کشمیر، جو ہمالیہ کی سرسبز وادیوں میں قدرتی حسن کا ایک شاہکار ہے، بدقسمتی سے دہائیوں سے سیاسی کشمکش اور جغرافیائی محاذ آرائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تاریخی تنازعات اور قومی خودمختاری کی کشمکش نے اسے ایک ایسی زمین میں بدل دیا ہے جہاں مختلف دہشت گرد تنظیمیں امن کو سبوتاڑ کرنے، لوگوں میں خوف پھیلانے اور ریاستی ڈھانچے کو غیر مستحکم کرنے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہیں۔ وادی میں دہشت گردی کے واقعات محض وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک گہری اور طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جن کے پیچھے مقامی اور غیرملکی عناصر کارفرما ہیں۔ 1980 کی دہائی کے آخر سے کشمیر میں دہشت گردی کی نوعیت مسلسل بدلتی رہی ہے۔ ابتدائ میں یہ تحریک ایک مقامی سیاسی بے چینی اور محرومی کی عکاس تھی، مگر جلد ہی اس میں سرحد پار دراندازی، مذہبی انتہاپسندی اور بیرونی مالی معاونت جیسے عوامل شامل ہوتے گئے۔ پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں جیسے لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین اس وقت بھی فعال ہیں اور انہوں نے کشمیر کو بھارت کے خلاف ایک پراکسی میدانِ جنگ بنا رکھا ہے۔ یہ محض بندوق اٹھائے ہوئے جنگجو نہیں بلکہ انتہائی منظم ادارے ہیں جو واضح مقاصد رکھتے ہیں۔ ان کا ہدف صرف خوف پھیلانا نہیں بلکہ بھارتی ریاست کی ساکھ کو مجروح کرنا، معاشرتی تقسیم کو بڑھاوا دینا، عوامی اعتماد کو کمزور کرنا اور مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔
دہشت گرد تنظیموں کی حکمت عملی میں ایک اہم پہلو عام شہریوں کو نشانہ بنانا ہے۔ زائرین، غیر مقامی مزدور اور مقامی سیاسی کارکن ان کا خاص ہدف بنتے ہیں کیونکہ ان پر حملہ کر کے دہشت گرد ایک ساتھ کئی مقاصد حاصل کرتے ہیں: عوام کے دلوں میں خوف بٹھانا، معیشت کو زک پہنچانا، اور ریاستی تحفظ کی ناکامی کا تاثر دینا۔ وہ عناصر جو وادی کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں، جیسے مزدور، سیاح یا ترقیاتی کارکن، ان کے خلاف کارروائیوں سے دہشت گرد ریاستی نظم کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ذہنی تربیت یا ریڈیکلائزیشن دہشت گردی کے ایجنڈے کا سب سے خطرناک ہتھیار بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا، خفیہ پیغام رسانی، اور پراپیگنڈا کے ذریعے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ اکثر ذاتی شکایات یا سماجی ناانصافیاں شدت پسند بیانیے کے لیے زرخیز زمین بن جاتی ہیں۔ انکرپٹڈ ایپس اور ڈیجیٹل شناخت کی گمنامی نے حکام کے لیے بروقت مداخلت کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔دہشت گرد گروہ مذہب اور شناخت کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ وہ مذہبی جذبات کو اس انداز میں برانگیختہ کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو شدت پسندی ایک مذہبی فریضہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ تشدد کو ’جہاد‘ اور ’شہادت‘ کا رنگ دے کر نہ صرف بھرتی کا عمل تیز کیا جاتا ہے بلکہ ردعمل میں مزید تشدد کو بھی جواز فراہم کیا جاتا ہے، یوں وادی مسلسل عدم استحکام کی حالت میں رہتی ہے۔ سرحد پار سے دراندازی بھی اس منصوبے کا ایک مستقل جزو ہے۔ تمام تر سیکیورٹی اقدامات کے باوجود تربیت یافتہ عسکریت پسند لائن آف کنٹرول پار کر کے وادی میں داخل ہوتے ہیں، حملے کرتے ہیں اور یا تو واپس چلے جاتے ہیں یا مقامی نیٹ ورکس میں جذب ہو جاتے ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد صرف نقصان پہنچانا نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنا اور سیکیورٹی فورسز پر مسلسل دباو¿ برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ اب دہشت گردی صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں بھی یہ محاذ کھل چکا ہے۔ جھوٹی خبریں، ایڈیٹ شدہ ویڈیوز، اور جعلی معلومات کے ذریعے عوام میں بے چینی اور حکومت پر عدم اعتماد پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا اکثر ریاستی بیانیے کو متنازعہ بنانے، سیکورٹی فورسز کے اقدامات کو مشکوک ثابت کرنے اور عوامی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس منظم اور کثیر جہتی دہشت گردی کا مقابلہ بھی صرف بندوق سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع اور ہم آہنگ حکمت عملی ناگزیر ہے۔ انٹیلی جنس پر مبنی سیکیورٹی نظام، ایجنسیوں کے درمیان موثر رابطہ، مصنوعی ذہانت کا استعمال، اور خطرات کی بروقت نشاندہی جیسے اقدامات سیکیورٹی میں بہتری لا سکتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کو اعتماد میں لینا، ترقیاتی منصوبے شروع کرنا، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دینا اور مقامی سطح پر مکالمہ قائم کرنا شدت پسندی کے رجحانات کو کم کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر نگرانی اور پروپیگنڈا مراکز کے خلاف سخت اقدامات، عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سفارتی دباو¿، اور میڈیا کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے لیے پابند کرنا بھی اس جنگ میں اہم ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔آخرکار یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کشمیر میں دہشت گردی صرف گولیوں کا کھیل نہیں بلکہ ایک نظریاتی، سیاسی اور اقتصادی محاذ آرائی ہے۔ جب تک اس کا جواب ہمہ گیر انداز میں، حکمت، ہمدردی اور دانشمندی کے ساتھ نہ دیا جائے، امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ کشمیر کا استحکام صرف بھارت کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے لیے ضروری ہے۔