے قریب بھی جانے کا موقع ملا ہے اور لوگ اب فوجی اہلکاروں کو نہ اپنا محافظ تصور کررہے ہیں بلکہ ان کی جانب سے اُٹھائے جارہے اقدامات کی بھی سراہنا کررہے ہیں۔ کیوں کہ نوجوان اب صحیح راستے پر آرہے ہیں اور اب نوجوان منشیات اور انتہا پسندی کو چھوڑ کر تعلیم ، روزگار اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس طرح سے فوج براہ راست نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے کےلئے کام کررہی ہیں۔اس کے علاوہ تشدد ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی بحالی اور ان کی زندگی سنوارنے کی کوشش کے طور پر ان کےلئے معاشرے میں بحالی کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔فوج کی جانب سے عوام کے ساتھ قریبی رابطہ ان کے فرائض کی انجام دہی اور امن و قانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے اور دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات میں معاون ثابت ہورہی ہیں کیوں کہ فوج کو عام لوگوں کی جانب سے مشتبہ سرگرمیوں کے بارے میں جانکاری ملتی ہے اور اس کے خلاف موثر کارراوئی میں فوج کو مدد ملتی ہے ۔ فوجی آپریشن میں لوگوں کے تعاون نے فوجی کارروائیوں کو محفوظ بنایا ہے اور عام شہریوں کی ہلاکت اور نقصان کو بھی کم کیاہے ۔ اس طرح سے فوج کی کوششوں سے ایسے علاقے بھی فوجی تعاون میں پیش پیش رہتے ہیں جو کبھی دہشت گردی کے گڑھ تصور کئے جاتے تھے ۔ چونکہ یہاں پر تعینات فوجی اہلکار غیر مقامی ہیں اسلئے انہیں علاقوں کے راستوں سے ناواقفیت ہے تاہم مقامی لوگوں کے سپورٹ کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ نقل و حمل کرسکتے ہیںکیوں کہ مقامی لوگ جنگلاتی علاقوں کے علاوہ پیچیدہ راستوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور ان راستوں کو دکھانے اور ان سے متعلق جانکاری فراہم کرنے میں مقامی لوگوںکا تعاون خاصا سود مند رہتا ہے۔ عوام اور فوج میں قربت آنے سے نہ صرف وادی میں عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن ہوا ہے بلکہ دراندازی کی کوششیں بھی کم ہوئی ہیں جبکہ دراندازوں کی جانب سے چھپائے گئے منشیات اور ہتھیاروں کی جانکاری بھی فوج کو عوامی سطح سے ہی ملتی ہے ۔
قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر میں طویل عرصے سے تشدد اور کشیدہ حالات رہے ہیں جس کی وجہ سے ترقی کا فقدان رہا اور شہریوں کو کافی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑا تھا تاہم عوام اور فوج کی مشترکہ کوششوں سے حالات بلکل بدل چکے ہیں اور اب سکول بلا تعطل کے کھلے رہتے ہیں ، کاروباری سرگرمیاں بغیر کسی رُکاوٹ کے جاری رہتی ہیں اور لوگوں میں احساس تحفظ بڑھ گیا ہے ۔
وادی کشمیر میں فوج میں کئی عہدوں پر فائز افسران پر الگ الگ ذمہ داریاں ہوتی ہیں البتہ کمپنی کمانڈر کی ذمہ داری صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ عوامی سطح پر مختلف فلاحی سرگرمیاں دینا بھی ہے اس کے علاوہ ایسے مقامی نوجوانوں کو قریب لانے اور ان کی رہنمائی کرنا بھی اس فرض میں شامل ہیں جنہوںنے ہتھیار ڈال کر امن کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ۔ کیوں کہ اس طرح کے نوجوانوں کو اگر سماج قبول نہیں کرتا تو یہ مختلف سماجی بُرائیوں کے شکار ہوسکتے ہیں۔ فوج کو عوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد اگرچہ وادی میں تشدد میں کمی آئی ہے اور دہشت گردی قریب قریب ختم ہوچکی ہے البتہ ابھی بھی بہت سے چلینج فوج کو درپیش ہیںلیکن ان چلینجوں کے مقابلہ کےلئے فوج اور عوام کے درمیان قریبی رابطہ لازمی ہے ۔آج کا کشمیر اگر بدل رہا ہے تو اس کے پیچھے عوام اور فوج کے مابین قریبی تال میل کا اہم رول ہے آج عام آدمی فوج کو اپنا محسن تصور کررہی ہے اور مقامی شہری اور فوج متحدہ ہوکر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہے ۔