ہر سال 15 جولائی کو منایا جانے والا ورلڈ یوتھ اسکلز ڈے محض ایک یاددہانی نہیں بلکہ ایک عالمی مطالبہ ہے،نوجوانوں کو وہ مہارتیں فراہم کی جائیں جو نہ صرف انہیں روزگار دلانے میں مدد دیں بلکہ انہیں معاشرے کا باوقار اور بااختیار رکن بھی بنائیں۔ اقوام متحدہ نے 2014 میں اس دن کو تسلیم کرکے نوجوانوں میں مہارت کی کمی کو عالمی ترقی کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ کے طور پر پیش کیا۔ اگر اس مسئلے کو کشمیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہاں کے نوجوان برسوں سے بےروزگاری، سیاسی غیر یقینی صورتحال اور صنعتی ترقی کے فقدان جیسے چیلنجوں سے نبرد آزما رہے ہیں۔لیکن بدلتے وقت کے ساتھ کشمیر کے افق پر ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے۔ وہی نوجوان جو کل تک محرومی، اضطراب اور بےیقینی کا شکار تھے، آج تخلیق، ہنر اور قیادت کے استعارے بنتے جا رہے ہیں۔ وہ صرف مواقع کے منتظر نہیں بیٹھے بلکہ اپنے راستے خود تراش رہے ہیں۔ کہیں اسٹارٹ اپس کا قیام ہو رہا ہے، کہیں روایتی ہنر کو عالمی منڈیوں سے جوڑا جا رہا ہے، اور کہیں ٹیکنالوجی کو روزگار کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔اس طرح سے کشمیری نوجوان نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کےلئے بھی روزگار کے وسائل پیدا کررہے ہیں اور آگے کی راہ کا تعین کررہے ہیں ۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ کشمیر میں یہ مسئلہ اور بھی پریشان کن ہے، جہاں ملازمت کے مواقع کم اور وسائل محدود ہیں۔وادی کشمیر میں روزگار کے لئے ہنر اور دستکاری کے علاوہ کاشتکاری اور سیاحتی سیکٹر موجود ہے البتہ یہ محدود وسائل ہیں اور بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے خاص کر تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے بے کار بیٹھے ہیں ۔ اس کے باوجود، حالیہ برسوں میں جس جذبے کے ساتھ کشمیری نوجوان مہارت کی طرف راغب ہوئے ہیں، وہ ایک خاموش انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں سرکار کی جانب سے جو اقدامات اُٹھائے گئے ہیں ان سے کافی حد تک نوجوانوں کےلئے روزگار کے وسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ فری لانسنگ، آن لائن تعلیم، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس جیسے شعبوں میں اب نوجوان کشمیری باقاعدہ کمائی کر رہے ہیں۔قارئین یہاں پر بہت سے نوجوانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنوں نے ڈیجیٹل طریقہ کار اپنا کر روزگار کا وسیلہ پیدا کیا ہے ۔ مثال کے طور پر پلوامہ کا اظہر، جس نے مالی تنگی کے باعث کالج چھوڑ دیا تھا، آج ویب ڈویلپمنٹ کے ذریعے بیرونِ ملک کلائنٹس سے آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ سری نگر میں قائم ڈیلیوری پلیٹ فارم “فاسٹ بیٹل” نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دے رہا ہے اور مقامی معیشت میں نئی روح پھونک رہا ہے۔اس طرح سے دیگر نوجوانوں نے بھی آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں کافی پیشرفت کی ہے اور اسی کو اپنا وسیلہ روزگار بنایا ہے ۔ قارئین کرام جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر میں روزگار کے وسائل میں دستکاری بھی ہے اور کشمیر کی پہچان ہمیشہ سے اس کی منفرد دستکاری رہی ہے،چاہے وہ پیپر ماشی ہو یا پشمینہ شال ، قالین ہو یا لکڑی کی نقش و نگاری۔ نئی نسل نے ان روایتی فنون کو نئی زندگی بخشی ہے۔ انسٹاگرام، ایٹسے، اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے کشمیری ہنرمند نوجوان بین الاقوامی صارفین سے جڑ چکے ہیں۔نوجوان سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی دستکاری کو فروغ دے رہیں ۔ بڈگام کی ایک نوجوان خاتون نے اپنی دادی کی شال ب±ننے کی مہارت کو سوشل میڈیا پر کاروبار میں بدل دیا ہے۔ آج اس کی مصنوعات فرانس اور کینیڈا تک پہنچ رہی ہیں۔اس طرح سے یہ ڈیجیٹل سہارا حاصل کرکے اپنی دستکاریوں کو عالمی منڈیوں تک پہنچارہا ہے ۔
قارئین جہاں دیگر شعبوں میں وادی کشمیر کے نوجوان آگے بڑھ رہے ہیں کھیلوں میں بھی نوجوان کشمیری خود کو منوا رہے ہیں۔ کرکٹ، مارشل آرٹس، اور فٹنس کے شعبے اب صرف شوق نہیں بلکہ مکمل پیشے بنتے جا رہے ہیں۔ فٹنس ٹرینرز، جم انسٹرکٹرز اور کوہ پیمائی کے ماہرین مقامی اور قومی سطح پر ابھر رہے ہیں۔پلوامہ کے مدثر ڈار کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، جو نوجوانوں کو منشیات اور انتہا پسندی سے دور رکھنے کے لیے مقامی سطح پر کھیلوں کے مقابلے منعقد کرتے ہیں۔ سیاحت کی صنعت، جو کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اب نوجوانوں کو مہمان داری، کچن مینجمنٹ اور گائیڈنگ جیسے نئے شعبوں میں مہارت دلا رہی ہے۔ گاندربل کے بلال نے ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم کے بعد ایک ہوم اسٹے اور فوڈ بلاگ کا آغاز کیا ہے جو سیاحوں کو مستند کشمیری کھانوں سے متعارف کراتا ہے۔انہوںنے نہ صرف اپنے لئے روزگار پیدا کیا بلکہ اس کے ہوم سٹے کی وجہ سے دیگر کئی نوجوانوں کو بھی روزگار ملا ہے ۔اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے کہانی سنانے کا فن بھی عروج پر ہے۔ نوجوان بلاگرز، ویڈیو کریئیٹرز اور صحافی کشمیر کا نیا بیانیہ دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ کشمیر ڈائیلاگ’ جیسے پلیٹ فارمز ان نوجوانوں کی آواز بن رہے ہیں جو مقامی مسائل پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ امید، جدت اور ترقی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔
مرکز اور یوٹی حکومتوں نے کشمیری نوجوانوں کے لیے کئی مہارت افزا پروگرام شروع کیے ہیں۔ پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا، حمایت اسکیم، اور اسکل انڈیا مشن جیسے اقدامات نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت اور تقرری کے مواقع دے رہے ہیں۔ ITI اور پولی ٹیکنیک اداروں کو بھی نئے شعبوں جیسے ڈرون ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سائبر سیکیورٹی سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔نجی ادارے بھی اس کوشش میں شریک ہیں۔ کئی اداروں کی جانب سے کشمیری نوجوانوں کو اسکالرشپ، رہنمائی اور جدید مہارتوں کی تربیت کی سہولیات فراہم کی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں سوشل میڈیا کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی تربیت دے رہی ہیں۔
بارہمولہ کی تانیہ نے فیشن ڈیزائن کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنا بوتیک قائم کیا جہاں پانچ لڑکیاں کام کر رہی ہیں۔ کپواڑہ کے فیروز احمد نے شمسی توانائی کی تربیت کے بعد بنگلور میں ملازمت حاصل کی اور اپنے گاو¿ں کے لیے مثال بن گیا۔ 2024 کے سیلاب میں نوجوانوں کی ٹیموں نے جس طرح تربیت یافتہ نرسنگ، فرسٹ ایڈ اور ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے سینکڑوں زندگیاں بچائیں، وہ اس بات کی گواہی ہے کہ صحیح مہارتیں کس طرح عملی تبدیلی لا سکتی ہیں۔اگرچہ ترقی کی رفتار حوصلہ افزا ہے، لیکن کچھ رکاوٹیں اب بھی باقی ہیں: صنعتوں کی کمی، انٹرنیٹ بندشیں، مارکیٹ تک محدود رسائی، پیشہ ورانہ تعلیم سے جڑی بدنامی، اور بعض علاقوں میں صنفی عدم مساوات۔ تاہم، ان سب کے باوجود نوجوان خود ان چیلنجوں کو شکست دینے میں مصروف ہیں۔
اب ضرورت ہے کہ ہم صرف تربیت پر اکتفا نہ کریں بلکہ انٹرپرینیورشپ، مارکیٹ لنکج، مالی تعاون اور مقامی برانڈنگ کو ترجیح دیں۔ ہر ضلع میں اسکل سینٹرز، صنفی حساس تربیتی ماڈل، اور ایک جامع کشمیر اسکل انڈیکس جیسے اقدامات اس راہ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ورلڈ یوتھ اسکلز ڈے ایک یاد دہانی ہے کہ نوجوان محض مستقبل نہیں بلکہ حال کی بھی طاقت ہیں۔ کشمیر کے نوجوان آج جنون اور مہارت سے
اپنی تقدیر بدل رہے ہیں۔ وہ صرف روزگار کے طالب نہیں، بلکہ نئے امکانات کے خالق ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ان پر یقین کریں، ان کی رہنمائی کریں اور ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ جب کشمیری نوجوان ہنر کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، تو کشمیر ان کے ساتھ ہی آگے بڑھتا ہے۔