قارئین 5اگست 2025کو جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ کا نفاذ2019کے بعد سے ہوا ہے ۔ دفعہ 370کی منسوخی ایک تاریخی تبدیلی تھی نہ صرف جموں کشمیر میں سیاسی لحاظ سے بلکہ تعمیر و ترقی کے لحاظ سے بھی یہ ایک سنگ میل کے طور پر مانا جاتا ہے ۔ تنظیم نو کے تحت جموں کشمیر کو بھارت کے ساتھ پوری طرح ضم کردیا گیا اور تمام سابقہ قوانین منسوخ کئے گئے جو 370کی وجہ سے ترقی کی راہ میں رُکاوٹ بنے ہوئے تھے ۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ دفعہ 370کا خاتمہ ایک تواریخی قدم تھا اور اس کے خاتمہ کے بعد نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس پر بحث و مباحثے کئے گئے اور اس عمل کو جموں کشمیر کی ترقی میں رُکاوٹ قراردیا گیا تھا تاہم وقت نے دکھایا کہ 5اگست 2019کے بعد جموں کشمیر میں تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہوا اور خطے کے لوگ ان تمام مراعات اور سکیموں کے حق دار ہوئے جو دیگر شہریوں کو حاصل تھیں۔ دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد نجی سرمایہ کاری کےلئے راہی ہموار ہوئی ، معاشی اور سماجی آزادی کی راہیں کھل گئیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب دفعہ 370کا خاتمہ کیا گیا تو ابتدائی دنوں میں معمولات زندگی متاثر رہی ، کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوئیں ، سیاحت، دستکاری ، باغبانی کے شعبہ جات میں جمود سا آگیا تھا کیوں کہ مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں حالات کو قابو میں رکھنے کےلئے کچھ عارضی پابندیاں لگائی تھیں جس کے نتیجے میں معمولات متاثر ہوئے تاہم دھیرے دھیرے حالات معمول پر آنے لگے اور اس کے دوسرے سال سے ہر شعبے میں ترقی اور تیزی دیکھی گئی ۔ سرمایہ کاری میں تیزی آئی، کارروبار نے رفتار پکڑ لی اور سیاحتی شعبے میں مانو جیسے نئی جان آگئی ۔ اس طرح سے وادی کشمیر میں تعلیمی شعبے ، طبی اور دیگر شعبہ جات میں نئی جہت آگئی ۔
جیسے کہ آپ کومعلوم ہی ہے کہ وادی کشمیر میں سیاحتی شعبہ معاشی لحاظ سے ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے اور 5اگست 2019میں تنظیم نو ایکٹ کے بعد اس کو ضرور دھچکا لگا تھا لیکن جوں جوں حالات معمول پر آتے گئے سیاحت کو بھی فروغ ملتا گیا جبکہ مرکزی سرکار نے سیاحتی شعبے کو ترقی دینے کےلئے کئی اقدامات اُٹھائے ۔ سال 2022اور سال 2023میں ملکی سیاحوں کی ریکارڈ تعداد آمد دیکھی گئی ۔ سیاحتی مقامات جن میں شہر آفاق گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ اور دیگر اہم مقامات ہے میں سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد کی آواجاہی دیکھی گئی جس سے ہوٹل ، رستوران ، گیسٹ ہاوس ، ٹرانسپورٹر اور ہینڈی کرافٹس سے وابستہ شعبہ جات میں ایک کافی ہلچل دیکھی گئی ۔ سیاحتی مقامات میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کےلئے خصوصی اقدامات اُٹھانے سے سیاحت کو بھی فروغ ملا ۔ روایتی سیر و تفریح کے علاوہ، سیاحت کی نئی شکلیں جیسے کہ سرمائی کھیل، ثقافتی تہوار، اور مہم جوئی کی سرگرمیوں نے روزگار اور کاروبار کے لیے متنوع مواقع پیدا کیے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں انفراسٹرکچر میں تیزی سے پیشرفت ہوئی ہے۔ سڑکیں اور سرنگیں اب دور دراز کے علاقوں کو اقتصادی مرکزوں سے جوڑتی ہیں، جبکہ بجلی کی فراہمی، پانی کے نظام اور انٹرنیٹ تک رسائی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ یہ اپ گریڈ نہ صرف رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ مقامی کاروبار کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔اتناہی نہیں بلکہ دیگر ترقیاتی منصوبوں میں اہم منصوبہ سرینگر اودھمپور بارہمولہ ریلوے لائن کے رابطے کو بڑھایا گیا ۔ بارہمولہ ،سرینگر، اودھمپور ریلے پروجیکٹ ایک ادھورا خواب تھا جس کو بالآخر پورا کیا گیا اس پروجیکٹوں سے نہ صرف لوگوں کو مقامی سطح پر آواجاہی میں آسانی ہوئی بلکہ تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملا ہے ۔
اسی طرح اگر ہم وادی کشمیر میں زرعی شعبے کی بات کریں تو دفعہ 370 کی منسوخی بعد اس شعبے نے بھی قابل بیاں ترقی دیکھی ہے ۔ سیب ، اخروٹ ، زعفران جیسی اہم پیداوار میں اضافہ کےلئے جدید تکنیک کی طرف توجہ دی گئی جبکہ کاشتکاروں اور تاجروں کےلئے منڈیوں تک آسان رسائی کےلئے بھی اقدامات اُٹھائے گئے۔ کولڈ سٹوریج اور پیکنگ کے جدید تکنیک کو رائج کیا گیا اس سے نہ صرف کاشتکاروں کو فائدہ ملا بلکہ اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد کو بھی معاشی فائدہ پہنچا ہے ۔ جہاں تک جی آئی ٹیگنگ کی بات ہے تو زعفران کو جی آئی ٹیگنگ کے زمرے میں لایا گیا جبکہ راجوری کی راجماش کو بھی جی آئی ٹیگ ملا ، اس کے علاوہ کئی سبزیوں کو بھی اس زمرے میں لایا گیا ۔اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیدوار کو بڑھانے کےلئے کاشتکاروں کو جدید طریقہ سے متعلق تربیت فراہم کی گئی ،میوہ جات کی پیداوار کو بڑھانے کےلئے روایتی طریقے چھوڑ کر جدید طریقے تلاش کئے گئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ”ہائی برڈ “اور ہائی ڈنسٹی کاشتکاری سے کسانوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا جو ان کی آمدنی کو بھی بڑھاتا ہے۔ قارئین 2019 کے بعد سب سے زیادہ امید افزا پیش رفت نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی آمد ہے۔ سٹارٹ اپس کو فروغ دینے والے اقدامات، ہموار اجازتوں، اور ٹارگٹڈ مراعات نے فوڈ پروسیسنگ اور آئی ٹی خدمات سے لے کر قابل تجدید توانائی اور ٹیکسٹائل تک نئی صنعتوں کو جوڑ دیا ہے۔ ان سرمایہ کاری سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں بلکہ نوجوانوں میں ہنر کی ترقی میں بھی مدد ملی ہے۔ تربیتی مراکز اور روزی روٹی کے پروگرام، خاص طور پر خواتین اور پہلی بار کام کرنے والوں کے لیے، خطے کے انسانی سرمائے میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم دستکاری کے شعبے میں ترقی پر بات کریں تو 2019کے بعد دستکاری کے شعبے میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ۔ کشمیری دستکاریوں جن میں پشمینہ ، پیپر ماشی ، کنندہ کاری، لکڑی پر نقش نگاری اور قالین بافی ، شال بافی ، نمدہ سازی میں کافی بہتری آئی ہے ۔ دستکاروں کو جدید سہولیات فراہم کی جارہی ہے اس کے ساتھ ساتھ سرکار نے دستکاری کے فروغ کےلئے نمائشوں کا بھی اہتمام کیا ۔ پشمینہ، کندہ کاری اور دیگر کشمیری دستکاریوں کو جی آئی ٹیگنگ کے زمرے میں لایا گیا ۔ ہنر مندوں کی تربیت اور انہیں برانڈنگ، پیکیجنگ اور آن لائن کاروبار کے بارے میں جانکاری فراہم کی جاتی ہے جس سے دستکاری کے شعبے کو کافی فروغ ملا ہے ۔ خاص طو رپر اگر ہم آن لائن پلیٹ فارموں کی بات کریں تو سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے کشمیری دستکاریوں کو عالمی پہنچان ملی ہے اور اشیاءکی مانگ بھی بڑھ رہی ہے ۔ آج کل نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے کشمیری دستکاریوںکو عالمی خریداروں تک پہنچاتے ہیں۔
قارئین اسی طرح تعلیمی شعبے میں بھی دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد کافی بہتری آئی ہے۔نئے کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ دور دراز کے علاقوں میں نئے تعلیمی ادارے کھولے گئے ۔ طلبہ کےلئے سکالر شپ فراہم کی جارہی ہے ۔ نوجوانوں کو ہنرمندی ، جدید زرعی ٹیکنالوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، مہمان نوازی کے شعبے میں کیئریر بنانے کےلئے تربیت فراہم کی جارہی ہے ۔
غرض سال 2019کے بعد جموں کشمیرکے ہر شعبے میں نمایاں تبددیلی دیکھی جارہی ہے ۔سرکاری اداروں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کےلئے آن لائن خدمات کی طرف توجہ دی گئی ۔ تنظیم نو کے بعد جموں کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں ہر شعبہ میں بدلاﺅ آیا ہے اور لوگ محسوس کررہے ہیںکہ کچھ بدلاﺅ آیا ہے ۔