قارئین کرام جموں و کشمیر اس وقت سماجی و اقتصادی ترقی کے ایک اہم اور انقلابی مرحلے سے گزر رہا ہے، جہاں خوشحالی، ترقی اور عام شہری کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ قارئین کی جانکاری کےلئے بتادیں کہ حالیہ اکنامک سروے رپورٹ 2025 کے مطابق، مالی سال 2024-25 کے دوران ریاست کی معیشت کی شرحِ نمو 7.06 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، جو ایک مستحکم اور امید افزا اقتصادی رفتار کو ظاہر کرتی ہے۔ اس عرصے میں یوٹی کی حقیقی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ایس ڈی پی) کا تخمینہ 1.45 لاکھ کروڑ روپے جبکہ برائے نام جی ایس ڈی پی 2.65 لاکھ کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ فی کس خالص ریاستی گھریلو پیداوار بھی موجودہ قیمتوں پر بڑھ کر 1,54,703 روپے ہونے کا امکان ہے، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 10.6 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
خطے کی اقتصادی نمو میں کئی اہم شعبے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ زراعت جو طویل عرصے سے جموں و کشمیر کی معیشت کی بنیاد رہی ہے، اس شعبے کو 815 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس رقم سے آبپاشی کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے، فصلوں میں تنوع لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
سیاحت، جو ریاست کا ایک اور نمایاں شعبہ ہے، اس کی بحالی کے لیے 390 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت ریاست کے قدرتی حسن اور ثقافتی رنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے اندرون و بیرون ملک سے سیاحوں کو متوجہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ مقامی معیشت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔
اسی کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے میں بھی اصلاحات کا عمل جاری ہے تاکہ بجلی کی فراہمی میں تسلسل اور خدمات میں بہتری لائی جا سکے۔ میٹرنگ، بلنگ اور وصولی کے نظام کو جدید بنایا جا رہا ہے، مہنگے قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس شعبے کو مستحکم کیا جا سکے اور عام صارفین و صنعتوں کو قابلِ اعتماد بجلی مہیا ہو، جو ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
سماجی بہبود کے میدان میں بھی حکومت نے کئی قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں۔ سب سے نمایاں قدم ”انتودیہ انا یوجنا“اسکیم کے تحت مستحق خاندانوں کو ماہانہ 200 یونٹ مفت بجلی کی فراہمی ہے، جس سے کم آمدنی والے گھرانوں پر پڑنے والا مالی بوجھ کم ہوگا۔ یکم اپریل 2025 سے ان خاندانوں کو فی کس 10 کلوگرام مفت راشن فراہم کیا جارہا ہے تاکہ غذائی تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
اسی طرح غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی شادی کے لیے مالی امداد کی رقم بھی 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ صحت عامہ کے لیے ایک اور اہم قدم یہ ہے کہ خطے میں 98 آبی جانچ لیبارٹریاں قائم کی جا رہی ہیں تاکہ پینے کے صاف پانی تک رسائی ممکن ہو اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاو¿ ہو سکے۔
ان حوصلہ افزا اقدامات کے باوجود کچھ چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ توانائی کے شعبے میں ایگریگیٹ ٹیکنیکل اینڈ کمرشل لاسز یعنی تکنیکی اور تجارتی نقصانات اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں، جن کی وجہ سے بجلی کی خریداری پر بھاری واجبات جمع ہو چکے ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بنیادی
سطح پر اصلاحات اور انتظامی استعداد میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب بھی بیرونی مالی وسائل پر حد سے زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس وقت اندرونی ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی، کل محصولات کا صرف 30 فیصد اور بجٹ کی کل ضروریات کا 25 فیصد ہی پورا کر پاتی ہے، جو ایک غیر متوازن مالی ڈھانچے کی علامت ہے۔ اس کا حل مقامی وسائل میں اضافہ، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور اقتصادی بنیاد کو مستحکم بنانے میں ہے۔
اس کے باوجود، کچھ اشاریے امید کی کرن دکھاتے ہیں۔ مالی سال 2024-25 کے ابتدائی نو مہینوں میں ریاست کو 10,624.09 کروڑ روپے کا ٹیکس حاصل ہوا، جو بہتر وصولی کی غمازی کرتا ہے۔ بیروزگاری کی شرح 2019-20 کے 6.7 فیصد کے مقابلے میں کم ہو کر 2023-24 میں 6.1 فیصد پر آ گئی ہے، جو روزگار کے مواقع میں بتدریج بہتری کی علامت ہے۔
قارئین مستقبل کی سمت میں حکومت بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ نقل و حمل کو بہتر بنایا جا سکے اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو۔ سڑکوں، پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں میں بہتری سے نہ صرف مقامی کاروبار کو سہولت ملے گی بلکہ مختلف علاقوں کے درمیان ترقیاتی عدم توازن بھی کم ہوگا۔ صنعتی ترقی کو بھی حکومتی ترجیحات میں اہم مقام حاصل ہے، خصوصاً ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں، جو روزگار کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں اور محصولات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کے لیے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ ریاست کی افرادی قوت کی صلاحیت میں اضافہ ہو اور معیارِ زندگی بہتر ہو۔اگر وسائل کی درست ترجیحات کے ساتھ ان پالیسیوں پر عمل کیا گیا تو جموں و کشمیر نہ صرف پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا بلکہ ایک خوشحال، مضبوط اور پرامید خطے کے طور پر ابھرے گا۔ اقتصادی وسعت، سماجی فلاحی اسکیموں اور بنیادی ڈھانچے میں اسٹریٹیجک سرمایہ کاری کا امتزاج ریاست کے لیے نئے امکانات پیدا کر رہا ہے۔مسلسل بہتر طرزِ حکمرانی اور عوام کی فعال شرکت کے ساتھ، جموں و کشمیر ایک ایسے خطے میں ڈھل رہا ہے جہاں امید، استحکام اور مواقع کا امتزاج اسے ایک نئی شناخت عطا کر رہا ہے۔