• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Saturday, September 13, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Editorial & Opinion

ماحولیاتی آلودگی کشمیر کی خوبصورتی پر اثر انداز 

ازقلم :ارشد رسول by ازقلم :ارشد رسول
August 23, 2025
in Editorial & Opinion
A A
کشمیر کے جنگلی حیات کے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرنے  کےلئے اقدامات کی ضرورت
FacebookTwitterWhatsapp

 

 

صدیوں تک کشمیر کو فطرت کا شاہکار سمجھا جاتا رہا۔برف پوش پہاڑ، شفاف دریا اور ایسی نرم گرمیاں جو شاعری کی طرح دل میں اترتی تھیں۔ ہوا میں سیب کے باغات کی خوشبو بسی رہتی، ندیوں میں برفانی پانیوں کی ٹھنڈک گونجتی اور سورج نرم مزاجی سے چمکتا۔ مگر حالیہ برسوں میں وادی پر ایک غیر مانوس اور سخت گرمی اترنے لگی ہے۔ جو بات کبھی تصور سے باہر تھی، وہ اب حقیقت بنتی جارہی ہے اور گرمیوں کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زندگی اور فطرت کے توازن کو ہلا دیا ہے۔

قارئین کو بتادیں کہ کشمیر کی موسمی لغت میں ”ہیٹ ویو“ کبھی شامل نہ تھی۔ یہاں کی گرمیاں معتدل اور روح افزا ہوا کرتی تھیں، درجہ حرارت شاذ ہی 28 ڈگری سیلسیس سے اوپر جاتا۔ آج پارہ اکثر 33 تا 35 ڈگری تک پہنچتا ہے،ایسے ہندسے شاید میدانوں کے لوگوں کے لیے معمول ہوں، مگر کشمیر کے ٹھنڈے مزاج موسم کے لیے یہ شدید تبدیلی ہے۔ یہ فرق صرف اعداد میں نہیں، کیفیت میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ دوپہر کے وقت سرینگر کی سڑکوں پر چلیں تو ڈل جھیل کی سطح دھوپ میں چبھتی ہوئی چمکے، چنار کے پتے موسم سے پہلے ہی لٹک جائیں، اور برفانی چشمے جو کبھی رقصاں رہتے تھے، اب تھکن زدہ دھار بن کر سست پڑ جائیں۔ یہ رخنہ اس لطیف چکر کو توڑتا ہے جس میں سردیوں کی برف دریاﺅں کو جِلا دیتی تھی، بہار کی پگھلتی برف کھیتوں اور باغات کو سیراب کرتی تھی اور گرمیاں فصلوں کو پروان چڑھاتی تھیں۔ حد سے بڑھی ہوئی گرمی گلیشیئرز کو تیزی سے پیچھے دھکیلتی، دریاﺅں کے بہاﺅ کو بدلتی اور کمزور پڑتے ماحولیاتی نظام پر مزید دباو¿ ڈالتی ہے۔

انسانی زندگی پر اس کے اثرات اتنے ہی نمایاں ہیں۔ کشمیر کے گھر سخت سردی سے بچانے کے لیے بنے ہیں،جب گرمی غیر معمولی ہو تو یہی گھر گھٹن اور حبس کو قید کر لیتے ہیں اور لوگ راحت کی تلاش میں بے بس نظر آتے ہیں۔ معیشت کی رگِ جاں،زرعی شعبہ،دباو¿ میں ہے۔ زعفران کی کیاریاں، سیب کے باغ اور چیری کے درخت طویل گرمی میں نڈھال ہو جاتے ہیں۔ بزرگ، بچے اور کمزور صحت والے افراد سب سے پہلے زد میں آتے ہیں۔ اسپتالوں میں پانی کی کمی، جلدی امراض اور تھکن سے متعلق کیسز خاموشی سے بڑھ رہے ہیں۔ سیاحت بھی متاثر ہے۔ کیوں کہ بیرون وادی کے سیاح کشمیر اس لئے آتے ہیں تاکہ یہاں کے متعدل آب و ہوا سے لطف اندوز ہوں اور باہر کے شہروں میں پڑنے والی گرمی سے کچھ راحت ملے ۔ تاہم ٹھنڈی ہوا اور نرم دھوپ کی امید لیے آنے والے سیاح پردے گرا کر کمروں میں دبکے بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی محض خلل نہیں بلکہ ایک ایسے خطے کے لیے سماجی و معاشی چیلنج ہے جس کی بقا زراعت اور سیاحت دونوں پر قائم ہے۔ماہرین اس نئی حقیقت کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے، جنگلات کی کٹائی اور بے ہنگم شہری توسیع سے جوڑتے ہیں۔ گلیشیئر ہر سال سکڑ رہے ہیں۔ برف باری، جو کبھی بھاری اور قابلِ اندازہ ہوا کرتی تھی، اب ہلکی اور غیر پیش گو ہو گئی ہے۔ بارشیں بھی مانوس ترتیب کی پابند نہیں رہیں۔ کسانوں کے لیے یہ موسم بھی باعث پریشانی بن رہا ہے ۔ سیب وقت سے پہلے پک کر مٹھاس کھو دیتے ہیں، اخروٹ یکساں طور پر سخت نہیں بنتے اور زعفران کے پھول مکمل کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ پانی جو کبھی فراواں تھا اب غیر یقینی ہو چکا ہے—تیز برف پگھلاو اچانک سیلاب لاتا ہے اور کچھ ہی عرصے میں زمین پیاسی رہ جاتی ہے۔ یہ اتار چڑھاو¿ کسانوں کو مستقل بے چینی

 میں مبتلا رکھتا ہے۔ ایک طرف سیلاب کا خوف، دوسری طرف خشکی کا اندیشہ دونوں روزی پر وار ہیں۔قارئین شجر کاری، آبی گزیروں اور ویٹ لینڈز کی بحالی، اور موسمیاتی حساسیت کے ساتھ شہری منصوبہ بندی اب اختیار نہیں بلکہ ضرورت ہیں۔ درخت اور آبی گزرگاہیں زمین کو ٹھنڈا رکھتی اور پانی کے بہاو کو منظم کرتی ہیں۔ ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ زراعت کو بھی ڈھلنا ہوگا،گرمی برداشت کرنے والی اقسام، جدید آبپاشی کے طریقے اور بروقت انتباہی نظام جو کسانوں کو شدید حالات سے پہلے تیار کر سکیں۔ عوامی آگاہی بھی اہم ہے تاکہ لوگ بڑھتی ہوئی گرمی میں خود کو محفوظ رکھنے کے طریقے جانیں۔ مگر یہ سب اقدامات علامتی علائم کا علاج ہیں۔ اصل مسئلے کی جڑ تبھی کٹ سکتی ہے جب ہم اجتماعی طور پر کاربن کے اخراج میں کمی لائیں اور عالمی حدت کی رفتار سست کریں۔قارئین کشمیر کا منفرد موسم صرف اہلِ وادی کی میراث نہیں، پوری دنیا کا اثاثہ ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے مقامی ذمہ داری اور عالمی عزم دونوں درکار ہیں۔ کشمیر کی نرم گرمیاں اگر سخت تپش میں بدلتی رہیں تو یہ محض موسم کی تبدیلی نہیں، حسن، روایت اور توازن کے کم ہوتے ہوئے رنگ ہیں۔ چنار کے درخت، برفانی ندیاں اور پھلوں سے لدے باغ علامتیں نہیں، وادی کی زندگی کی اساس ہیں۔ بڑھتی گرمی کوئی عارضی تکلیف نہیں بلکہ وارننگ ہے—اگر نظر انداز ہوئی تو چند دہائیوں میں صدیوں کا ہم آہنگ رشتہ ٹوٹ سکتا ہے۔عمل کا وقت مستقبل میں نہیں، آج ہے—اس سے پہلے کہ دریا سکڑ جائیں، باغ اپنی بہار کھو دیں اور کشمیر کی روح—اس کی ٹھنڈی سانس، سبز دل اور برف تاج عزت—محض یاد بن کر رہ جائے۔ سوال یہ نہیں کہ خطرہ ہے یا نہیں؛ سوال یہ ہے کہ ہم اس کے مقابلے میں تامل کرتے ہیں یا اتنی ہی عاجلانہ سنجیدگی دکھاتے ہیں جتنی یہ وقت ہم سے مانگ رہا ہے۔

 

Previous Post

پاکستانی افواج اور بلوچستان میں مظالم 

Next Post

Mohammad Amin Shah meets BJP General Secretary (Org) Ashok Kaul*

Next Post
Mohammad Amin Shah meets BJP General Secretary (Org) Ashok Kaul*

Mohammad Amin Shah meets BJP General Secretary (Org) Ashok Kaul*

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.