ہمالیہ کی سنگلاخ وادیوں میں چھپے گریز اور تلیل کے علاقے جموں و کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع ہیں۔ قارئین مناظر دلفریب، فضا پ±ر سکون، اور چشمے برف کی چادر اوڑھے کشنگنگا کے ساتھ رواں دواں،لیکن ان حسین نظاروں کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہے تعلیم کے میدان میں مسلسل جدوجہد۔ شدید برفباری، جغرافیائی تنہائی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی نے یہاں کے بچوں، والدین اور اساتذہ کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جو ہر موسمِ سرما میں نئی شکل اختیار کر لیتی ہے۔قارئین گریز اور تلیل میں سردی ایک موسم نہیں، ایک طرزِ حیات ہے۔ دسمبر سے مارچ تک یہ وادیاں مکمل طور پر برف میں دفن ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر رازدان پاس ، جو گریز کو وادی کشمیر سے جوڑنے والا واحد زمینی راستہ ہے ، وہاں برف کی موٹائی 10 سے 15 فٹ تک پہنچتی ہے۔ یہی سڑکیں ، گریزبانڈی پورہ اور داورتلیل ، ان علاقوں کی شہ رگ ہیں، مگر برفانی تودوں اور پھسلن کے باعث اکثر بند رہتی ہیں۔ اپریل 2025 میں معمولی برفباری نے بھی گریز،بانڈی پورہ سڑک کو بند کر دیا، جس سے پورا علاقہ کٹ کر رہ گیا۔ فروری 2025 میں خندال گاو¿ں میں برفانی تودہ گرنے سے کئی مکانات تباہ ہو گئے۔ان موسمی حالات کا سب سے گہرا اثر تعلیم پر پڑتا ہے۔ گریز اور تلیل کے اسکول، جیسے داور اور کلشے تلیل میں قائم ادارے، اکثر شدید برفباری کے دوران بند کیے جاتے ہیں۔ 19 اپریل 2025 کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ گریز نے 8ویں جماعت تک تلیل میں اور 5ویں جماعت تک گریز تحصیل میں کلاسیں معطل کرنے کا حکم جاری کیاتھا۔ یہ فیصلے اگرچہ طلبہ کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں، لیکن تعلیمی تسلسل کو بری طرح متاثر کرتے ہیں، خاص طور پر ا±ن طلبہ کے لیے جو بورڈ کے امتحانات کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ مارچ 2024 میں 300 سے زائد طلبہ بانڈی پورہ میں پھنس گئے کیونکہ راستے بند تھے اور وہ امتحانات دینے گریز نہ جا سکے۔
قارئین کو پتہ ہوگا کہ گریز اور تلایل کی جغرافیائی تنہائی بنیادی ڈھانچے کے بحران کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ ان وادیوں کو بانڈی پورہ سے جوڑنے والی واحد سڑک سال کے چھ ماہ ناقابلِ عبور رہتی ہے۔ سردیوں میں ہیلی کاپٹر ہی واحد سہارا بنتے ہیں وہ بھی صرف ایمرجنسی کے لیے۔ جنوری 2024 میں اگرچہ ہیلی کاپٹر سروس شروع ہوئی، لیکن یہ روزمرہ تعلیمی آمدورفت کے لیے موزوں نہیں۔
طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف شدید موسم بلکہ بنیادی تعلیمی سہولیات کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ کتابیں، اسٹیشنری اور یہاں تک کہ حرارت کا بندوبست بھی اکثر ناکافی ہوتا ہے۔ اسکولوں کی عمارتیں زیادہ تر لکڑی کی ہوتی ہیں، جو روایتی داردی طرزِ تعمیر کی علامت تو ہیں، مگر برفانی بوجھ یا تودوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔ کمروں کی تہہ داری ناکافی ہے اور جب درجہ حرارت منفی 10 ڈگری تک گِر جائے تو پڑھائی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی اور انٹرنیٹ کی غیرمستقل سہولت بھی ڈیجیٹل تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اساتذہ کی تعیناتی بھی ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ان دور دراز علاقوں میں تقرریوں میں تاخیر معمول ہے۔ بہت سے اساتذہ یہاں آ کر خدمات انجام دینے سے کتراتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر مقامی افراد نے شکایات درج کیں کہ تلیل کے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا سبب سیاسی مداخلت ہے، جس سے منتقلیاں مکمل نہیں ہو پاتیں۔یہ تمام رکاوٹیں مل کر بچوں کے تعلیمی سفر کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے۔ مڈل اسکول کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا اکثر ممکن نہیں رہتا کیونکہ قریبی علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود نہیں، اور سردیوں میں جانا ویسے بھی دشوار ہوتا ہے۔ موسمِ سرما کے دوران اسکولوں سے رابطہ کٹ جانے کے سبب سلیبس مکمل کرنا بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے۔گریز اور تلیل کی دارد شینا آبادی اپنی قدیم ثقافت کے لیے جانی جاتی ہے، لیکن ان کی تہذیبی انفرادیت بعض اوقات جدید تعلیمی تقاضوں سے متصادم ہو جاتی ہے۔ اپریل سے ستمبر تک کا موسم مختصر گرمیوں کا ہے ، یہی وقت سیاحت اور کھیتی باڑی کا بھی ہے، خاص طور پر آلو کی فصل یہاں کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ اس دوران اکثر بچوں سے کھیتوں یا گھر کے کاموں میں مدد لی جاتی ہے، جس سے اسکول حاضری متاثر ہوتی ہے۔جب اکثر سڑکیں بند ہوتی ہیں۔ ان دنوں طالب علموں کو نہ صرف کتب اور ٹیچرز کی کمی کا سامنا ہوتا ہے بلکہ سردی کی شدت میں سفر کا عذاب بھی جھیلنا پڑتا ہے۔ لڑکیوں کے لیے تو یہ اور بھی مشکل ہے، جہاں بعض اوقات شادی اور سماجی توقعات ان کی تعلیم کو محدود کر دیتی ہیں ، اگرچہ اب مقامی سطح پر بیداری آ رہی ہے۔تاہم، ان تمام مشکلات کے باوجود گریز اور تلیل کے لوگ ہمت نہیں ہارتے۔ والدین، اساتذہ اور مقامی رہنما مسلسل بہتری کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بارڈر روڈز آرگنائزیشن کی جانب سے برف صاف کرنے کی کوششیں اہم کردار ادا کرتی ہیں، تاکہ گریزبانڈی پورہ اور داورتلیل کے راستے دوبارہ کھل سکیں۔ مقامی سطح پر بچوں کے لیے اسٹڈی گروپس ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم جاری رہ سکے۔ 2020 میں تلیل میں موبائل نیٹ ورک کی دستیابی نے ڈیجیٹل تعلیم کی ایک نئی راہ کھولی، حالانکہ یہ سہولت اب بھی محدود ہے۔معاشی ترقی کے لیے پرائیویٹ اداروں کی دلچسپی بھی امید کی کرن ہے، جیسے پیپسی کو کی جانب سے آلو کی خریداری، جو یہاں کی معیشت کو فروغ دے سکتی ہے اور بالواسطہ طور پر تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط کر سکتی ہے۔قارئین گریز اور تلیل میں تعلیم کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط اور حساس حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔گریز اور تلیل میں تعلیم کے چیلنجز واقعی مشکل ہیں، لیکن ناقابلِ حل نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سال بھر کی رسائی کو ترجیح دے، خاص طور پر رازدان پاس جیسے علاقوں میں سرنگوں کی تعمیر جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ اسکولوں کو موسم سے محفوظ بنانے کے لیے بہتر عمارتیں اور حرارتی نظام دیا جائے۔ اساتذہ کے لیے بروقت تعیناتی اور ترغیبات فراہم کی جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر، امتحانات کا شیڈول علاقے کی موسمی حقیقتوں کے مطابق ترتیب دیا جائے۔گریز اور تلایل کے بچے صرف طلبہ نہیں، بلکہ ایک انوکھی ثقافتی وراثت کے امین ہیں۔ ان کا برف اور تنہائی میں علم کی تلاش میں نکلنا انسانی عزم کی روشن مثال ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی محنت اور حوصلے کو وہ سہارا دیا جائے جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق ہیں ، تاکہ علم کی روشنی ان وادیوں میں بھی چمکتی رہے، چاہے موسم کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو۔