پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر (جسے دنیا میں پاکستان آکیوپائیڈ کشمیر یا PoK کے نام سے جانا جاتا ہے) میں حالیہ دنوں ایک خاموش مگر فیصلہ کن بیداری دیکھنے کو ملی ہے۔ یہ بیداری محض سیاسی یا سماجی نوعیت کی نہیں، بلکہ ایک دیرینہ زخم کے خلاف ردعمل ہے۔ایک ایسا زخم جو برسوں سے ان نوجوانوں کے جسم و جاں پر لگتا آیا ہے جنہیں جہاد کے نام پر موت کی دہلیز پر بھیجا گیا، اکثر ان کے والدین کی مرضی یا اطلاع کے بغیر۔ اب جب کہ لوگ کھل کر ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جو کم سن لڑکوں کو اپنے مکروہ عزائم کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ایک نئی ا±مید کی کرن ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔
قارئین کچھ دن قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی خبروں اور ویڈیوز میں یہ انکشاف ہوا کہ ضلع باغ کے قریب واقع گاو¿ں کوئیاں میں عوامی غصے نے اس وقت شدت اختیار کی جب لشکرِ طیبہ سے وابستہ کالعدم گروہ ‘جموں و کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ کا ایک اعلیٰ کمانڈر رضوان حنیف وہاں پہنچا۔ اس کا مقصد حال ہی میں سری نگر کے ہارون علاقے میں مارے گئے ایک غیر ملکی دہشت گرد حبیب طاہر کی غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا تھا۔ مگر حبیب کی موت نے اس کے خاندان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے کسی دہشت گرد گروہ کو اپنے بیٹے کے جنازے میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔رضوان حنیف کے آنے پر اہلِ علاقہ کا غصہ اس وقت قابو سے باہر ہو گیا جب اس کے مسلح محافظ، جن میں اس کا بھتیجا بھی شامل تھا، نے ماتم کرتے لوگوں کو بندوق کے زور پر خاموش کرانے کی کوشش کی۔ اس واقعے نے عوامی جذبات کو ایک نیا رخ دیا—یہ صرف دہشت گردی کا نہیں بلکہ اخلاقی پستی اور معاشرتی تباہی کا مسئلہ بن چکا تھا۔یہ واقعہ صرف کوئیاں تک محدود نہ رہا۔ خطے کے مختلف علاقوں سے آنے والی ویڈیوز، عینی شاہدین کے بیانات، اور مقامی صحافیوں کی رپورٹنگ نے ثابت کیا کہ عوام اب دہشت گردی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مختلف سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا گیا کہ بچوں کو ”موت کا پروانہ دے کر“ سرحد پار بھیجنا نہ صرف سیکورٹی مسئلہ ہے بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ ایک صحافی نے اپنے بیان میں کہا: “غریبوں کے بچوں کو برین واش کرنا بند کرو۔ تم لوگ انہیں مرواتے ہو، اور پھر ا±ن کی لاشوں پر سیاست کرتے ہو۔یہ بیانات کسی وقتی غصے کا نتیجہ نہیں، بلکہ برسوں سے جمع ہونے والی بے بسی کا اظہار ہیں۔کوئیاں کے عوام نے روایت کا سہارا لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ ایک جرگہ بلانے جا رہے ہیں جس میں مسلح گروہوں کی سرگرمیوں پر کھل کر بحث کی جائے گی، اور ایک اجتماعی فیصلہ کیا جائے گا کہ ان گروہوں کو اپنے علاقے میں مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جرگہ، جو پشتون اور کشمیری ثقافت میں صدیوں سے انصاف اور مشاورت کا ذریعہ رہا ہے، اب دہشت گردی کے خلاف عوامی عزم کی علامت بن چکا ہے۔
ایک مقامی باشندے نے وائرل ویڈیو میں کہاکہ ”اب بہت ہو گیا۔ ہمارے بچوں کو مروایا جا رہا ہے اور ہمیں چپ رہنے کو کہا جا رہا ہے۔ ہم اپنی نسلوں کی حفاظت کریں گے، چاہے اس کے لیے ہمیں کسی کے خلاف بھی کھڑا ہونا پڑے۔“
صرف عوام ہی نہیں، بلکہ مقامی انتظامیہ بھی اب جاگتی نظر آ رہی ہے۔ تحصیل ہری گھیل کے گاو¿ں خرات میں جب ایک ایسے اجتماع کی اجازت مانگی گئی جس میں مبینہ طور پر مسلح افراد کی شرکت متوقع تھی، تو SDM ہری گھیل اور SHO سٹی باغ نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کیا بلکہ اس پر باقاعدہ پابندی بھی عائد کر دی۔ یہ اقدام اس بات کا اشارہ ہے کہ اب ریاستی ادارے بھی عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے انتہا پسندی پر روک لگانے کے لیے متحرک ہو رہے ہیں۔
تاہم، اس سچ کو بیان کرنا آسان نہیں۔ کئی مقامی صحافیوں نے بتایا ہے کہ انہیں آن لائن دھمکیاں دی گئی ہیں۔ وہ عناصر جو برسوں سے اس دہشت گردی کے تانے بانے ب±ن رہے تھے، اب صحافیوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کئی آزاد صحافی اپنی رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ PoK کے عوام اب خاموش نہیں۔
پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر میں برسوں سے ایک ایسا ماحول قائم رہا ہے جہاں دہشت گرد گروہ مقامی آبادی کو خوف، مذہبی جذبات اور معاشی مجبوریوں کے ذریعے قابو میں رکھتے تھے۔ بچوں کو تعلیم، صحت اور مستقبل سے محروم کر کے بندوق تھما دی جاتی تھی۔ لیکن آج پہلی بار، ا±س خاموشی کو توڑا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ جب کوئی خاندان اپنے بیٹے کی لاش کو قبول کرتا ہے لیکن اس کے قاتلوں کو دفنانے کی اجازت نہیں دیتا، تو یہ صرف ایک انفرادی ردعمل نہیں ہوتا—یہ ایک عہد ہوتا ہے کہ اب مزید بچوں کو اس راہ پر نہیں جانے دیا جائے گا۔
PoK میں اب جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں، وہ صرف مزاحمت کی نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کی خواہش کی علامت ہیں۔ یہ عوامی بیداری بتاتی ہے کہ جب لوگ اپنے خوف پر قابو پا لیں تو تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
بچوں کو جب ان کے خاندان سے چھین کر بندوق تھما دی جاتی ہے، تو صرف ان کا جسمانی وجود ہی نہیں، ان کی معصومیت، ان کے خواب اور ان کا بچپن بھی چھن جاتا ہے۔ PoK میں ہونے والی اس غیر انسانی بھرتی کا ایک تاریک پہلو وہ نفسیاتی اثرات ہیں جو ان بچوں پر مرتے دم تک سایہ فگن رہتے ہیں۔
ایسے بچے جو واپس نہیں آتے، ان کے خاندان تاعمر ایک کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ماں باپ کو اپنی کوتاہی کا گ±مان ستاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کیسے نہ روک پائے؟ بہن بھائی خاموشی سے ان کی جگہ گھر کی دیواروں پر لٹکی تصاویر کو تکتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ بچ نکلے اور واپسی کا راستہ پائے، تو اس کی ذہنی حالت ایسی ہو سکتی ہے جو برسوں کی تھیراپی کے بغیر سنبھل نہیں سکتی۔ PTSD، ڈپریشن، اعتماد کی کمی اور معاشرتی علیحدگی ایسے بچوں کا مقدر بن جاتی ہے۔
یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، جن کی نظریں افریقا سے یورپ تک ہر ناانصافی پر مرکوز ہوتی ہیں، PoK میں اس منظم استحصال پر کیوں خاموش ہیں؟ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ،کیا ان سب کے لیے کشمیر صرف ا±س وقت اہم ہوتا ہے جب ریاستی جبر کی خبریں آئیں؟ جب غیر ریاستی عناصر بچوں کو موت کی آغوش میں دھکیلتے ہیں تو ا±ن کی آوازیں کیوں دب جاتی ہیں؟
ایسا لگتا ہے کہ عالمی ضمیر جغرافیائی سیاست کے تلے دفن ہو چکا ہے۔ لیکن سوال باقی ہے: کیا ایک ماں کے آنسو کسی سرحد کے محتاج ہوتے ہیں؟ کیا ایک بچے کی چیخ صرف اس لیے ناقابلِ سماعت ہے کہ وہ ایک متنازعہ علاقے میں ہے؟
کوئیاں میں جو کچھ ہوا، وہ ایک شروعات ہے—ایسی شروعات جس کی جھلک مستقبل کے ایک بہتر کشمیر کی پیش گوئی کرتی ہے۔ اگر جرگہ ایک اجتماعی فیصلہ کرتا ہے، اگر مقامی صحافت جاری رہتی ہے، اور اگر نوجوانوں کو متبادل راستے—تعلیم، ہنر، اظہار—فراہم کیے جاتے ہیں، تو وہ دن دور نہیں جب PoK کے بچوں کو صرف بندوق نہیں، کتابیں اور خواب بھی ملیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس بیداری سے پورے خطے میں ایک لہر چلے۔ دوسرے گاو¿ں، دوسرے اضلاع، اور دوسرے خاندان بھی سوال ا±ٹھائیں، آواز بلند کریں، اور دہشت گردی کو اپنے دروازے سے نکال باہر کریں۔
PoK میں دہشت گردی کے خلاف عوامی بیداری ایک تاریخی لمحہ ہے،ایک ایسا لمحہ جسے محض خبر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تحریک کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب خاموشی ٹوٹی، جب خوف کے پردے چاک ہوئے،
یہ تحریر ا±ن سب کے لیے ہے جو حق بولنے کی ج±رات رکھتے ہیں، اور ا±ن سب کے لیے بھی جو برسوں سے خاموش ہیںکہ شاید وہ بھی جاگ جائیں۔