جموں کشمیر ہمالیائی پہاڑی سلسلہ میں واقع ایک قدیم خطہ ہے جس کی تاریخ پر ہم اگر نظر ڈالیں تو وادی کشمیر ایک بڑے دریاءکی مانند علاقہ تھا جہاں بیچ میں پانی ہی پانی اور ارد گرد اونچے اونچے پہاڑ تھے جو اس کا پانی روکے رکھے تھے ۔ اس بڑی سی جھیل کا نام ستی سر تھا جوکہ دیوی ستی کے نام سے منسوب تھی ۔ مورخین کے مطابق ایک سو لاکھ برس پہلے یہ وادی پیچیدہ پہاڑی سلسلہ تھا جس میں آبی حیات، جنگلی جانور اور دیگر مخلوقات تو تھیں لیکن انسان کا وجود نہیں تھا ۔ ماہرین ارضیات کی اگر مانیں تو کروڑوں سے سالوں سے یہ وادی سمندر کا حصہ تھی یا پانی کے نیچے دبی ہوئی تھی لیکن کئی بھیانک زلزلہ کے بعد اس کی زمینی ہیت تبدیل ہوگئی ۔ ماہرین کے مطابق زلزلہ کی وجہ سے پہاڑوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں اور پانی بارہمولہ کے راستے ستی سر کا پانی بہنے لگا اور یہ علاقہ وجود میں آیا۔ ایک لمبے عرصے تک پانی کے اندر رہنے کی وجہ سے جھیل کی تہہ میں کافی مٹی جمع ہوئی تھی جو آج ہمارے سامنے زرخیز مٹی کی شکل میں موجود ہے ۔
قارئین مورخین کا دعویٰ ہے کہ سندرسینا کی حکومت میں جو اُس وقت دارالحکومت تھا وہ شمالی کشمیر میں ولر جہاں پر آج موجود ہے وہیں تھی اور باضابطہ ایک شہر بسا ہوا تھا لیکن اُس دور میں اس قدر زلزلہ آیا تھا کہ یہ شہر پانی کے نیچے دب گیا اس شہر کا نام صمد مت نگر تھا اور شہر ڈوب جانے کے بعد یہ سب سے بڑی جھیل میں تبدیل ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ آج بھی جھیل کے نیچے شہر کی کھنڈر شدہ عمارتیں کھڑی ہیں۔ مورخین کے مطابق جب پوری وادی پانی ہی پانی تھی تو اُس وقت شنکر آچاریہ کی پہاڑ ی پر موجود ایسی چٹانیں آج بھی موجود ہیں جو اس وقت کی اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ کسی زمانے میں پوری وادی زیر آب تھی۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ جب پوری وادی کشمیر وادی کے نیچے تھی تو اُس وقت راجوری سے ہوتے ہوئے کونسر ناگ کے قریب ایک ریشی پہنچا جس کا نام کیشپ رشی تھا اور مقامی لوگوں کی درخواست اس نے پر ستی سر کے دیو بہو دیو کو مار ڈالا اور جھیل کے پانی کو بارہمولہ کی طرف بہنے دیا۔ لہٰذا یہ سرزمین کشیامپار کے نام سے مشہور ہوئی جو بعد میں کشمار اور اس کے بعد کشمیر میں تبدیل ہوئی۔ تاہم بعض مورخین کا خیال ہے کہ جب کاش ذات کے لوگ یہاں مستقل طور پر آباد ہوئے تو وادی کشمیر کے نام سے مشہور ہوئی تاہم کشمیر کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔قارئین کی یاد ہانی کےلئے یہاں بتانا ضروری ہے کہ یونانیوں نے وادی کو کاسپیر کا نام دیا تھا جبکہ چینیوں نے اسے شی ان یا کیا شی لو کا نام دیا۔ تبتی اسے کناپل کہتے ہیں اور درد والے اسے کاشارت کہتے ہیں۔اس طرح سے مختلف ادوار کے لوگوں کی جانب سے وادی کو الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا تھا ۔
قارئین کشمیر کی تواریخ پر اگر ہم نظر دوڑاتے ہیں تو وادی کشمیر میں پہلے ہندو مت کے ماننے والوں کی حکمراتی تھی اس کے بعد یہاں پر اسلام کا ظہور ہوا اور ایک اسلامی ریاست کے طور پر اُبھری تاہم 1586میں مغل دور میں یہ خطہ مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا جب یوسف شاہ چیک کو مغل بادشاہوںنے قید میں ڈال کر یہاں پر اپنی حکومت قائم کی تھی۔ جبکہ 1756کی دہائی میں یہ خطہ افغان حکومت کے زیر تسلط آیا ۔ اس کے بعد انگریزوں کے دور میں ہی اسے 1819 میں پنجاب کی سکھ بادشاہت کے ساتھ الحاق کر دیا گیا۔ 1820 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ گلاب سنگھ کو لے لیا۔ 1846 میں امرتسر کے معاہدے کے تحت کشمیر بھی گلاب سنگھ کو دے دیا گیا۔ لداخ کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے 1830 میں ضم کر لیا تھا۔ اس طرح اس شمالی ترین ریاست کی بنیاد مہاراجہ گلاب سنگھ نے 1846 میں رکھی تھی اور اگست 1947 میں ہندوستان کی تقسیم سے پہلے یہ ہندوستان کی سب سے بڑی شاہی ریاست تھی۔آپ کو یاد ہوگا کہ منقسم جموں کشمیر کا کل رقبہ 2,22,236 مربع کلومیٹر تھاتاہم اُس وقت پاکستان نے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا اور قریب 3,999 مربع کلومیٹر ان کے قبضے میں آیا۔ جبکہ باقی ماندہ حصہ بھارت کے زیر تسلط آیا جس کا کل رقبہ 12850 مربع کلومیٹر رہ گیا ۔وادی کشمیر سطح سمندر سے قریب 1700کلو میٹر اونچائی پر واقع ہے ۔اور یہ بھارت کے نقشے پر سب سے اوپر ہے جو کہ بھارت کے سر کی مانند دکھتا ہے ۔ یا یوں کہیے کہ یہ ہندوستان کے تاج کی طرف ہے ۔تاہم اس کے پڑوسی ممالک جیسے افغانستان ، پاکستان اور چین نے اس کی سرحدوں کو سکڑ دیا ہے اور اس کے ایک اچھے خاصے رقبے پر غیر قانونی طو رپر قبضہ جمایا ہے ۔ اس طرح یہ خطہ چار ممالک کے درمیان واقعے ہے جس کی وجہ سے اس کی سرحدی فوجی سٹریٹجک کے لحاظ سے کافی اہم ہے ۔