• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Friday, June 27, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

صوفی شفیق by صوفی شفیق
June 24, 2025
in اردو خبریں
A A
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
FacebookTwitterWhatsapp

 

بہت مدت ہوئی دل پر ایک بوجھ سا ہے دماغ منتشر ہے ایک تلاطم سا ہے ذہن میں۔آخر کار ضمیر نے مجبور کیا چند سطور لکھنے کے لیۓ ۔دل آزاری کے لئے معذرت ۔کڑوا لکھنا ہے مگر کیا کروں سچ ہے اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ۔اس سب کی وجہ ہے دور حاضر میں سوشل میڈیا صحافت جس کے کام کرنے کے طریقے سے ان کے اردو اور انگریزی اور کبھی کھبار ہندی بول چال سے ان کی اردو زبان کے استعمال سے جن کے معمولی سی باتوں اور واقعات کو ایک سنسنی خیز خبر بنانے سے جن کے ہر دیگی کا چمچہ بننے سے صحافت جیسے پیشے کو کافی نقصان پہنچا ہے اور دن بہ دن یہ پیشہ ذی شعور اور اہل علم طبقے کی نظروں میں ایک مذاق بنتا جارہا ہے۔ملک ہندوستان میں صحافت کو جمہوریت کے چوتھے ستون کا درجہ ملا ہے اور یہ اس پیشے کے لیۓ ایک بہت ہی بڑا اعزاز تھا اور اس اعزاز کی قدر کرنے والے عظیم صحافی گزرے ہیں پورے ملک ہندوستان کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں اور دور حاضر میں بھی موجود ہیں مگر وہ سب اس عظیم پیشے کا جنازہ نکلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جو ان میں سے اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں ان کی روحیں تڑپ رہی ہیں۔اگر ہم جموں کشمیر یو ٹی کی ماضی و حال کی صحافت پر نظر دوڈائیں تو کئی نامور صحافی حضرات کا نام ادب سے لیا جاتا ہے اور آگے بھی احترام کے حقدار وہ لوگ رہیں گے۔ان لوگوں میں کچھ تو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ اس مشعل کو روشن رکھنے میں آج بھی بڑی ہی ایمانداری سے روشن کیئے ہوئے ہیں۔چند نام میرے ذہن میں آرہے ہیں جن میں بانی صحافت جناب ثناءاللّٰہ صاحب (روزنامہ آفتاب) جناب صوفی محی الدین صاحب ( سرینگر ٹائمز) جناب شمیم احمد شمیم جناب غلام نبی خیال صاحب شہید صحافت جناب محمد شعبان وکیل صاحب جناب قیصر مرزا صاحب جناب پرویز سلطان صاحب جناب شفیع شیدا صاحب ایک اور شہید صحافت جناب شجاعت بخاری صاحب جناب موہن چراغ صاحب جناب وید بھسین صاحب جناب یوسف جمیل صاحب جناب الطاف حسین صاحب جناب حسین ظفر صاحب شہر بین جناب کرامت قیوم صاحب شہر بین اور بھی کچھ ہوں گے جنہوں نے صحافت کی مشعل روشن کی اور اس فہرست میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنا خون دیکر اس مشعل کو روشن رکھا۔ ان حضرات میں کچھ اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے اور اور جو بقید حیات ہیں وہ آج کے پر فتن دور میں بھی حق سچ اور ایمانداری کا دامن تھامے بیٹھے ہیں اور اپنے پیشے پر داغ نہیں لگنے دیتے ہیں۔
اب میں دور حاضر کے سوشل میڈیا صحافی حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ ایسے استادوں کے نقش قدم پر چل سکتے ہو ۔کیا آپ لوگوں میں اتنی ہمت ہے کہ آپ ان لوگوں کی طرح سچ کا ساتھ دے سکتے ہو ۔کیا آپ اس مشعل جو ان لوگوں نے جلائی تھی میں تیل کے بدلے اپنا خون جگر جلا سکتے ہو۔کیا آپ سرکار اور عوام کے درمیان ایک پل بن کر اپنے آپ کو ایک اچھا اور ایماندار صحافی ثابت کرسکتے ہو۔نہیں کبھی نہیں کیونکہ۔
آپ لوگوں نے کشمیری عوام کو بیوقوف سمجھا ہے ۔کشمیری عوام معصوم ہے مگر بیوقوف نہیں ہے۔آپ لوگ اپنی نیوز چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں ہو۔آپ لوگ چوبیس گھنٹے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی تلاش میں رہتے ہو تاکہ آپ لوگوں کے سامنے آپنے آپ کو ایک قابل صحافی اور کامیاب انسان کے روپ میں پیش کرو۔ آپ رزاق بب جیسے واقعات کو ایک طوفانی خبر کے طور پیش کرتے ہو۔آپ گھریلو مسائل میں مداخلت کرکے عزت دار گھرانوں کو سرعام رسوا کرتے ہو۔آپ لوگ سردیوں اور گرمیوں میں تعطیلات کو لے سرکار کے پیچھے پڑتے ہو مگر کبھی بھی تعلیمی نظام کی بہتری سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو بنیادی سہولیات وغیرہ پر کبھی بات نہیں کرتے ہو۔شعبہ طب میں جو خامیاں ہیں وہ آپ کبھی سرکار یا متعلقہ محکمے کے اعلی حکام تک نہیں پہنچاتے ہو۔دوراُفتادہ علاقہ جات کے لوگ جن بنیادی سہولیات سے محروم ہیں کیا آپ میں سے کسی نے کبھی تکلیف کی کہ ان علاقوں کا دورہ کرکے ان کی پریشانیاں سرکار تک پہنچاتے۔کیا آپ مہنگائی پر کبھی بات کرتے ہو اور عوام جن مشکلات سے دوچار ہیں کیا کبھی اس مسلئے پر کوئی پروگرام چلاتے ہو۔
ہاں آپ لوگ ایک کام ضرور کرتے ہو اگر کبھی اللّٰہ نہ کرے کوئی انسان کسی حادثے میں جاں بحق ہوجائے تو آپ لوگ فوت شدہ کے گھر مائک کیمرہ لے کر پہنچے ہو اور اس شخص کے والد یا والدہ یا دوسرے رشتہ داروں سے سوال کرتے ہو کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی جاں بحق ہوئی آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہتے ہو۔(افسوس)ایسی صحافت پر۔سرینگر میں پچھلے سال کشتی کا حادثہ ہو لالپورہ ٹنگمرگ میں حالیہ المناک واقعہ ہو پچھلے سال سرینگر میں بمنہ بائی پاس پر تھار گاڑی کو پیش آیا دردناک حادثہ ہو ہر بار آپ لوگوں کے کام کرنے کے طریقے نے صحافت کو داغدار کیا۔دار سعد پورہ کے درویش غلام قادر ریشی صاحب کی عزت کچھ ہی منٹوں میں ایک صحافیہ نے تباہ کرنے کی کوشش کی ۔قادر ریشی صاحب ایک ایسی شخصیت ہے جن کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ وہ قلندرہیں اور آج تک لاکھوں انسان ان کی دعاؤں کی بدولت شفایاب ہوئے ہیں۔ایک اور میڈم ہے سوشل میڈیا صحافت کے میدان میں جو ہر بار کسی نہ کسی ذی عزت کی رسوائی کرتی پھرتی ہے اور اکثر و بیشتر ایسی غلطیاں کرنے کے بعد اس کو عوام سے معافی مانگنی پڑتی ہے۔جب بھی کشمیر کے کسی کونے میں کوئی شرمندہ کرنے والا واقعہ پیش آتا ہے تو آپ حضرات ایک سنسنی خیز خبر بنا کر پیش کرتے ہیں اور یہ سوچے بغیر کہ موبائل فون اس وقت تقریبا ہر عمر و جنس کے ہاتھ میں تو کیا جو خبر پیش کرتے وقت آپ آپے سے باہر نکل جاتے تو سماج پر کیا اثر پڑے گا۔اس سوشل میڈیائی گروہ میں آج تک صرف شمالی کشمیر دلنہ کے بارہمولہ کے ایک شخص کو دیکھا جو کچھ حد تک اپنے فرائض نہایت ہی شائستہ انداز ایمانداری اور خوش اصلوبی انجام دے رہا اور عوام کے مسائل سرکار تک پہنچانے کی بھر پور کوشش میں لگا ہے۔وہ شعبہ طب سے وابستہ مختلف معالجین کا انٹرویو کرکے لوگوں تک جانکاری پینچاتا ہے۔وہ بچوں اور نوجوانوں کو کھیل کود کی طرف راغب کرنے میں بھی اپنا کردار نبھا رہا ہے اور وہ شخص اس پیشے کے ساتھ پچھلے صرف دو سال سے وابستہ ہوا ہے۔
اب آخر میں گزارش ہے سوشل میڈیا صحافی حضرات سے کہ اس پیشے کی توقیر رکھو سچ بولو اور مقصد کی باتیں کرو لمبی چوڈی داستان سننے کے لئے لوگوں کو فرصت نہیں ہے۔عوام کے مسائل جیسے بجلی پانی سڑک شعبہ تعلیم طب اور باقی مسائل سرکار اور حکام بالا تک پہنچاؤ۔ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ نوجوانوں کے روزگار پر بات کرو۔مختلف محکمہ جات میں چکی پیس رہے ہزاروں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کو انصاف دلانے میں اپنا کردار نبھاؤ۔سماج میں پھیلی رسومات بد کو روکنے کے لیئے کام کرو۔ گھریلو مسائل میں مداخلت مت کرو ۔ساس بہو کے جگڑے میں مت پڑو ۔ایران سے آنے والے بچوں کو سانس لینے دو ان کے گھر پہنچتے ہی ان کے دروازے پر کھڑے مت ہوجاؤ۔ دسویں اور بارہویں کے بچوں کی کامیابی پر اتنا مت اچھلو ۔کسی کی بہن بیٹی کا انٹرویو لے کے اس کی تشہیر مت کرو۔اگر کرنا ہی ہے تو منشیات کے خلاف مہم چلاو نقلی ادویات کے خلاف آواز اٹھاؤ جنگلات میں سبز سونے کی چوری پر بات کرو۔اس مصیبت زدہ عوام اور سرکار کے درمیان ایک پل ہنو۔خدا کے لیۓ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو کمزور مت کرو۔ خدا کے لیۓ اس مظلوم مصیبت زدہ قوم کے غمخوار بنو ۔خود ہیرو بننے کی کوشش مت کرو بلکہ ایسا کام کرو کہ لوگ آپ کو ہیرو بنائیں آپ کی عزت کریں۔مہربانی کرکے اپنے کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی لاؤ۔آپ ایک اچھے پیشے سے وابستہ ہو اس پیشے کو داغدار مت ہونے دو۔

صوفی شفیق
نارتھ کیمپس کشمیر یونیورسٹی دلنہ بارہمولہ۔
رابطہ ۔7780873278

Previous Post

107 Regular Course Marks 25 Years of Service and Sacrifice to the Nation

Next Post

Police Order Preliminary Inquiry After Video Goes Viral of Man Paraded Semi‑Naked in Jammu

Next Post

Police Order Preliminary Inquiry After Video Goes Viral of Man Paraded Semi‑Naked in Jammu

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: [email protected]

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.