وادی کشمیر ایک خوبصورت خطہ ہے جہاں پر مغلوں ، افغانوں، اور دیگر حکمرانوں کی حکومت رہی ہے یہاں کے لوگوں نے ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے دور میں فوجی تاریخ میں اہم کردار اداکیا ہے ۔ یہاں کے فوجی اہلکاروں ، جرنیلوں اور سپاہیوں نے ماضی سے لیکر مختلف ادوار میں کارنامہ ہائے انجام دیئے ہیں اور تاریخ کا رُخ موڑنے میںاہم رول نبھایا ہے ۔ وادی کشمیر کی افواج نے بیرون ممالک کی فوجی جارحیت کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور ہندوستان فوج کے شانہ بشانہ بہترین کام کیا ہے جس کی مثالیں رہتی دنیا تک زندہ رہیں گی ۔ کشمیری فوجی طاقت نے ہندوستان کی آزادی کے بعد مختلف مراحل میں اپنی صلاحیت کو دکھایا ہے ۔ قارئین یہاں پر یہ بات کہنا ضروری ہے کہ کشمیر کی فوجی تاریخ اس کی ابتدائی سلطنتوں سے ملتی ہے جہاں حکمرانوں نے اپنے علاقے کو غیر ملکی حملوں سے بچانے کے لیے اچھی تربیت یافتہ فوجیں رکھی تھیں۔ جہاں تک 12ویں صدی کی بات ہے تو راج ترنگنی میں کلہن کے دور کی داستانیں بیان کرتی ہیں کہ کس طرح سے یہاں کی مقامی فوج نے مغرب سے ہونے والے حملوں کو پسپا کیا تھا جس کے لیے مضبوط فوجی قیادت کی ضرورت تھی۔ماضی کے حکمرانوں میں گونند ا اول ایک فوجی جرنیل تھا جس نے تواریخ کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں بھی حصہ لیا تھا یہ جنگ تاریخ میں اب تک کی لڑی جانے اولی سب سے بڑی جنگوں میں سے ایک ہے ۔ اس طرح سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کشمیری فوجی اہلکاروں نے قدیم زمانے سے ہی فن حرب و ضرب سیکھ لیا تھا ۔ قارئین اگر ہم 8ویں صدی عیسوی میں کارکوٹا خاندان کے بادشاہ للتا دتیہ کی حکمرانی کی بات کریں تو انہوںنے کشمیری حکمرانی کو وسط ایشیا، افغانستان اور شمالی ہندوستان کے حصوں تک وسعت دی تھی ۔ ان کی فوجی مہمات نے کشمیری افواج کی طاقت اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جنہوں نے اپنے وقت کے لیے جدید جنگی حربے استعمال کیے تھے۔ کشمیر کے بادشاہوں نے فوجی حکمت عملی کی ابتدائی سمجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھڑسوار دستے، جنگی ہاتھیوں اور تیر اندازوں کے جتھے بھی تیار کئے تھے اور اُس وقت کی جدید ہتھیاروں سے فوج لیس ہوا کرتی تھی ۔ یہاں یہ بات بھی ضروری دوہرانی ہے کہ مارتنڈ سورج مندر اور ہری پربت جیسے قلعے بھی فوجی چوکیوں کےلئے مضبوط پناہ گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ 14ویں صدی میں شاہ میر خاندان نے یہاں پر مسلم حکومت قائم کی اور بعد میں 16ویں صدی کے چک حکمرانوں نے مغلوں کے حملوں سے بھی کشمیر کو بچائے رکھا اور بالآخر مغل بادشاہ اکبر نے 1586عیسوی میں اس خطے کو مغل حکمرانی کے تحت لایا تھا ۔ ان کے بعد افغان حکمرانوںنے بھی کشمیر پر حکمرانی کی اور فوجی بل بوتے پر یہاں حکومت چلاتے رہے تاہم کشمیری مزاحمت کاروں نے جنگی حرب و ضرب کی حکمت عملیوں کو اپناتے ہوئے غیر ملکی حکمرانی سے کشمیر کو نجات دلانے میں اہم رول اداکیا ۔تاہم کشمیری مزاحمتی جنگجوو¿ں نے اپنے جنگی جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر ملکی حکمرانی کو مسلسل چیلنج کیا۔ ایک راجپوت جنگجو درگاداس راٹھور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اورنگ زیب کے خلاف لڑتے ہوئے کشمیر میں پناہ لی تھی، جو خطے کی سٹریٹجک اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔19ویں صدی میںکشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور میں ڈوگرہ سلطنت کا حصہ بن گیا۔ ڈوگرہ، جو اپنی جنگی روایت کے لیے مشہور تھے، بادشاہی کی حدود کو بڑھانے میں بہت اہم تھے۔ زوراور سنگھ جیسے مہاراجہ گلاب سنگھ کے جرنیلوں نے لداخ اور تبت میں جرات مندانہ مہمات کی قیادت کی، ڈوگرہ حکمرانی کو پیچیدہ پہاڑی علاقوں تک بڑھایا۔ زوراور سنگھ، جسے اکثر ”ہندوستان کا نپولین“کہا جاتا ہے، نے تاریخ کی سب سے زیادہ بہادر اونچائی والی فوجی مہمات کی قیادت کی۔ اس کی فوج، جو بنیادی طور پر ڈوگرہ اور کشمیری سپاہیوں پر مشتمل تھی، نے سخت حالات میں شاندار برداشت کا مظاہرہ کیا۔ تبت میں اور چینی افواج کے خلاف ان کی لڑائیاں افسانوی رہیں۔اس طرح سے کشمیری فوج نے اپنی بہادری اور دلیری کا لوہا منوایا ہے اتناہی نہیں بلکہ برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے دوران بہت سے کشمیریوں نے خاص طور پر جموں اور کشمیر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے برطانوی حکمراتی کے تحت ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جموں کشمیر رائفلز اور جموں کشمیر لائٹ انفنٹری جیسی ریجمنٹیں اسی دور میں قائم کی گئیں تھیں جنہوںنے کئی جنگی ادوار دیکھے ہیں اسی طرح اگر ہم پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی بات کریں تو ان دو جنگوں میں بھی کشمیری فوجی اہلکاروں نے حصہ لیا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کشمیری فوجیوں نے برما مہم، شمالی افریقی مہم اور یورپی تھیٹر جیسے بڑے تنازعات میں حصہ لیا۔ برطانوی جنگی کوششوں کی حمایت میں ان کا تعاون اہم تھا اور بہت سے لوگوں نے ان کی بہادری کے لیے بہادری کے اعزازات حاصل کیے تھے۔
قارئین کو بتاتا چلیں کہ کشمیریوں کی فوجی تاریخ میں اہم شراکت 1947-48میں دیکھی گئی تھی جب بھارت کی تقسیم کے بعد پاکستانی حمایتیافتہ قبائیلیوں نے کشمیر پر حملہ کیا تھا تاہم اُس وقت ہندوستانی فوج نے ملیشاﺅں اور کشمیری فوج کی مدد سے قابلیوں کے حملے کو پسپا کردیا تھا ۔ اس وقت برگیڈیئر راجندر سنگھ نے فوجی یونٹ کی قیادت کی اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کو روکے رکھا تھا جب تک نہ بھارتی فوج کو کمک ملی تھی ۔ ان کی قربانی ہندوستانی فوجی تاریخ میں اہم مانی جاتی ہے ۔ اسی طرح اگر ہم مقبول شیروانی کی بات کریں تو مقبل شیروانی نے پاکستانی حملہ آوروں کی راہ بھٹکانے میں اہم کردار اداکیا اور اس کے پکڑے جانے اور اس کو پھانسی دینے تک بھارتی فوج نے کافی مدد حاصل کرلی تھی ۔ اس جنگ میں پاکستان اور ہندوستانی فوجی نے جموں اور کشمیر کے دوحصوں پر قبضہ کرلیا تاہم جنگ بندی کے بعد پاکستان کے پاس جو علاقہ رہ گیا اس کو واپس حاصل نہیں کیا جاسکا ۔
کشمیریوںنے مزید جنگوں جن میں 1965کی جنگ 1971کی جنگ اور کرگل جنگ میں بھی بھارت کی حمایت میں لڑائی میں حصہ لیا ہے اور ان جنگوں میں اہم کردار اداکیا تھا جس کے نتیجے میں ان جنگوں میں بھارت فوج کو کامیابی ملی تھی ۔