قارئین ہر ملک اور ہر قوم کی مضبوط مالی استحکامت کا دارمدار بہتر کاشتکاری پر منحصر ہوتا ہے تبھی تو دنیا کے مختلف ممالک میں میدانی علاقوں کے ساتھ ساتھ بالائی علاقوں اور پہاڑوں پر بھی کاشت کاری کی جاتی ہے اور اونچے ڈھلوانوں پر کسان زمین کو اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ بارش اور سخت موسمی صورتحال میں بھی قابل کاشت رہے۔ پہاڑوں پر کسان زمین کو سیڑیوں کی شکل دیکر ٹکڑوں میں بانٹ دیتے ہیں اور پانی پہنچانے اور بارشوں سے بچاﺅ کے طریقے کو اختیار کرتے ہیں ۔ موسمی لحاظ سے کاشتکار ان ڈھلوانوں پر کاشت کاری کرتے ہیں اور خشک زمین پر اُگنی والی فصلوں کا انتخاب کرتے ہیں اس طرح سے پہاڑیوں پر بھی کاشت کاری ممکن بنائی جاتی ہے اور کسان ان فصلوں کو ذخیرہ کرکے سال بھر استعمال میں لاتے ہیں۔ قارئین اگر ہم خطہ جموں کشمیر کی بات کریں تو یہ خطہ پہاڑی سلسلہ کے درمیان واقع ہے اور یہاں پر اس طرح پہاڑی کاشتکاری قدیم زمانے سے جاری ہے ۔ ڈھلوانوں پر کاشتکاری کافی مشکل ہے بسبت میدانی علاقوں کے کیوں کہ شدید بارش اور زمین کھسکنے سے ان کھیتوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے اور اس سے بچنے کےلئے کسان ڈھلوانوں پراصولوں کے پابند رہتے ہیں۔
ایک تو ڈھلوانوں کو چھتوں کی طرف سیڑیوں کی شکل دی جاتی ہے جس سے بارش کاپانی تیزی سے نہیں بہتا اور زمین کھسکنے کے امکان کو کم کرتا ہے ۔ جس ڈھلوان پر چھت بنانے کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں پر بنڈ تیار کئے جاتے ہیں اور پتھروں کو کناروں پر لکیر در لکیر رکھا جاتا ہے اس سے مٹی کھسکنے کا امکان نہیں رہتا اور بارشوں کے دوران مٹی ایک جگہ رہتی ہے ۔ اسی طرح فصل کی باقیات اور کھیتی باڑی کی کھاد کے ساتھ ملچنگ سطح کی حفاظت کرتی ہے، نمی کو برقرار رکھتی ہے اور مٹی کی عمر کو بڑھاتی ہے ۔قارئین کو بتادیں کہ پہاڑی علاقوں میں بادل پھٹنے کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں اور خشک سالی کا رجحان بھی زیادہ وہتا ہے ۔فصلوں کی باقیات چارہ بن جاتی ہیں اور کھاد کھیتوں میں واپس آتی ہیں، نامیاتی مادے اور پانی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پائیداری صرف اس وقت قائم رہتی ہے جب فصلیں اُگتی ہیں خاص کر پہاڑی علاقوں میں مصالحے ، دالیں ، بیچ ، آلو، مکی وغیرہ بالائی علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے ۔ اس طرح کی فصلیں لمبی مدت تک ذخیرہ کی جاسکتی ہیں اور مارکیٹ تک رسائی میں وقت لگے بھی تو یہ بہتر منافع دیتی ہے ۔ مارکیٹوں تک رسائی یا فصلوں کی خریداری اکثر مقامی سطح پر کی جاتی ہے جن میں کمونٹی ادارے، کو آپریٹو، مقامی کرشی وگیان مراکز شامل ہیں اور ان فصلوں کا تجربہ بھی کیا جاتا ہے تاکہ کسانوں کو فصلوں میں زیادہ پیداوار کے طریقے رائج ہوسکیں۔
قارئین جموں کشمیر میں بہت سے ایسے بالائی علاقے ہیں جہاں پر فصلیں اُگائی جاتی ہیں ان ہی میں وادی گریز بھی شامل ہے جو کہ سطح سمندر سے قریب 8ہزار بلندی پر واقع ہے جو چھ مہینوں تک آمدورفت کےلئے بند رہتا ہے ۔ گریز میں بھی بہت سی خشک فصلوں کی کاشت کی جاتی ہے جن میں آلوسب سے زیادہ کاشت ہوتا ہے ۔ گریز میں سالانہ 15ہزار ٹن آلو کی کاشت ہوتی ہے ۔
گریز میں سخت برف پڑتی ہے جس کے نتیجے میںفصلیں جلدی خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تاہم گریز کے کسان آلو کو زیر زمین گڑھوں میں جمع کرتے ہیں تاکہ زمین کی حرارت سے وہ سردی سے بچ سکیں اور لمبی مدت تک بہتر حالت میں رہیں۔ یہ ایک قدیم، کم توانائی والا طریقہ جو خرابی کو کم کرتا ہے اور خوراک کی فراہمی کو مستحکم کرتا ہے۔ جہاں گریز میں آلو کی کاشت بہت زیادہ کی جاتی ہے وہیں گریز کے کسان دیگر فصلوں جیسے مکئی ، گندم ، مٹر ، دالین ، راجماش اور دیگر خشک فصلوں کی کاشت بھی کرتے ہیں ۔ اب وادی گریز میں مکئی اور گندم کی بہتر اقسام بھی کاشت ہوتی ہے اور مکئی اور گندم کے بیج مختلف علاقوں کی موسمی اور زمینی صورتحال کے حساب سے اُگائی جاتی ہے ۔ تلیل ، بگتور، داور جیسے علاقوں میں الگ الگ اقسام کے بیج کاشت کئے جاتے ہیں۔ قارئین کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ اس سرد ترین علاقے میں ایک خاص قسم کا مصالحہ کالا زیرہ بھی کاشت کیا جاتا ہے ۔ یہ کالا زیرہ اونچی پہاڑی علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے اور بازروں میں اس کی قیمت عمدہ رہتی ہے ۔ گریز کے کسانوں کےلئے کھاد کا ایک اہم مسئلہ رہتا ہے کسان زیادہ تر قدرتی طریقہ اپناتے ہوئے کھاد تیار کرتے ہیں ۔وادی گریز کے بالائی علاقوں میں کاشت کی جانی والی فصلوں کےلئے بہتر مارکیٹ بھی دستیاب رہتا ہے جبکہ کاشتکاروں کو جدید اور بہتر طریقے سکھانے کےلئے یونیورسٹی کی جانب سے مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں اور کیڑے مار ادویات اور بہتر بیج بھی انہیں دی جاتی ہے تاکہ اس نازک خطے میں بہتر فصلوں کی تیاری کو یقینی بنایا جاسکے ۔ گریز میں کسان پانی کو کم کرنے اور مٹی کے نقصان کو کم کرنے کے لیے قابل کاشت پہاڑیوں پر ٹیرسنگ اور کنٹور سے منسلک پلاٹوں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ ہمالیائی کاشتکاری کا ایک سنگ بنیاد ہے۔ جہاں نئی چھتیں ناقابل عمل ہیں، گھاس کے کناروں اور پتھروں کے بند بیڈوںکو مستحکم کرتے ہیں اس طرح سے بارش اور برفباری کے موسم میں بھی اس طرح زمین کی تہہ مستحکم رہتی ہے ۔ ہندوستان کے پہاڑی خطوں کے لیے برسوں سے آزمودہ زرعی طریقے رائج ہیں، اور کشمیر کے بلند و بالا علاقوں میں یہ روایات ایک خاص رنگ کے ساتھ زندہ ہیں۔ گریز وادی کی مثال لیجیے، جہاں مختلف بلندیوں کے حساب سے کھیتی کے انداز بھی بدلتے ہیں۔ یہاں کا موسمِ گرما مختصر ہوتا ہے، مگر اسی قلیل عرصے میں دالیں، مکئی اور آلو اپنی موجودگی درج کراتے ہیں۔ درمیانی اور نچلے حصوں میں جو اور کچھ پھلدار درخت بھی دکھائی دیتے ہیں، یعنی ایسا تنوع جو فصلوں کے نقصان کے خدشے کو کم کرتا ہے اور مویشیوں کے لیے چارے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔سردیوں کے طویل اور کڑے دنوں میں کھیت تقریباً خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس وقت فصل کی کٹائی کے بعد ذخیرہ کرنے کے طریقے ہی غذائی تحفظ اور آمدنی کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گریز میں زرعی تحقیقاتی مرکز کرشی وگیان کیندر اور ان کے شراکت دار ادارے کسانوں کو معیاری بیج فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں محفوظ کاشتکاری اور نرسری کی تیاری کے جدید طریقوں میں تربیت دیتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پالی ہاو¿س ان بلند وادیوں میں کسی انقلابی ڈھانچے سے کم نہیں،یہ کسان کو قابلِ اعتماد نرسری، ابتدائی منڈی تک رسائی اور بہتر قیمتوں کی ضمانت دیتا ہے۔آلو کے بیج کی مقامی سطح پر افزائش سے لے کر روایتی زیرِ زمین گڑھوں میں ذخیرہ کرنے کے طریقوں کو دوبارہ اپنانے تک، گریز میں کسان اپنے کل کے لیے مضبوط بنیادیں رکھ رہے ہیں۔ مقامی حالات کے مطابق بیجوں کی پیداوار کسانوں کو دور دراز سپلائرز پر انحصار سے آزاد کرتی ہے، اور کم توانائی کے ذخیرہ خانے معیار کو قائم رکھتے ہیں اور ضیاع کو گھٹاتے ہیں۔ یہ سب مل کر ایک ایسا چکر”سرکیولر سسٹم “تخلیق کرتے ہیں جو نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ آب و ہوا کی تبدیلی سے ہم آہنگ بھی۔یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اب پہاڑی آب و ہوا بھی تیزی سے بدل رہی ہے۔ گریز حال ہی میں خشک سالی کی لپیٹ میں آیا، جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ٹھنڈے اور بلند علاقے بھی پانی کی کمی کے خطرے سے محفوظ نہیں۔ اس تناظر میں کسانوں کے لیے فصلوں میں تنوع لانا، مختصر دورانیے والی اقسام اپنانا اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے جیسے طریقے زندگی اور موت کا سوال بن گئے ہیں۔ ساتھ ہی، کمیونٹی کی سطح پر موسمی مشاورت اور فصل بیمہ جیسے اقدامات کسانوں کو مالی تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔اگر پائیدار کھیتی کو ایک عملی رہنما اصول کی شکل دی جائے تو گریز کی وادی خود ایک زندہ مثال بن جاتی ہے۔ یہاں کی زمین کو کمپوسٹ اور سبز کھاد سے ہر موسم میں زرخیز رکھا جاتا ہے، پہاڑ کی ڈھلوانوں کو تراسوں میں ڈھال کر گھاس کی پٹیاں اور پتھروں کے بندھ باندھے جاتے ہیں؛ بلندی کے حساب سے فصلوں کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ اناج، دالیں اور آلو ایک دوسرے کے ساتھ چل سکیں؛ مویشیوں کو کھیتوں سے جوڑ کر گوبر کھاد کی شکل میں واپس زمین کو لوٹایا جاتا ہے۔اسی طرح چھوٹے سرنگی ڈھانچے اور پالی ہاو¿س کسانوں کو موسم سے ہٹ کر سبزیاں اگانے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ کمی توانائی والے گودام اور کمیونٹی کے سطح پر اناج کے بینک فصل کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ یہاں کے کسان اپنے محدود رقبے کو قیمتی اجناس،جیسے کالا زیرہ، بیج آلو اور معتدل آب و ہوا کے ذریعے ایک نئے معاشی امکان میں بدلتے ہیں۔مارکیٹ تک پہنچنے کے لیے کسان اکیلے نہیں لڑتے وہ مقامی اداروں اور زرعی مراکز سے جڑ کر اجتماعی طور پر بیج حاصل کرتے ہیں، پیداوار کو اکٹھا کرتے ہیں اور خریداروں تک پہنچاتے ہیں۔ اس عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں پائیدار کھیتی کوئی خواب یا ماضی کی یاد نہیں بلکہ زندہ روایت ہے—ایسی روایت جسے گریز جیسے کسان اپنے روزمرہ کے تجربے سے نئے معنی دیتے ہیں۔جب گریز کا کسان آلو کو زمین کی ٹھنڈی آغوش میں محفوظ کرتا ہے، جب وہ مصالحہ جاتی پودے ا±گاتا ہے جو صرف بلندیوں پر پنپتے ہیں، اور جب وہ اپنی زمین کو نامیاتی مادے سے سنوارتا ہے۔تو وہ محض بقا کی جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ ایک ایسے غذائی نظام کی تعمیر کر رہا ہے جو اتنا ہی مضبوط ہے جتنا خوبصورت۔ اور شاید یہی وہ سبق ہے جسے میدانی علاقے بھی سیکھ سکتے ہیں۔غرض وادی کشمیر اور جموں کے خطے میں پہاڑی علاقوں میں بھی بہتر کاشت کاری ہوتی ہے جو کہ خطے میں پیداوار کے ایک اچھے خاصے فرق کو پورا کرتی ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں کاشت کی جانی والی خشک فصلیں نہ صرف جموں کشمیر بلکہ بیرون وادی بھی منڈیوں تک پہنچتی ہے ۔