• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Saturday, September 13, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Editorial & Opinion

پانچ برس بعد: خوف سے امید تک، کشمیری عوام کا نیا سفر

Arshid Rasool by Arshid Rasool
August 15, 2025
in Editorial & Opinion
A A
 Pakistani delegation arrives in Jammu to discuss Indus Water Treaty
FacebookTwitterWhatsapp

 

چنار کے سائے اور ہمالیہ کے وسیع آسمان تلے وادی کشمیر نے ہمیشہ وہ بوجھ اٹھائے ہیں جو برف سے ڈھکی چوٹیوں کے وزن سے کہیں زیادہ بھاری تھے۔ یہ بوجھ صرف سیاسی یا جغرافیائی نہ تھے بلکہ جذباتی، تاریخی اور نسلوں سے جڑے ہوئے تھے۔ دہائیوں تک عام کشمیری ان فیصلوں کا بوجھ سہتا رہا جو دور دراز ایوانوں میں طاقتور سیاسی و نظریاتی حلقوں میں لیے جاتے تھے۔ مگر پانچ برس پہلے ایک آئینی فیصلے نے اس خطے کے سیاسی اور نفسیاتی نقشے میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دی۔ آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی محض قانونی کارروائی نہیں بلکہ ذہنی اور سماجی تناظر میں ایک بڑی تبدیلی تھی۔آج، پانچ سال بعد سوال یہ نہیں کہ کشمیر میں کیا بدلا؟ اصل سوال یہ ہے کہ اس نئی صورتِ حال میں ایک عام کشمیری خود کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے؟قارئین سالہا سال تک یہ کہا جاتا رہا کہ آرٹیکل 370 کشمیریوں کی شناخت اور خودمختاری کا تحفظ ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ شق ایک ایسی دیوار بن گئی تھی جو عوام اور حکمران اشرافیہ کے درمیان کھڑی تھی۔ ایک ایسا ڈھانچہ، جس میں مراعات یافتہ طبقہ زمین، نوکریوں، سیاسی مواقع اور بیانیہ پر اجارہ داری قائم رکھتا، جبکہ عام لوگ محض تماشائی رہتے۔ سیاسی تحریکیں علامتی نعرے بازی تک محدود تھیں، ہڑتالیں روزمرہ کا معمول بن چکی تھیں، اور خواب دیکھنے کا حق چھن گیا تھا۔

قارئین 2019 کے بعد یہ اجارہ داری آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگی۔ قومی قوانین، معاشی پالیسیوں اور آئینی مساوات کے نفاذ نے سیاست اور طرزِ حکمرانی کی ایک نئی لغت متعارف کرائی۔ پہلی بار پنچایتی راج کا ڈھانچہ مکمل طور پر نافذ ہوا اور 33 ہزار سے زائد پنچایت نمائندے منتخب ہوئے، جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ماضی میں اس عمل سے باہر رکھے جاتے تھے۔ طاقت کی یہ تقسیم مقامی سطح تک پہنچی۔ سیاست اب صرف خاندانی وراثت نہیں بلکہ ہر شخص کے لیے ایک ممکنہ راستہ بننے لگی۔ایک زمانہ تھا جب خوف کشمیر کی فضا میں آزاد کرنسی کی طرح گردش کرتا تھا۔ کل کیا ہوگا، کرفیو لگے گا یا نہیں، چھاپا پڑے گا یا نہیں،یہ سب روزمرہ کی سوچ کا حصہ تھا۔ کچھ کہنا، کہیں جانا، کسی سے سوال کرنا،سب ایک نہ ایک حد کے اندر قید تھا۔ لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں، اگرچہ وادی اب بھی کبھی کبھار پرتشدد واقعات اور سخت حفاظتی نگرانی کا سامنا کرتی ہے، مگر مجموعی طور پر اس خوف کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے۔پتھراو¿ کے واقعات، جو کبھی روز کا معمول تھے، 90 فیصد سے زیادہ کم ہو گئے ہیں۔ عسکریت میں نوجوانوں کی شمولیت میں نمایاں کمی آئی ہے، اور سینکڑوں نوجوان جو ماضی میں انتہاپسندی کے جال میں پھنس سکتے تھے، آج کھیل، تعلیم اور کاروبار کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ اسکولوں کا تعلیمی کیلنڈر معمول پر آ گیا ہے، سیاحت کا موسم اچانک ہڑتالوں سے نہیں رکتا، اور وادی جو کبھی بندشوں سے مفلوج ہو جاتی تھی، 2023 میں دو کروڑ سے زائد سیاحوں کی ریکارڈ آمد دیکھ چکی ہے۔

قارئین کو بتادیں کہ یہ معمول پر آنا باہر سے مسلط نہیں ہوا بلکہ اندر سے قبول کیا جا رہا ہے۔ پہلے ایک کشمیری سے اکثر پوچھا جاتا تھا،تم ان کے ساتھ ہو یا ہمارے ساتھ؟ سیاست شناخت کے دو انتہاو¿ں میں قید تھی۔ قومی پرچم کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا، اور اختلاف کو مزاحمت کا درجہ مل جاتا۔ مگر خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ تقسیم ٹوٹنے لگی ہے۔ اب یہ سوچ بڑھ رہی ہے کہ کوئی شخص بیک وقت کشمیری بھی ہو سکتا ہے اور بھارتی بھی، اور اس پر شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ وادی کشمیر کے ہر ضلع میں لوگ ہاتھوں میں ترنگا لئے جشن منارہا ہے ۔ آج کسی کا دباﺅ نہیں کوئی زور زبردستی نہیں ۔ آئینی انضمام نے ثقافت کو ختم کرنے کے بجائے اس کے تحفظ کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ کشمیری زبان کی ترویج، ثقافتی میلوں، مقامی فلموں اور آرٹ نمائشوں کو سرکاری سرپرستی مل رہی ہے۔ کشمیری تہذیب اب علیحدگی کے ایک سیاسی استعارے کے بجائے بھارتی تنوع کا ایک خوش رنگ حصہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔معاشی میدان میں بھی تبدیلی کے اشارے ہیں۔ ماضی میں آرٹیکل 35A کی پابندیوں نے بیرونی سرمایہ کاری کو محدود رکھا۔ اب 80 ہزار کروڑ روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی تجاویز سامنے آ چکی ہیں، صنعتی اسٹیٹس، سیاحت کے منصوبے، آئی ٹی پارکس اور زرعی پراسیسنگ یونٹس قائم ہو رہے ہیں۔ نوکریوں کے مواقع سرکاری دائرے سے نکل کر نجی شعبے تک پھیلنے لگے ہیں۔ اگرچہ بیروزگاری اب بھی 15 سے 17 فیصد ہے، خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں، مگر اب اس کمی کی امید پالیسی، سرمایہ کاری اور استحکام سے جڑ رہی ہے، نہ کہ محض وعدوں سے۔

پانی کی فراہمی سے لے کر سرحدی دیہات میں سڑکوں تک، نئے AIIMS اسپتالوں سے لے کر وندے بھارت ٹرین تک، تبدیلی کے آثار زمین پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ماضی میں ترقیاتی منصوبے یا تو برسوں التوا میں پڑے رہتے یا صرف افتتاحی فیتہ کاٹنے تک محدود تھے۔ اب ان پر عملدرآمد کی رفتار بڑھی ہے۔ 100 فیصد بجلی کی فراہمی، بہتر موبائل کنیکٹیویٹی اور براہِ راست مالی امداد کے نظام نے عوامی خدمات میں شفافیت لائی ہے۔ لوگ اب ان عملوں میں شریک ہیں،عوامی سماعتوں میں شرکت، آر ٹی آئی فائل کرنا، مقامی انتخابات میں حصہ لینا،یہ سب وہ طرزِ حکمرانی ہے جو دہائیوں تک غیر موجود تھی۔لیکن سب سے بڑی تبدیلی کاغذ پر نہیں بلکہ ذہنوں میں آئی ہے۔ کشمیری نوجوان اب صرف ایک مسئلے کی علامت نہیں بننا چاہتے، بلکہ ترقی کے شریک بننا چاہتے ہیں۔ وہ سول سروسز کے امیدوار، اسٹارٹ اپ بانی، قومی سطح کے کھلاڑی بن رہے ہیں۔ وہ ماضی کا دکھ رکھتے ہیں، مگر اس کے قیدی نہیں رہے۔

قارئین وادی کشمیر میں اتنی بڑی تبدیلی آنے کے باوجود بھی چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ ریاستی درجہ کی بحالی، شفاف انتخابات، انسانی حقوق کا تحفظ اور بیوروکریسی یا فوجی رویوں میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح کشمیری عوام کو بھی اپنی بیانیہ خود قائم رکھنا ہوگا، تاکہ کوئی اندرونی یا بیرونی طاقت امن کی بحالی کو پٹری سے نہ اتار سکے۔کشمیری عوام کو احساس تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے اور ان کے اندر جمہوریت کے تحت جمہوری آزادی کی امید بھی جگانا ضروری ہے ۔ انہیں احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تم ہمارے اپنے ہو۔ یہ ملک تمارا ہے اور وسائل تمہارے ہیں ۔ پانچ برس تاریخ میں طویل عرصہ نہیں، لیکن کشمیر جیسے خطے کے لیے یہ کافی ہے کہ ایک نیا رجحان محسوس کیا جا سکے۔ ایک ایسا فیصلہ جس سے تنہائی کا اندیشہ تھا، شمولیت کا ذریعہ بن گیا۔ ایک آئینی قدم جس پر ثقافتی مٹاو¿ کا الزام لگا، اس نے ثقافت کے اظہار کو نئی زندگی دی۔ اور ایک ایسا خطہ جو خوف میں جکڑا ہوا تھا، اب دھیرے دھیرے اس آزادی کو محسوس کر رہا ہے جو نعروں میں نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں جھلکتی ہے۔کشمیری ہمیشہ مضبوط رہے ہیں، مگر انہیں ضرورت تھی برابری کے مواقع کی، شراکت داری کی، سنجیدہ حکمرانی کی۔ آج جب سورج پیر پنجال کے پیچھے ڈوبتا ہے اور ہر گھر میں روشنی جلتی ہے، تو ایک خاموش احساس وادی میں پھیل رہا ہے،ہم اب امن کے منتظر نہیںہم اسے اپنے ہاتھوں سے بنا رہے ہیں، ایک ایک سچے قدم کے ساتھ، کشمیر میں ایک نئی صبح کا آغاز ہوچکا ہے اور اس نئی صبح کے ساتھ لوگوں نے نئے نئے خواب سجارکھے ہیں جن کو پورا کرنے اب وقت حکمران کی ذمہ داری ہے ۔ 

 

Previous Post

بلوچستان: وسائل کی جنت، جبر کا صحرا

Next Post

We Brought One Country, One Constitution to Life by Demolishing the Wall of Article 370: PM Modi on I-Day

Next Post
We Brought One Country, One Constitution to Life by Demolishing the Wall of Article 370: PM Modi on I-Day

We Brought One Country, One Constitution to Life by Demolishing the Wall of Article 370: PM Modi on I-Day

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.