• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Friday, June 6, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Editorial & Opinion

کیا پاکستان ایک اچھا پڑوسی بن سکتا ہے ؟

تحریر:محمد اذان by تحریر:محمد اذان
May 15, 2025
in Editorial & Opinion
A A
India, Pakistan exchange list of nuclear installations, facilities
FacebookTwitterWhatsapp

 

کسی بھی معاشرے میں پڑوسی کی اہمیت امن ، ثقافتی اشتراک ، کاروبار اور دوطرفہ تعلقات پر مبنی ہوتے ہیں اور کسی بھی ملک کا پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات اس کی ترقی کےلئے کافی اہمت ہوتا ہے لیکن جب ہم اپنے پڑوسی ملک پاکستان کی بات کریں تو اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان ایک بہتر پڑوسی کا فرض اداکرسکتا ہے بلکہ بھارت کے ساتھ لسانی، ثقافتی اور مشترکہ طرز زندگی ہونے کے باوجود بھی پاکستان بھارت کےلئے کبھی ایک اچھا پڑوسی ثابت نہیں ہوا ہے ۔ صرف ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان دیگر پڑوسی ممالک کےلئے بھی کبھی خیر خواہ ثابت نہیں ہوا ہے خاص کر افغانستان، ایران کی اگر بات کریں تو ان ممالک کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور نظریاتی اختلافات اس ملک کےلئے ہمیشہ تنازعہ کا باعث بنے رہتے ہیں ۔ قارئین ہندوستان کی تقسیم 1947ہوئی اور ایک ملک دو حصوں میں بٹ گیا البتہ پاکستان ہندوستان اور پاکستانی مسلمانوں کےلئے تشکیل دیا گیا تاہم اس کے الگ ہونے کے ساتھ ہی یہ ملک امن بگاڑنے میں پیش پیش رہا ہے ۔ تقسیم ہند کے دوران بھی خونریزی دیکھی گئی جبکہ تب سے آج تک کئی مسائل بھارت کے ساتھ رہے ہیں جن میں خاص طور پر جموں کشمیر کا مسئلہ رہا ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا موجب بنتا آرہا ہے ۔ البتہ ہندوستان نے کبھی بھی اس معاملے پر پاکستان کے ساتھ اُلجھنا بہتر نہیں سمجھا بلکہ پاکستان ہی بار بار اس معاملے پر امن بگاڑنے کی کوشش کرتا آیا ہے ۔ پاکستان نے اس معاملے کے حوالے سے بات چیت ، سفارتکاری کی راہ اختیار کرنے کے بجائے دشمنی کی راہ اختیار کی اور ہندوستان کے خلاف جاریحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ سے ہی بگاڑ امن کا موجب رہا ہے ۔ اس ملک کی پالیسی سے نہ صرف پاکستان کو ہی کمزور کیا بلکہ عالمی سطح پر اس کی پہنچان بھی مسخ کردی ہے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس ملک نے بندوق کلچر کو فروغ دیا اور سرحد پار دہشت گردی کے ذریعے بھارت کے خلاف درپردہ جنگ جاری رکھی ۔ بھارت کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے کے بجائے، پاکستان کے ملٹری انٹیلی جنس کمپلیکس نے لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین جیسے دہشت گرد گروپوں کی حمایت اور مالی معاونت کی۔ ان گروہوں نے نہ صرف جموں و کشمیر میں حملے کیے بلکہ ہندوستانی سرزمین پر بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا ارتکاب بھی کیا۔ ان دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھارت کی سرزمین پر ناپاک حملے کئے گئے جن میں سال 2001میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ کیا ، سال 2008میں ممبئی میں ہوٹل تاج پر حملہ کیا اور سینکڑوں افراد کی جانیں لیں ۔ پاکستانی حفاظتی اداروں میں ایسے عنصر موجود ہیں جو بھارت کو کمزور کرنے کےلئے وقت وقت پر اس کے خلاف سازشیں رچانے میں ملوث رہے ہیں اور یہ براہ راست دہشت گردوں کی معاونت کرتے آئے ہیں ۔ 

پاکستان کی جانب سے بار بار بھارت کے خلاف حملے کرنے کے باوجود بھی بھارت نے ایک پڑوسی کا حق اداکیا اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاکہ خطے میں امن رہے اور دونوں ممالک کی معیشت مضبوطی کی طرف بڑھے ۔ اس ضمن میں بھارت کے سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی اور آنجہانی من موہن سنگھ سے لیکر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تک وزرائے اعظم نے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کےلئے کوششیں جاری رکھیں ۔ آن جہانی اٹل بہائی واجپائی نے 1999میں لاہور کا دورہ کیا اور یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین بس سروس شروع کرنے کا موقع فراہم کیا تاہم اسی سال پاکستان نے درپردہ سازش کرتے ہوئے کرگل پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ جنگ چھڑ گئی جس میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اسی طرح 2015 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کی شادی میں شرکت کے لیے مودی کا اچانک دورہ لاہور پٹھانکوٹ ایئربیس حملے کے چند ہی ہفتوں کے اندر ہوا تھا۔ اس طرح کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں یہاں تک کہ جب اس کی سویلین قیادت امن کی طرف مائل ہے، اس کے پاس فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر کنٹرول نہیں ہے جو اپنے متوازی ایجنڈے کے ساتھ کام کرتی ہیں۔اگرچہ پاکستان کی سیاسی قیادت بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے البتہ انٹلی جنس اور فوج کے آگے ان کی ایک بھی نہیں چلتی جو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کےلئے سیاسی قیادت کو پس پشت رکھتے ہیں ۔ فوجی طاقت خارجہ پالیسی میں بھی مداخلت کرتی ہے اور سیاسی قیادت کےلئے جو بھی اس حوالے سے فرمان جاری ہوتا ہے حکومت اسی پر عمل پیرا ہوتی ہے اور قومی بجٹ میں فوجی منصوبوں کےلئے ایک اہم حصہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملکی ترقی میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ جب تک پاکستانی فوج ہندوستان کو ایک ممکنہ پارٹنر نہیں بلکہ ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتی ہے، کوئی بھی پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی سرپرستی صرف بھارت مخالفت پر مبنی نہیں رہی ہے بلکہ افغانستان پاکستان پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ طالبان کی تشکیل اور اس کی ہر طرح سے معاونت پاکستان ہی کرتا آیا ہے اور سال 2021میں پورے افغانستان پر طالبان کے قبضے نے اس حقیقت کی تصدیق بھی کی ہے ۔ اس کا خمیازہ بھی پاکستان ہی کو اُٹھانا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک طالبان کی جانب سے فوجی اور شہریوں کے خلاف حملوں کے نتیجے میں آج تک ہزاروں افراد ازجان ہوچکے ہیں تاہم اسلام آباد کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے اور ناہی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی حکومت کوئی ٹھوس کارروائی کرنے پر رضامند ہوتی نظر آرہی ہے ۔ پاکستان اگرچہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ان کے یہ دعوے سراب ثابت ہوتے ہیں اور صرف دنیا کو دکھانے کےلئے بیانے جاری کئے جاتے ہیں جبکہ اصل میں یہ کسی بھی دشت گرد کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے جس کی مثال ہم حافظ سعید اور مسعود اظہر کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی میں اس ملک کی ناکامی سے دے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو بار بار فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل کیا جاتا رہا ہے کیونکہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کریک ڈاو¿ن کرنے میں ناکام رہا ہے۔پاکستان ہندوستان سے الگ ہونے کے بعد کبھی بھی سکولر ملک اور امن کا حامی نہیں رہا ہے۔ اس ملک میں اقلیتوں کے خلاف بار بار حملے ہوتے رہے ہیں ۔ اقتصادی طور پرپاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات کو برقرار رکھنے کا ایک اہم پہلو بنانے میں بھی ناکام رہا ہے۔ اکثر سیاسی تعطل کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تجارت انتہائی کم ہے۔ بھارت اگرچہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی طرف پہل کئی بار کرچکا ہے البتہ پاکستان کی حرکتوں سے اس میں دراڑیں ہی پیدا کی ہیں۔ 

خطے میں امن و سلامتی کو برقرار کھنے سے تجارت کو فروغ ملتا اور دونوں ممالک کے لوگوں کو فائدہ ملتا لیکن پاکستان نے بار بار موقعے گنوادیئے اور تشدد کی راہ اپنائی جس نے تجارتی معاہدوں کو تعطل کا شکار بنایا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سیاسی لیڈران صرف اپنے اقتدار کے پیچھے لگے رہتے ہیں جس کی وجہ اس ملک کی خارجہ تعلقات دیگر ممالک کے ساتھ استوار کرنے کی راہ میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ اس طرح سے فوجی قیادت کو موقع ملتا ہے کہ وہ ملکی سیاست اور خارجی پالیسی میں مداخلت کریں جو کہ اس ملک کی مجموعی طاقت کےلئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں چین کی بے جا مداخلت کی وجہ سے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی متاثر رہتی ہے اور چین کے اثر و رسوخ کے تلے دبے رہنے کے نتیجے میں پاکستان ہندوستان کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کرسکتا کیوں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ نے پاکستان کی علاقائی ترجیحات کو جنوبی ایشیا کے امن اور انضمام سے زیادہ بیجنگ کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی مداخلت سے اس ملک کی پالیسی بھی متاثر ہورہی ہے اور ایک ہی ملک کے ساتھ تعلقات کےلئے اس کو مجبور کیا ہے ۔ 

قارئین ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اصل کشیدگی کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سب سے بڑی رُکاوٹ بن چکا ہے ۔ کشمیر سے متعلق پاکستان کا موقف کشمیریوں کےلئے حق خود ارادیت ہی نہیں ہے بلکہ نظریاتی ، جغرارفیائی نظریہ سے بھی یہ پاکستان کےلئے جنون کی وجہ بناہوا ہے ۔ اس مسئلے کو سفارتی اور دوطرفہ مذاکرات کے بجائے پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی شکل دینے کی کوشش کرتا آیا ہے ۔ اس نے اپنی ہی سرزمین سے اٹھنے والی دہشت گردی کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک ظالم کے طور پر پیش کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے اور اس طرح کے حربے ہندوپاک تعلقات اور باہمی مذاکرات میں رُکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔ جب بھی حالات معمول پر آنے شروع ہوتے ہیں اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کسی حد تک بہتری کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو دہشت گردی اور سیاسی بیان بازی اس عمل کو روک دیتی ہے ۔ قارئین بھارت کے ساتھ دیگر پڑوسی ممالک کے تعلقات بہتر ہیں جن میں بنگلہ دیش، سری لنکا ، بھوٹان اور نیپال ہے ان ممالک نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کو ترجیح دی ہے ۔اس لئے پاکستان کےلئے بھی ضروری ہے کہ وہ ایک اچھا پڑوسی بننے کےلئے اپنی سرزمین کو امن و سلامتی کی سرزمین بنانے کےلئے اقدامات اُٹھائین اور ایک اچھا پڑوسی بننے کی کوشش کریں۔

Previous Post

کشمیر میں سرمایہ کاری اور نئے سفر کاا ٓغاز 

Next Post

Cabinet approves semiconductor unit in UP

Next Post

Cabinet approves semiconductor unit in UP

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: [email protected]

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.