تحصیل کرناہ — جو اپنی جغرافیائی پیچیدگی اور تین اطراف سے سرحد سے متصل ہونے کی بنا پر ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتی ہے — ایک بار پھر شدید گولہ باری کی لپیٹ میں آ گئی۔ 6 اور 7 مئی 2025 کی درمیانی رات اچانک شروع ہونے والی سرحد پار سے گولہ باری نے علاقہ میں قیامت برپا کر دی، اور پورا کرناہ دہشت، چیخ و پکار، اور آگ کے شعلوں کی نذر ہو گیا۔
اگرچہ سرحدی علاقوں میں کبھی کبھار امن کے لمحات میسر آتے ہیں، لیکن ان لمحوں پر بھی ہمیشہ بے قراری اور غیر یقینی کی فضا چھائی رہتی ہے۔ حالیہ واقعہ میں فائرنگ اور گولہ باری نے شدت اختیار کر لی، اور عوام کو نہ کوئی پناہ ملی، نہ کوئی حفاظتی مورچے، جس کی وجہ سے جان بچانا بھی دشوار ہو گیا۔ عورتوں اور بچوں کی چیخوں نے ماحول کو مزید لرزہ خیز بنا دیا۔
مختلف دیہات میں رہائشی مکانات، دکانیں اور دیگر عمارتیں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔ فائر سروس کی رسائی تقریباً ناممکن تھی۔ کئی مکانات مکمل طور پر خاکستر ہو گئے اور کئی بلند و بالا عمارتیں اور کاروباری مراکز زمیں بوس ہو گئے۔ غنیمت یہ رہی کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مگر اربوں روپے کی املاک تباہ ہو گئی۔
اگرچہ 10 مئی کو پانچ بجے فائر بندی کا اعلان ہوا، مگر عوام کے دلوں سے خوف ختم نہیں ہوا۔ اس موقع پر انڈین آرمی کی بروقت موجودگی نے کچھ حد تک تحفظ فراہم کیا، مگر مکمل امداد اور بحالی کی کوئی کوشش فوری طور پر دیکھنے کو نہیں ملی۔
تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما دورے پر تو آئے، مگر ایسا محسوس ہوا جیسے وہ صرف اپنی موجودگی کو رسمی طور پر درج کرانے آئے ہوں۔ ہنگامی امداد کا کوئی اعلان نہ ہوا۔ حاجی ناڑ کے نذیر احمد میر کی بیٹی کی شادی دو دن بعد تھی، اور انہوں نے محنت مزدوری سے جو سامان اکٹھا کیا تھا وہ سب جل کر راکھ ہو گیا۔ اگر واقعی ہمدردی ہوتی تو کوئی نہ کوئی اُس کی بیٹی کی شادی کا بندوبست ضرور کرتا۔
مختار طاہر زماں کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنما اس سانحے کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات میں ہمدردی کم اور سیاسی فائدہ زیادہ نظر آتا ہے۔ راجہ وقار نے بھی اس بات پر زور دیا کہ فی الفور جنگ بندی صرف اس وقت مؤثر ہوگی جب عام متاثرہ عوام کو بروقت مدد دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہروں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے کیا جانیں کہ سرحدوں کے باسی کس کرب اور اذیت سے گزرتے ہیں۔ یہاں کے عوام نے 1947 سے لے کر 1965 کی جنگوں میں اپنی جانیں دے کر وطن سے وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی حب الوطنی صرف نعروں تک محدود نہیں بلکہ عملی طور پر ثابت شدہ ہے۔
اب عوام یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہر گھر کے لیے انفرادی بنکرز فراہم کیے جائیں۔ سال 2002 میں جو کمیونٹی بنکرز بنائے گئے تھے، وہ ناکافی ہیں اور اکثر غیر متعلقہ افراد نے اُن پر قبضہ کر کے انہیں نجی جائیداد میں تبدیل کر دیا ہے۔ دو تین سال پہلے جو کمیونٹی بنکرز مزید بنائے گئے، اُن پر 2000 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ ہر پنچایت حلقے کے چھ ہزار افراد کے لیے صرف ایک کمیونٹی بنکر فراہم کیا گیا، جو کہ انتہائی ناکافی ہے۔ ایک بنکر میں چھ ہزار افراد کا پناہ لینا عملاً ناممکن ہے۔
عوام کا مطالبہ ہے کہ انفرادی بنکرز بنائے جائیں، تاکہ ایمرجنسی میں ہر خاندان محفوظ ہو سکے۔ اگر ایک کمیونٹی بنکر ایک لاکھ روپے میں بنتا ہے، تو اُسی رقم سے کم از کم ایک درجن انفرادی بنکرز بن سکتے ہیں اور بارہ خاندانوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔