کشمیر کی سیاست میں ایک نئی آواز ابھری ہے، جو کسی نعرے، احتجاج یا دعوے کی نہیں بلکہ خوداحتسابی، سچائی اور آگے بڑھنے کی بات کرتی ہے۔یہ آواز ہے سابق حریت رہنما بلال غنی لون کی، جو آج ماضی کے تجربات کا کھلا تجزیہ کرتے ہوئے نہ صرف حریت کانفرنس کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے کردار پر بھی بے لاگ تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا بیانیہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کشمیر سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طور پر ایک نیا راستہ تلاش کر رہا ہے۔بلال غنی لون، جن کا تعلق ایک علیحدگی پسند سیاسی خانوادے سے رہا ہے، اب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ حریت کانفرنس جس خواب کے ساتھ بنی تھی، آج وہ نہ صرف غیر مو ¿ثر ہو چکی ہے بلکہ اس کا وجود بھی عملی طور پر معدوم ہو چکا ہے۔ ان کے بقول، حریت آج کے دن میں کوئی فعال ادارہ نہیں رہا، ہمیں ایمانداری سے مان لینا چاہیے کہ وہ کہیں نظر نہیں آتا۔
قارئین حریت کانفرنس جس کا وجود 90کی دہائی میں ایک سیاسی مزاحتمی پلیٹ فارم کے طور پر عمل میں آیاتھا تین دہائیوں سے جموں کشمیر میں علیحدگی پسند جماعتوں کی آواز بلند کررہی تھی تاہم بقول بلال غنی لون نے یہ پلیٹ فارم جموں کشمیر کے عوام کے لئے کچھ حاصل نہ کرسکی سوائے ہڑتالوں اور احتجاجوں کے اس پلیٹ فارم کا استعمال کسی بھی فلاحی کام کےلئے نہیں کیا گیا ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ مرحوم عبدالغنی لون کے دو فرزن حریت کانفرنس میں بطور اکائی کے کام کررہے تھے اور پیپلز کانفرنس حریت کانفریس کا ایک مضبوط ستون مانا جاتا تھا تاہم یہ ستون اُس وقت کمزور ہوا اور حریت سے ایک دھڑے نے اعلیحدگی اختیار کی جب سجاد غنی لون نے حریت سے کنارہ کشی اختیار کرکے پیپلز کانفرنس تشکیل دی جبکہ ایک اور جماعت بلال غنی لون کی سربراہی میں قائم رہی ۔ سجاد غنی لون نے حریت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے کچھ ہی مدت بعد مین سٹریم میں شمولیت اختیار کرلی اور باضابطہ اسمبلی انتخابات میں شرکت کی اور جیت درج کرلی ۔ تاہم بلال غنی لون حریت ع کے ساتھ برابر منسلک رہے ۔ لیکن اب انہوں نے بھی پانچ برسوں سے خاموشی اختیار کرنے کے بعد اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ بھی ہند نواز سیاست میں شامل ہونے والے ہیں ۔ قارئین یہ محض ایک سیاسی موڑ نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی ہے۔ لون کا کہنا ہے کہ حریت کانفرنس کو تاریخ نے کئی مواقع دیے، مگر وہ ان سے کچھ حاصل نہ کر سکی۔ بقول ان کے”ہم نے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھائی، کچھ کر سکتے تھے مگر نہ کر سکے یہ سچ ہے۔”
حریت پر تنقید کرتے ہوئے وہ پاکستان کے کردار سے بھی صرفِ نظر نہیں کرتے۔ پاکستان، جو عشروں تک کشمیر کی سیاست میں “بھرپور دلچسپی” لیتا رہا، اس پر طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ بیانات تو بہت سنے، مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ پاکستان کو کشمیر میں بگاڑ پیدا کرنے کے بجائے سکون کا ذریعہ بننا چاہیے۔بلال لون نے صاف الفاظ میں پاکستان کے خلاف یہ الزام عائد کیا کہ پاکستان نے کشمیریوں کا استحصال کیا اور کئی دہائیوں تک ان کا استعمال بھارت کے خلاف کرتا رہا ہے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ان تین دہائیوں میں مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کے سوا حاصل کچھ بھی نہیں ہوا جبکہ ہزاروں گھر اُجڑ گئے ، ہزاروں افراد مارے گئے ، سینکڑوں لاپتہ ہوئے ، سینکڑوں گھرانے تباہ ہوئے ۔ لیکن تین دہائیوں بعد اس کی اب آنکھیں کھل گئیں ۔بلال غنی لون کا یہ اعتراف نہ صرف ایک شخصی تبدیلی کا اشارہ ہے بلکہ ایک مکمل سیاسی دھارے کی از سرِنو سمت بندی کی علامت ہے۔ ان کے مطابق، نئی نسل کو سچ بتایا جانا چاہیے ایک ایسا سچ جو 35 برسوں پر محیط استحصال پر مبنی سیاست سے پردہ اٹھائے۔نہ جانے موصوف اب تک کسی خیالی دنیا میں جی رہے تھے کہ اب انہیں کشمیری نوجوانوں کی یاد آنے لگی شائد اب اس کو یہ احساس ہوا کہ ان تین دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران انہوںنے حریت کے نام پر جو کیا وہ محض آوارہ گردی تھی ۔ وہ نوجوانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ بھارت کو سیاسی جماعتوں کی عینک سے نہ دیکھیں، بلکہ بھارت کو بھارت کے طور پر دیکھیں، اور اس کے اندر اپنے لیے جگہ تلاش کریں۔ان کا یہ موقف نہ صرف عملی سیاست کی جانب جھکاو ¿ ظاہر کرتا ہے بلکہ ماضی کے نظریاتی شدت پسندانہ بیانیے سے واضح انحراف بھی ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ ان کی سیاست اب کسی وزارتِ اعلیٰ یا اسمبلی نشست کے لیے نہیں، بلکہ ”اپنے لوگوں کا قرض اتارنے“کے لیے ہے۔ وہ کہتے ہیں، یہ میرے لیے ایک ”بیک پے ٹائم “ہے بلال غنی لون نوجوانوں کے مستقبل پر بات کرتے ہیں۔ ان کے لیے اب سیاست صرف سڑکوں، پانی اور بجلی تک محدود نہیں، بلکہ تعلیم، صحت، اور کاروباری امکانات تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، کشمیری آج کہیں نہیں ہیں، صرف وصول کرنے والے بن گئے ہیںاس صورتِ حال کو وہ تشدد کے برسوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
آرٹیکل 370 کی تنسیخ پر بھی ان کا نقط نظر پیچیدہ مگر سچ پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق، شاید وہ دفعہ سیاسی طور پر کھوکھلی ہو چکی تھی، مگر کشمیریوں کے لیے وہ ایک نفسیاتی جیت تھی۔وہ یہ مانتے ہیں کہ حکومتِ ہند نے عسکری سطح پر تو کامیابی حاصل کر لی، لیکن کشمیر کو ہار دیا۔
وہ حکومت کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ وہ کیا کرے، کیونکہ ان کے بقول، ”میں اتنا بڑا آدمی نہیں کہ وزیرِ اعظم کو مشورہ دوں“، لیکن وہ ضرور کہتے ہیں کہ کشمیر کو ووٹ بینک کے زاویے سے نہ دیکھا جائے، بلکہ ہاتھ رکھ کر اس خطے کو محسوس کیا جائے۔
سیکیورٹی صورتحال کو وہ فسٹ کلاس کہتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ “ڈنڈے کے زور پر ہے”۔ ان کے خیال میں کشمیر کی سب سے بڑی قربانی اعتماد ہے، اور اس اعتماد کی بحالی کے لیے سب سے پہلے کشمیریوں کے ساتھ خلوص پر مبنی مکالمہ ہونا چاہیے—نہ کہ صرف دہلی اور اسلام آباد کے درمیان۔بالآخر، وہ ایک نئی نسل کی بات کرتے ہیں جو ماضی سے بے خبر ہے، اور جس کے ساتھ ایک نیا، سچا باب شروع کرنے کی ضرورت ہے۔قارئین بلال غنی لون اگر اپنی بات میں مخلص ہیں اور وہ واقعی کشمیریوں کے حق کی بات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ محض مفادات کی سیاست کرنے کے بجائے نوجوانوں کی بات کریں اور ان کے مستقبل کو بہتر بنانے کےلئے کام کریں یہی سب سے بڑی تبدیلی ہے