22 اپریل 2025 کو پہلگام، کشمیر میں ایک لرزہ خیز دہشت گرد حملہ ہوا، جس میں 28 بے گناہ شہریوں، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، کو سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ حملہ نہ صرف جانی نقصان کے لحاظ سے دردناک تھا بلکہ اس نے بین الاقوامی سطح پر جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی نوعیت، اس کے سرپرستوں اور اس کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ اس حملے کی ذمہ داری جس تنظیم نے قبول کی — وہ ہے “دی ریزسٹنس فرنٹ، جسے اب امریکہ نے باضابطہ طور پر ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم اور عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔
ٹی آر ایف کو ابتدا میں پاکستان کے پراپیگنڈہ نیٹ ورک نے “مقامی مزاحمت” کے طور پر پیش کیا، تاکہ دہشت گردی کو اندرونی شورش کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ مگر وقت کے ساتھ یہ بات بے نقاب ہوئی کہ ٹی آر ایف دراصل لشکرِ طیبہ ہی کا دوسرا نام ہے — وہی تنظیم جو 2008 کے ممبئی حملوں سمیت کئی بڑے خونریز واقعات میں ملوث رہی ہے۔
موجودہ ٹی آر ایف کے لیڈر شیخ سجاد گل ہیں، جو اس وقت پاکستان میں روپوش ہیں اور جن پر ہندوستانی ایجنسیوں نے دہشت گردی کے تحت انعام بھی مقرر کیا ہے۔ ٹی آر ایف کے بانی محمد عباس شیخ تھے، جو حزب المجاہدین سے وابستہ رہ چکے تھے اور 2021 میں ایک انکاؤنٹر میں مارے گئے۔ بعد ازاں، تنظیم کی قیادت باسط احمد ڈار (ابو کامران) نے سنبھالی، جنہیں مئی 2024 میں ہلاک کر دیا گیا۔
یہ تنظیم اب تک وادی کے مختلف علاقوں — بشمول ریاسی، گاندربل، اننت ناگ، باندی پورہ، شوپیاں اور ہندوارہ — میں کئی دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے، جن کا ہدف عام شہری، اقلیتیں، سیاح، سکیورٹی اہلکار اور سیاسی شخصیات رہی ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے ٹی آر ایف کو FTO اور SDGT قرار دیا۔ اس فیصلے میں واضح طور پر ٹی آر ایف کے لشکرِ طیبہ سے روابط، پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً جنرل عاصم منیر کے کردار اور حملے کے منصوبہ سازوں کی نشاندہی کی گئی۔ اس اقدام کو بھارت کے لیے ایک سفارتی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف ٹی آر ایف کی اصل حقیقت دنیا کے سامنے آئی بلکہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مزید تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس فیصلے کو “بھارت-امریکہ انسدادِ دہشت گردی تعاون کی مضبوط توثیق” قرار دیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا رہنا دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اس سفاک حملے کے جواب میں بھارت نے 7 مئی کو “آپریشن سندور” لانچ کیا، جس کا مقصد پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قائم دہشت گرد کیمپوں اور لانچ پیڈز کو نشانہ بنانا تھا۔ ان کارروائیوں میں 100 سے زائد دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ پاکستان نے اس کے جواب میں ڈرون اور میزائل حملے کیے، جنہیں بھارتی فورسز نے پسپا کر کے جوابی کارروائی کی، جس کے بعد 10 مئی کو پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست کی۔
ٹی آر ایف دراصل پاکستان کی اس پرانی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس میں ایک تنظیم کو “ختم” کر کے اسے نئے نام سے فعال کیا جاتا ہے تاکہ FATF جیسے اداروں کی پابندیوں سے بچا جا سکے۔ ٹی آر ایف کی بنیاد اگست 2019 کے بعد رکھی گئی، جب بھارت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔ اس کے بعد پاکستان نے دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ مزاحمت “اندر سے” ہو رہی ہے، ٹی آر ایف کو “کشمیر میں مقامی ردعمل” کے طور پر متعارف کرایا، حالانکہ اس کی قیادت، اسلحہ، تربیت، پیسہ اور پراپیگنڈہ سب کچھ پاکستان میں تیار کیا جا رہا تھا۔
امریکی اقدام نے ٹی آر ایف کے نام نہاد “مقامی تشخص” کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ پاکستان اب محض دہشت گردی کا شکار ملک نہیں، بلکہ ایک “دہشت گردی برآمد کرنے والا ریاستی نظام” بن چکا ہے۔ جنرل عاصم منیر کا کردار — چاہے وہ اس حملے کے منصوبہ ساز ہوں یا اس کے سرپرست — نہ صرف خطے کی سلامتی بلکہ پاکستان کے اندرونی سیاسی بحران سے بھی جڑا ہوا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ حملہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی داخلی بے چینی اور فوج کی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ ٹی آر ایف اور اس جیسے گروہ دراصل اس “دہشت گرد صنعتی کمپلیکس” کا حصہ ہیں جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے تشکیل دیا ہے — ایک ایسا ڈھانچہ جو ریاستی اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور دہشت گرد تنظیموں کے باہمی تعاون سے چلتا ہے۔
بھارت نے ٹی آر ایف کی اصلیت اجاگر کرنے کے لیے ایک زبردست سفارتی مہم بھی شروع کی۔ 33 عالمی دارالحکومتوں میں سات کثیرالجماعتی وفود بھیجے گئے، جنہوں نے بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے کردار سے آگاہ کیا۔ نتیجتاً، امریکہ کا حالیہ اعلان محض ایک علامتی قدم نہیں بلکہ ایک عالمی بیانیے کی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔
اب وقت ہے کہ دنیا پاکستان کو “دہشت گردی کا شکار” کے بجائے “دہشت گردی کا سرپرست” تسلیم کرے۔ بھارت اس پالیسی پر قائم ہے کہ قومی خودمختاری، شہریوں کی حفاظت اور علاقائی استحکام کے لیے ہر محاذ پر دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے گا — چاہے وہ میدانِ جنگ ہو، سفارتی راہداریاں ہوں یا عالمی رائے عامہ کا میدان۔ٹی آر ایف اب ایک بے نقاب چہرہ ہے — نہ یہ “ریزسٹنس” ہے، نہ “مقامی”، بلکہ لشکرِ طیبہ کی نئی شناخت ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس کی درجہ بندی نے عالمی برادری کو ایک بار پھر یہ یاد دلایا ہے کہ کشمیر میں دہشت گردی کی جڑیں سرحد پار ہیں، اور ان کی آبیاری ایک باقاعدہ ریاستی نظام کر رہا ہے۔
پہلگام کا قتلِ عام ایک سنگ میل تھا — خون سے لکھی گئی ایک گواہی، جو اس جھوٹے بیانیے کو چیر کر باہر آئی کہ دہشت گردی مقامی تحریک ہے۔ ٹی آر ایف کی تباہ کاریوں، اس کے سرپرستوں، اور بھارت کے مؤثر ردعمل نے ایک نیا باب رقم کیا ہے — ایک ایسا باب جس میں سچائی، سلامتی اور عزم کا امتزاج ہے۔
 
	    	
