قارئین وادی کشمیر پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی کےلئے مشہور ہے ۔ ہمالیائی پہاڑیوں کے سلسلے کے بیچ میں واقع وادی کشمیر کے دلکش مناظر ہی دنیا بھر میں مشہور نہیں ہے بلکہ یہاں کی دستکاری بھی عالمی سطح پر ایک مقام رکھتی ہے ۔ وادی کشمیر میں صدیوں سے ہاتھ سے بنی اشیاءیہاں کی ثقافت اور تہذیب کا حصہ ہے اور اپنی منفرد شناخت کےلئے جانی جاتی ہے جو صدیوں سے یہاں پر معیشت اور روزگار کےلئے اہم وسیلہ ہے ۔ اور یہ دستکاریاں صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہوتی آرہی ہیں۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ یہاں کی دستکاریوں میں کئی اہم مصنوعات شامل ہیں جن میں پشمینہ شال، اخروٹ کی لکڑی سے بنی اشیاء، پیپر ماشی ، کندہ کاری او ردیگر دستکاریاں کشمیری ثقافت کا حصہ بن چکی ہے اور نئی نئی کہانیاں بیان کرتی ہے جبکہ موجودہ جدید دور میں بھی کشمیری دستکاریوں کی ایک الگ اہمیت ہے اگرچہ یہ کئی چلینجوں کا سامنا کررہی ہیں تاہم آج بھی ہاتھ سے بنی اشیاءکی اپنی خوبصورتی ، ایک پہچان ہے ۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ یہ دستکاریاں کشمیری قدیم تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں ہندومت، بدھ مت اور مسلم حکمرانوں کے درباروں میں یہاں کی دستکاریاں پروان چڑھی ہیں اور شاہی خاندانوں کے ذریعے دستکاروں کو کافی عزت بخشی جاتی تھی جبکہ ہاتھ سے بنائی گئی اشیاءکی کافی پذیرائی بھی ہوا کرتی تھی ۔ اگر ہم 14ویں صدی کی بات کریں تو اس صدی میں کشمیری دستکاریوں ، فنون کو خاصی وسعت ملی خاص طو رپر سلطان زین العابدین جنہیں عرف عام میں ”بڈشاہ“کے نام سے جانا جاتا تھا کے دور میں یہاں پر فارس اور دیگر مسلم ممالک سے آئے ہوئے فن کاروں اور دستکاروں کو عزت بخشی گئی ۔ ان کے دور میں کئی دستکایوں کو کافی فروغ ملا جن میں ہاتھوں سے بنے قالین یعنی قالین بافی، پیپر ماشی اور کڑھائی کے کاموں کے ملبوسات شامل ہیں اور آج بھی یہ کشمیری دستکاریوں کی بنیاد ہے ۔
کشمیری دستکاریوں میں سب سے قیمتی اور مشہور جو ہے وہ پشمینہ شال ہے یہ عمدہ اون سے تیار ہوتا ہے جو لداخ کے بالائی علاقوں میں پائی جانے والی بکریوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس کی بناوٹ کافی پیچیدہ ہے ۔ اون کو صاف کرنے سے لیکر اس پر کڑھائی کا کام کرنے اور مارکیٹ تک پہنچانے تک اس کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ نہ صرف نرم شال بن کر تیار ہوتا ہے بلکہ یہ گرمی دینے والا بھی ہے ۔ اس شال کو بنانے کا ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے ۔ پشمینہ شال پر ہاتھ سے مختلف رنگوں کے دھاگوں سے پھول اور دیگر چیزیں بنائی جاتی ہے جو اس شال کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے ۔ ان شالوں کی کبھی شاہراہ ریشم کے ساتھ تجارت کی جاتی تھی اور شہنشاہوں اور اشرافیہ کی طرف سے ان کی تعریف کی جاتی تھی۔آج بھی کشمیر میں تیار ہونے والے پشمینہ شال مختلف ممالک کے سربراہوں کو تحفے میں پیش کئے جاتے ہیں ۔
قارئین اسی طرح دیگر دستکاریوں میں اخروٹ کی لکڑی سے بنی مختلف مصنوعات ہے جن پر پیچیدہ طریقے سے نقشہ نگاری کند کی جاتی ہے ۔ یہ نہ صرف خوبصورت ہوتے ہیں بلکہ پائیدار اور مضبوط بھی ۔ کیوں کہ اخروٹ کی لکڑی کافی مضبوط ہوتی ہے اور اس سے بنی اشیاءجن میں بیڈ، میز ، کرسیاں ، پھول دان وغیرہ شامل ہیں زیبائش و آرائش کا دیگر سامنا اس لکڑی سے بنائی جاتی ہے جن پر مختلف نشہ نگاری ہوتی ہے ۔ قارئین کی جانکاری کےلئے بتادیں کہ اخروٹ کی لکڑی پر کاریگر مہینوں تک کام کرتا رہتا ہےنقش نگار مختلف ڈئزان بناتے ہیں جن میں چنار کے پتوں ، پھول اور دیگر اشیاءکی شکلیں اس پر کندہ کی جاتی ہے اور نقش نگاری کے بعد اس کی صفائی اور دیدہ زیب بنانے کےلئے پالش بھی کی جاتی ہے جس سے اس کی خوبصورتی مزید نکھر آتی ہے ۔ قارئین اخروٹ کی لکڑی پر کاریگری کا کام محض ایک ہنر نہیں ہے بلکہ یہ کاریگری کی مہارت، صبر اور اس کی لگن کا امتحان ہوتا ہے ۔
اسی طرح وادی کشمیر میں ایک اور دستکاری جس کو عرف عام میں ”پیپر ماشی “ کہا جاتا ہے یہ فارس کی صنعت ہے جو 14ویں صدی میں ایران کے دستکاروں کی جانب سے وادی کشمیر پہنچائی گئی ہے ۔ دستکار کاغذ سے بنی مختلف اشیا جن میں آرائشی ڈبے ، گلدان ، گھنٹیاں، مور ، ہاتھی، اور دیگر اشیاءپر نقش نگاری کرتے ہیں اور یہ کافی باریکی کا کام ہوتا ہے ۔ پیپر ماشی کے دستکار ہاتھوں سے قدرتی رنگ تیار کرتے ہیں اور نازک ”برش “ کا استعمال کرتے ہوئے پیپر سے بنی اشیاءپر مختلف رنگوں سے مختلف ڈیزائن بناتے ہیں ان ڈیزائنوں میں اکثر کشمیری فطرت کے عناصر، پھول، پرندے اور خوبصورت مناظر شامل کیے جاتے ہیں، یہ سب شاندار رنگوں میں پیش کیے گئے ہیں۔
قارئین کرام جیسے کہ وادی کشمیر میں مختلف دستکاریاں آج بھی روزگار اور معیشت کےلئے کافی اہم ہے البتہ ان کو کئی طرح کے چلینج درپیش ہیں ۔ کاریگری کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے کیوں کہ نئی نسل ان دستکاریوں کو سیکھنے میں اب دلچسپی نہیں لے رہی ہے کیوں کہ ان کو وہ اُجرت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں اگرچہ سرکار کی جانب سے مختلف سکیموں کے ذریعے دستکاریوں کو فروغ دینے کی غرض سے بین الاقوامی سطح پر نمائشوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاہم سرکار کی جانب سے دستکاریوں کو بچانے کےلئے ناکافی کوششیں اور سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ کہ مشینوں سے اب نقلی دستکاریاں تیار کی جاتی ہیں جو کشمیر میں ہاتھوں سے بنائی جارہی اشیاءکےلئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے ۔سرکار کی کوششوں کی بدولت کشمیری شالوں، قالین اور دیگر اشیاءکو بچانے اور ان کو عالمی سطح پر فروغ دینے کےلئے مختلف جگہوں پر نمائشوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاہم اس کے علاوہ بھی زمینی سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے دستکاروں ، کاریگروں اور ہنر مندوں کو براہ راست فائدہ ملے اور یہ دستکاریاں محفوظ رہ سکیں ۔