قارئین بغداد میںسال 2003کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پر کی گئی بمباری میں عراق میں کام کرنے والے 22امدادی کارکنوں کی موت واقع ہوئی تھی جس کے بعد یہ ہر سال اس دن کو عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کے تحت منایا جارہا ہے ۔ دنیا بھر میں مختلف ایسے ادارے کام کررہے ہیں جو صرف انسانی حقوق کے لئے کام کرتے ہیںخاص کر شورش زدہ یا جنگ زدہ علاقوں میں ایسے ادارے انسانوں کی مدد کےلئے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ قارئین جموں کشمیر بھی شورش زدہ علاقہ رہا ہے اور بیش بہا قدرتی خوبصورتی کے باوجود اس خطے نے پاکستان کی جانب سے چلائے جارہے پروکسی وار کی وجہ سے طویل عرصے تک نامساعد حالات کا مشاہدہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں یہاں پر عام لوگوں کو کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ چھوٹے تاجر، مزدور طبقہ ، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے افراد اور دیگر کام گاروں کو شدید بحران کا سامنا رہا ۔ ان حالات کے سبب جہاں ایسے لوگوں کو اشیائے خوردنی ، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت کا سامنا تھا وہیں مختلف نجی اداروں، این جی اور اور دیگر انجمنوں نے انسانی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے کنبوں کو کھانے پینے کی اشیاء، ادویات، اور دیگر ضروریات کی چیزیں فراہم کی جاتی رہیں۔
قارہین کو بتادیں کہ کشمیر میں اس طرح کے حالات کی شروعات دراصل ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی ہوئے تھے جب 1947میں پاکستانی قبائلیوں نے کشمیر پر قبضہ کرنے کی غرض سے حملہ کیا تھا ۔ کشمیر پر قبضہ کرنے کی یہ کوشش اگرچہ ناکام بنائی گئی لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان نے وقت وقت پر ایسی کارروائیاں جاری رکھیں جس کی وجہ سے وادی کشمیر میں حالات بگڑ جاتے تھے اور بالآخر اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کےلئے 1980کی دہائی میں پاکستان نے وادی کشمیر میں خون و آہنگ کا کھیل جاری رکھنے کےلئے کچھ مسلح گروپوں کی تشکیل دی اور انہیں ہتھیاروں کی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رقومات بھی فراہم کی ۔ اس طرح سے 90کی دہائی کے آغاز میں ہی وادی کشمیر میں ہندوستان کے خلاف منفی پروپگنڈا چلاتے ہوئے معصوم اور لاعلم نوجوانوں کو اپنے ہی ملک کے خلاف لڑنے کےلئے تیار کیا گیا جس کے نتیجے میں وادی کشمیر میں مار دھاڑ، قتل و غارت اور خراب حالات کا دور شروع ہوا جو یہاں پر بے شمار افراد کی ہلاکت کا باعث بنا جسمیں بچے یتیم، خواتین بیوائیں ہوئیں ۔ پاکستان کی جانب سے پھیلائی دہشت گردی کے جال نے قیمتی جانیں ضائع کیں جبکہ ہاتھوں میں بندوق لئے نوجوانوں کی جانب سے کبھی مخبری ، کبھی غداری اور کبھی کسی نا م پر معصوم اور بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا ۔ لیکن ایسے نوجوانوں کی پہلے اس طرح سے ”برین واش “ کیا جاتا رہا کہ انہیں نام نہاد جہاد کے نام کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور اس طرح سے یہ نوجوان نہ صرف اپنے مستقبل کو مخدوش بناتے رہے بلکہ ان کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں گھر بھی اُجڑتے گئے۔اس طرح کی کارروائیوں کا شکار سماج کا ہر طبقہ ہوا چاہئے وہ مزدور ہو، ملازم ہو، دکاندار ہو، تاجر ہو یا اور کسی طبقے سے وابستہ فرد ہو وہ نشانہ بنایا گیا ۔ ا س طرح پاکستان کی جانب سے چلائے جارہے درپردہ جنگ نے یہاں پر بیواﺅں اور یتیموں کی ایک بڑی تعداد پیدا کی جو سماج کےلئے ایک لمحہ فکریہ بن گیا ۔
قارئین کو بتادیں کہ یومیہ اُجرت کمانے والے مزدور، چھوٹے تاجر جو روزانہ 300سے پانچ سو روپے کماتے تھے اور اپنے کنبوں کا پیٹ پالتے تھے ان حالات کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ کبھی ہڑتال تو کبھی بندشیں ، کبھی کرفیو تو کبھی کچھ اس طرح سے ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں یہاں پر زندگی کے معمولات متاثر رہتے تھے ۔ جبکہ حریت کانفرنس کی جانب سے بار بار ہڑتالی کالوں نے یہاں پر نظام زندگی ہی درہم برہم کرکے رکھا تھا ۔ بار بار ہڑتالوں کی وجہ سے چھاپڑی فروش، ٹرانسپورٹر، چھوٹے تاجر، ریڈے بان اور دیگر کمزور طبقہ کی روزی روٹی متاثر ہوئی ۔ جبکہ سیاحت ، تعلیمی شعبے کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ بھی سخت متاثر رہا ۔ قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ سال 2008میں عوامی ایجٹیشن سے ابھی کشمیر سنھل ہی رہا تھا کہ سال 2010میں ایک بار پھر حالات نے کروٹ بدلی جبکہ چند برسوں کی خاموشی اور امن کے بعد ایک بار پھر 2016میں حالات خراب ہوئے جس کے نتیجے میں کئی بے گناہ نوجوان ہلاک بھی ہوئے ۔ سال 2008میں احتجاجی لہر کے ساتھ ساتھ ہفتوں کیا مہینوں تک ہڑتال رہی، کرفیو اور بندشیں رہیں جس کے نتیجے میں یہاں پر کاروبار اور سیاحت کو نقصان پہنچا ۔ اس طرح ہڑتالوں، کرفیو اور بندشوں نے معمولات زندگی درہم برہم کی ۔ غریبوں اور یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کےلئے یہ معاملہ روزی روٹی کا مسئلہ تھا اور ان کے کنبوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا رہا ۔
جب لمبی مدت تک حالات خراب رہیں تو یقینی طور پر غریب کنبوں کےلئے دو قت کی روٹی کمانا بھی محال بن جاتا ہے تاہم اس طرح کے حالات میں بھی سماجی خدمات انجام دینے والے اداروں اور کارکنوںنے ایسے کنبوں کی دیکھ بھال کی اور انہیں وقت وقت پر کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور دیگر چیزیں فراہم کرتے رہے ۔ مختلف این جی اوز اور دیگر فلاحی اداروں خاص کر جے اینڈ کے یتیم ٹرسٹ نے ہزاروں کنبوں کو مفت راشن کے کیٹ فراہم کئے ۔ دال چاول، تیل اور سبزیاں فراہم کرتے رہے ۔ ان فلاحی اداروں سے وابستہ رضاکاروں نے حالات کی مخدوشی کو خاطر میں لاتے ہوئے ضرورت مندوں تک پہنچ کر انہیں ضروریات زندگی کا سامان فراہم کیا ۔
اسی طرح اگر ہم سال 2010میں خونین حالات کا ذکر کریں تو اس سال حالات اور بھی زیادہ پُر تناﺅ رہے جس میں سخت گیر ہڑتالیں، پتھراﺅ، احتجاجی مظاہرے اور سخت کرفیو کا سامنا لوگوں کو کرنا پڑا تھا جبکہ اس سال بھی درجنوں نوجوانوں کی موت واقع ہوئی تھی ۔ سڑکوں کی بندش کے نتیجے میں میوہ جات جو منڈیوں تک پہنچانے کےلئے تیار تھا باغات میں بھی سڑ گیا کیونکہ سڑکوں پر آمدورفت بند تھی اور گاڑیوں کے ذریعے مال ایک سے دوسری جگہ پہنچانا محال تھا ۔ دوسری جانب سیاحت بھی ختم ہوگئی تھی شکارے والے ، ہاوس بوٹ مالکان ، ہوٹل اور رستوران میں کام کرنے والے بے روزگا ر بن گئے تھے ۔ مزدور ، ٹرانسپورٹر اور دیگر یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے افراد بھی روزی روٹی سے محروم ہوئے تاہم اس سال بھی کئی فلاحی ادارے سامنے آئے جن میں ہیلپ فاونڈیشن ، چنار کشمیر اور دیگر اداروں نے لوگوں تک ضروریات زندگی کاسامان پہنچانے میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ضاکاروں نے، اپنی حفاظت کو خطرے میں ڈال کر، کرفیو کے پابند علاقوں میں پیدل امداد لے کر، مایوسی کے وقت نہ صرف راحت بلکہ امید کی ایک چنگاری پیش کی۔ ان کا مقصد تھا کہ اس طرح کے حالات میں لوگ کھانے پینے کی اشیاءکےلئے ترس نہ جائیں ۔ بچوں کو بھوکے نہیں رہنے دیں گے اور ضرورت مندوں کی امداد جاری رکھی جانی چاہئے ۔ قارئین یہ سلسلہ یہی بند نہیں ہوا بلکہ کچھ برسوں تک اگرچہ وادی کشمیر میں حالات پُرامن رہے اور لوگ معمولات زندگی میں مشغول تھے کہ سال 2016میں وادی کشمیر میں کافی عرصے سے سرگرم ایک عسکری کمانڈر کی ہلاکت نے ایک بار پھر وادی میں حالات کو بگاڑ دیا ۔ پُر تشدد احتجاجی مظاہروں، طویل ہڑتال اور سخت بندشوں نے ایک بار پر معمولات زندگی کو بکھیر کے رکھ دیا ۔ ہر ایک طبقہ چاہئے وہ سیاحت ہو، زراعت ہو، یا تجارت ہو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ پاکستان کی ایما پر حریت کانفرنس اور دیگر اعلیحدگی پسند جماعتوں کی جانب سے ہڑتال کے کلینڈر جاری کئے جاتے تو دوسری طرف انتظامیہ کی جانب سے بندشیں لگائی جاتی تھیں اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جار ی رہا ۔ اس سال بھی سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان ہلاک ہوئے ۔ سینکڑوں نوجوان اپاہج ہوئے خاص کر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے اور سینکڑوں کنبوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی ۔ اس دور میں اگر کسی کو زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا تھا تو وہ کمزور اور مزدور طبقہ تھا ۔ ان حالات میں بھی فلاحی اداروں ، رضاکاروں اور این جی اوز نے غریب کنبوں میں کھانے پینے کی اشیاء، ضروریات زندگی کی چیزیں ، ادویات اور دیگر چیزیں فراہم کی تاکہ کوئی مجبور پریشانی کا شکا رنہ ہو۔ اس طرح سے ان انسانی حقوق کے رضاکاروں جو محض انسانیت کےلئے کام کرتے ہیں نے عام لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا ۔ قارئین اگرچہ ان برسوں میں کشمیری سماج میں غریب طبقہ کو کافی پریشانیوں کا سامنا رہا اور کھانے پینے کی اشیاءکی قلت نے پریشان کیا تھا تاہم ان رضاکاروں نے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر مجبور لوگوں تک امدادی سامان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔
قارئین کو بتادیں کہ ان مخدوش حالات میں ہی انسانی حقوق کے کارکنوںنے لوگوں کی امداد اور مدد کو جاری نہیں رکھا بلکہ موجودہ دور میں بھی ان کے کام کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ رضاکار اور فلاحی کاموں پر مامور اس وقت منشیات کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ پاکستان کی جانب سے وادی کشمیرمیں منشیات کی وباءکو پھیلایا جارہا ہے تاکہ دہشت گردی کو جاری رکھنے کےلئے عسکریت پسندوں کو مالی مدد جاری رہے البتہ منشیات سے متاثرہ نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنے کےلئے کام کرتے ہیں اور متاثرین کو منشیات کی لت سے نجات دلانے کےلئے انہیں ادویات فراہم کرتے ہیں اور ان کا علاج کرنے کےلئے انہیں مدد فراہم کرتے ہیں۔
فلاحی انجموں ، انداروں اور انسای حقوق کےلئے کام کرنے والے اداروں نے نہ صرف نامساعد حالات کے دوران وادی کشمیر میں انسانی ہمدردی کے کام انجام دیئے ہیں بلکہ ناگہانی آفات کے دوران بھی امدادی کام انجام دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔ سال 2005میں آئے تباہ کن زلزلہ کے بعد ان رضاکار انجمنو ں کی جانب سے متاثرین کی امداد کی جبکہ سال 2014میں آئے تباہ کن سیلاب کے دوران بھی ان این جی اوزاور فلاحی اداروں کی جانب سے امدادی کارروائیاں جاری رہیں ۔ رضاکاروں نے مختلف جگہوں پر لنگر لگائے اور لوگوں کو مفت کھانا فراہم کرتے رہے جبکہ لوگوں کو دال، چاول، تیل، کمبل اور دیگر ضروریات زندگی کا سامنا بھی فراہم کرتے تھے ۔ ضرورت مند مریضوں کو ادویات بھی فراہم کرتے رہے اور دیگر سامان بھی پہنچاتے رہے ۔ اس طرح سے وادی کشمیرمیں ان انسانی حقوق کے کارکنوں نے وقت وقت پر انسانی ہمدردی کے وقار کو بلند رکھا اور انسانی ہمدردی کے تحت لوگوں کی مدد کرتے رہے جس کےلئے یہ سلام اور داد کے مستحق ہے ۔