قارئین وادی کشمیر جس قدرت قدرتی حسن سے بہر ور ہے اسی قدر قدرت نے اس حسین وادی کو قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کیا ہوا ہے جبکہ کشمیر کی جغرافیائی ہیت بھی اس کو ایک منفرد مقام بخشتی ہے ۔ کشمیر ہمیشہ سے وہ خطہ رہا ہے جہاں جغرافیہ اور سیاست ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ پہاڑ، وادیاں اور درّے صرف جغرافیائی رکاوٹیں نہیں بلکہ تاریخ میں سیاسی کشمکش اور عسکری حکمتِ عملی کے زاویے بھی رہے ہیں۔ پچھلے برسوں میں مرکزی اور مقامی حکومتوں نے سڑکوں،تنلوں،ریل اور ہوائی اڈوں کی تعمیر پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ بظاہر یہ اقدامات سہولت اور ترقی کی علامت ہیں، مگر درحقیقت ان کے اثرات معیشت، معاشرت اور سکیورٹی کے دائرے تک پھیلتے ہیں، اور کشمیر کے سیاسی منظرنامے کو بھی نئی سمت دے سکتے ہیں۔مرکزی سرکار کے یہ اقدامات محض ترقیاتی منظر نامے تک محدود نہیں ہے بلکہ سٹریٹجک لحاظ سے بھی یہ کافی اہمیت کے حامل ہے کیوں کہ وادی کشمیر تین ممالک کے سرحدی علاقہ جات کے دائرے میں ہیں۔ قارئین گزشتہ چند برسوں کے دوران وادی کشمیر میں بہت سارے ایسے منصوبے در دست لئے جاچکے ہیں تاہم ادھمپور،سرینگر،بارہ مولہ ریل منصوبہ اس سفر میں سب سے بڑی پیش رفت ہے، جس نے بالآخر وادی کو براہِ راست ریل کے ذریعے بھارت کے باقی حصوں سے جوڑ دیا ہے۔ اس منصوبے میں دریائے چناب پر دنیا کا بلند ترین ریلوے پل بھی شامل ہے، جو انجینئرنگ کے اعتبار سے ایک شاہکار ہے۔ ریل کی یہ نئی سہولت نہ صرف سفر کے اوقات کو کم کرتی ہے بلکہ سال بھر لوگوں اور مال کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔قارئین کو بتادیں کہ حال ہی میں پنجاب سے مال بردار ریل گاڑی اننت ناگ تک پہنچی ہے اس لحاظ سے یہ ٹریک سفر کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کی آسان نقل و حمل کیلئے بھی بہتر ہوگا۔ اسی طرح ایک اور منصوبہ زوجیلا ٹنل جیسے منصوبے بھی زیرِ تکمیل ہیں۔ یہ سرنگ سرینگر اور لداخ کو ہر موسم میں ملانے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ اگرچہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے مگر اس کی تکمیل وادی کو برفانی طوفانوں کے باوجود محفوظ اور رواں دواں راستہ مہیا کرے گی۔اس ٹنل کے مکمل ہونے کے بعد سرینگر سے کرگل تک چند ہی گھنٹے لگیں گے اور یہ سرنگ بھی حفاظتی سٹریٹجک کے لحفاظ سے کافی اہم مانی جاتی ہے ۔ قارئین زمینی سفر کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مرکزی سرکار کی یہ کوشش ہے کہ ہوائی سفر بھی آسان ہوجائے ۔ اس تناظر میں ،سرینگر ایئرپورٹ کی توسیع اور تزئین نو نہ صرف مسافروں کی بڑی تعداد کو سنبھالنے کے لیے کی جا رہی ہے بلکہ اسے کشمیر کی ثقافتی پہچان کے طور پر پیش کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وادی کے باغوں کی پیداوار، جیسے سیب، اخروٹ اور زعفران، زیادہ تیزی اور اعتماد کے ساتھ عالمی منڈیوں تک پہنچ سکے گی۔اس اقدام سے کاشتکاروں اور تاجروں کو بھی کافی فائدہ ملے گا۔ قارئین کو بتادیں کہ بہتر سڑکیں، ریل اور ہوائی رابطے صرف نقل و حمل کو آسان نہیں بناتے، بلکہ تجارت اور سیاحت کو بھی ایک نیا رخ دیتے ہیں۔ کسان اپنی پیداوار وقت پر منڈی تک پہنچا سکتے ہیں، سیاح زیادہ مہینوں تک آ سکتے ہیں، اور ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ اور سروسز کے شعبے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف غربت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ تعلیم اور صحت تک رسائی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ہنگامی حالات میں ایمبولینس یا ریلیف ٹیمیں دور دراز علاقوں تک جلدی پہنچ سکیں گی، جو پہلے ناممکن سا لگتا تھا۔
سکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ ڈھانچے صورتحال کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ بہتر سڑکیں اور ریل فوج کو تیزی سے حرکت میں لانے اور ساز و سامان پہنچانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ اس سے انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں میں سہولت ملتی ہے اور مشکل جغرافیہ پر انحصار کرنے والے عسکری گروہوں کی برتری کم ہو جاتی ہے۔ البتہ یہی انفراسٹرکچر حملوں کا ہدف بھی بن سکتا ہے، لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے فوج اور سول اداروں کو باہم تعاون کرنا ہوگا، لیکن اس انداز میں کہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر نہ ہو۔آسان سفر اور نقل و حمل کیلئے امن کا ماحول اور حفاظت ایک اہم جز ہے اس کے بغیر کسی بھی خطے کی ترقی ناممکن ہے۔
کسی بھی خطے میں بنیادی ڈھانچے کی بہتر سہولیات ترقی کی ضامن ہے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر لوگوں کے ذہنوں میں مستقبل کی تصویر بھی بدل سکتی ہے۔ جب روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور سہولتیں قریب آئیں گی تو مایوسی اور بے چینی کے کچھ اسباب کم ہو سکتے ہیں۔ بہتر روابط سماجی تنہائی کو توڑتے ہیں اور نئے خیالات اور مواقع تک رسائی دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر فوائد یکساں طور پر تقسیم نہ ہوئے تو ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ٹھیکے اور ملازمتیں باہر کے افراد لے جائیں اور مقامی لوگ نظرانداز ہوں تو کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔ زمین کے استعمال، ملازمتوں اور مقامی شناخت کے تحفظ کے حوالے سے حکومت کی پالیسیاں طے کریں گی کہ یہ ترقی کشمیریوں کے لیے نعمت ہے یا نئی تشویش۔بڑے منصوبے دو رخ رکھتے ہیں، ایک طرف یہ زندگی کو آسان بنانے والے “لائف لائنز” ہیں، دوسری طرف یہ لوگوں پر کنٹرول کے اوزار سمجھے جا سکتے ہیں اگر ان کی منصوبہ بندی میں مقامی آبادی کو شامل نہ کیا جائے۔ مثبت نتائج اسی وقت سامنے آ سکتے ہیں جب حکومت مقامی مزدوروں کو روزگار دے، دیہات اور قصبوں میں ترقی کے ثمرات پہنچائے، اور منصوبوں کی سکیورٹی کو اس انداز میں سنبھالے کہ عام زندگی غیر ضروری طور پر محدود نہ ہو۔ادیب اور مورخ بارہا یہ دکھا چکے ہیں کہ سڑکیں اور ریل راستے صرف جسمانی سفر نہیں بلکہ ذہنی اور سیاسی سفر کو بھی جنم دیتے ہیں۔ ردیارڈ کپلنگ نے اپنے ناول ’کِم‘ میں جس طرح گرینڈ ٹرنک روڈ کو برصغیر کی رگِ جاں کے طور پر دکھایا ہے، وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راستے صرف جغرافیائی نہیں ہوتے بلکہ اثر و رسوخ کی لکیریں بھی بن جاتے ہیں۔
کشمیر میں انفراسٹرکچر کی نئی تعمیر بیک وقت موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ یہ مقامی معیشت کو مضبوط کر سکتا ہے، سیاحت کو سہارا دے سکتا ہے اور سکیورٹی کے لیے سہولت پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ثمرات مقامی لوگوں تک نہ پہنچے یا ان کی آواز شامل نہ کی گئی تو یہی ترقی اختلاف کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر حکمرانی، مقامی نوجوانوں کے لیے مواقع اور شناخت کا احترام بھی یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر، سڑکیں اور پل صرف پتھروں کا جال ہوں گے، دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ نہیں۔حالیہ برسوں میں انفراسٹریکچر کی ترقی کیلئے سرکار نے جو اقدامات اُٹھائے ہیں یقینی طور پر اس کے زمینی سطح پر بہتر نتائج ظاہر ہوں گے ۔
کسی بھی خطے میں بنیادی ڈھانچے کی بہتر سہولیات ترقی کی ضامن ہے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر لوگوں کے ذہنوں میں مستقبل کی تصویر بھی بدل سکتی ہے۔ جب روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور سہولتیں قریب آئیں گی تو مایوسی اور بے چینی کے کچھ اسباب کم ہو سکتے ہیں۔ بہتر روابط سماجی تنہائی کو توڑتے ہیں اور نئے خیالات اور مواقع تک رسائی دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر فوائد یکساں طور پر تقسیم نہ ہوئے تو ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ٹھیکے اور ملازمتیں باہر کے افراد لے جائیں اور مقامی لوگ نظرانداز ہوں تو کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔ زمین کے استعمال، ملازمتوں اور مقامی شناخت کے تحفظ کے حوالے سے حکومت کی پالیسیاں طے کریں گی کہ یہ ترقی کشمیریوں کے لیے نعمت ہے یا نئی تشویش۔بڑے منصوبے دو رخ رکھتے ہیں، ایک طرف یہ زندگی کو آسان بنانے والے “لائف لائنز” ہیں، دوسری طرف یہ لوگوں پر کنٹرول کے اوزار سمجھے جا سکتے ہیں اگر ان کی منصوبہ بندی میں مقامی آبادی کو شامل نہ کیا جائے۔ مثبت نتائج اسی وقت سامنے آ سکتے ہیں جب حکومت مقامی مزدوروں کو روزگار دے، دیہات اور قصبوں میں ترقی کے ثمرات پہنچائے، اور منصوبوں کی سکیورٹی کو اس انداز میں سنبھالے کہ عام زندگی غیر ضروری طور پر محدود نہ ہو۔ادیب اور مورخ بارہا یہ دکھا چکے ہیں کہ سڑکیں اور ریل راستے صرف جسمانی سفر نہیں بلکہ ذہنی اور سیاسی سفر کو بھی جنم دیتے ہیں۔ ردیارڈ کپلنگ نے اپنے ناول ’کِم‘ میں جس طرح گرینڈ ٹرنک روڈ کو برصغیر کی رگِ جاں کے طور پر دکھایا ہے، وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راستے صرف جغرافیائی نہیں ہوتے بلکہ اثر و رسوخ کی لکیریں بھی بن جاتے ہیں۔
کشمیر میں انفراسٹرکچر کی نئی تعمیر بیک وقت موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ یہ مقامی معیشت کو مضبوط کر سکتا ہے، سیاحت کو سہارا دے سکتا ہے اور سکیورٹی کے لیے سہولت پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ثمرات مقامی لوگوں تک نہ پہنچے یا ان کی آواز شامل نہ کی گئی تو یہی ترقی اختلاف کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر حکمرانی، مقامی نوجوانوں کے لیے مواقع اور شناخت کا احترام بھی یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر، سڑکیں اور پل صرف پتھروں کا جال ہوں گے، دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ نہیں۔حالیہ برسوں میں انفراسٹریکچر کی ترقی کیلئے سرکار نے جو اقدامات اُٹھائے ہیں یقینی طور پر اس کے زمینی سطح پر بہتر نتائج ظاہر ہوں گے ۔
قارئین وادی کشمیر جس قدرت قدرتی حسن سے بہر ور ہے اسی قدر قدرت نے اس حسین وادی کو قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کیا ہوا ہے جبکہ کشمیر کی جغرافیائی ہیت بھی اس کو ایک منفرد مقام بخشتی ہے ۔ کشمیر ہمیشہ سے وہ خطہ رہا ہے جہاں جغرافیہ اور سیاست ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ پہاڑ، وادیاں اور درّے صرف جغرافیائی رکاوٹیں نہیں بلکہ تاریخ میں سیاسی کشمکش اور عسکری حکمتِ عملی کے زاویے بھی رہے ہیں۔ پچھلے برسوں میں مرکزی اور مقامی حکومتوں نے سڑکوں،تنلوں،ریل اور ہوائی اڈوں کی تعمیر پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ بظاہر یہ اقدامات سہولت اور ترقی کی علامت ہیں، مگر درحقیقت ان کے اثرات معیشت، معاشرت اور سکیورٹی کے دائرے تک پھیلتے ہیں، اور کشمیر کے سیاسی منظرنامے کو بھی نئی سمت دے سکتے ہیں۔مرکزی سرکار کے یہ اقدامات محض ترقیاتی منظر نامے تک محدود نہیں ہے بلکہ سٹریٹجک لحاظ سے بھی یہ کافی اہمیت کے حامل ہے کیوں کہ وادی کشمیر تین ممالک کے سرحدی علاقہ جات کے دائرے میں ہیں۔ قارئین گزشتہ چند برسوں کے دوران وادی کشمیر میں بہت سارے ایسے منصوبے در دست لئے جاچکے ہیں تاہم ادھمپور،سرینگر،بارہ مولہ ریل منصوبہ اس سفر میں سب سے بڑی پیش رفت ہے، جس نے بالآخر وادی کو براہِ راست ریل کے ذریعے بھارت کے باقی حصوں سے جوڑ دیا ہے۔ اس منصوبے میں دریائے چناب پر دنیا کا بلند ترین ریلوے پل بھی شامل ہے، جو انجینئرنگ کے اعتبار سے ایک شاہکار ہے۔ ریل کی یہ نئی سہولت نہ صرف سفر کے اوقات کو کم کرتی ہے بلکہ سال بھر لوگوں اور مال کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔قارئین کو بتادیں کہ حال ہی میں پنجاب سے مال بردار ریل گاڑی اننت ناگ تک پہنچی ہے اس لحاظ سے یہ ٹریک سفر کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کی آسان نقل و حمل کیلئے بھی بہتر ہوگا۔ اسی طرح ایک اور منصوبہ زوجیلا ٹنل جیسے منصوبے بھی زیرِ تکمیل ہیں۔ یہ سرنگ سرینگر اور لداخ کو ہر موسم میں ملانے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ اگرچہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے مگر اس کی تکمیل وادی کو برفانی طوفانوں کے باوجود محفوظ اور رواں دواں راستہ مہیا کرے گی۔اس ٹنل کے مکمل ہونے کے بعد سرینگر سے کرگل تک چند ہی گھنٹے لگیں گے اور یہ سرنگ بھی حفاظتی سٹریٹجک کے لحفاظ سے کافی اہم مانی جاتی ہے ۔ قارئین زمینی سفر کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مرکزی سرکار کی یہ کوشش ہے کہ ہوائی سفر بھی آسان ہوجائے ۔ اس تناظر میں ،سرینگر ایئرپورٹ کی توسیع اور تزئین نو نہ صرف مسافروں کی بڑی تعداد کو سنبھالنے کے لیے کی جا رہی ہے بلکہ اسے کشمیر کی ثقافتی پہچان کے طور پر پیش کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وادی کے باغوں کی پیداوار، جیسے سیب، اخروٹ اور زعفران، زیادہ تیزی اور اعتماد کے ساتھ عالمی منڈیوں تک پہنچ سکے گی۔اس اقدام سے کاشتکاروں اور تاجروں کو بھی کافی فائدہ ملے گا۔ قارئین کو بتادیں کہ بہتر سڑکیں، ریل اور ہوائی رابطے صرف نقل و حمل کو آسان نہیں بناتے، بلکہ تجارت اور سیاحت کو بھی ایک نیا رخ دیتے ہیں۔ کسان اپنی پیداوار وقت پر منڈی تک پہنچا سکتے ہیں، سیاح زیادہ مہینوں تک آ سکتے ہیں، اور ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ اور سروسز کے شعبے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف غربت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ تعلیم اور صحت تک رسائی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ہنگامی حالات میں ایمبولینس یا ریلیف ٹیمیں دور دراز علاقوں تک جلدی پہنچ سکیں گی، جو پہلے ناممکن سا لگتا تھا۔
سکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ ڈھانچے صورتحال کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ بہتر سڑکیں اور ریل فوج کو تیزی سے حرکت میں لانے اور ساز و سامان پہنچانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ اس سے انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں میں سہولت ملتی ہے اور مشکل جغرافیہ پر انحصار کرنے والے عسکری گروہوں کی برتری کم ہو جاتی ہے۔ البتہ یہی انفراسٹرکچر حملوں کا ہدف بھی بن سکتا ہے، لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے فوج اور سول اداروں کو باہم تعاون کرنا ہوگا، لیکن اس انداز میں کہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر نہ ہو۔آسان سفر اور نقل و حمل کیلئے امن کا ماحول اور حفاظت ایک اہم جز ہے اس کے بغیر کسی بھی خطے کی ترقی ناممکن ہے۔
کسی بھی خطے میں بنیادی ڈھانچے کی بہتر سہولیات ترقی کی ضامن ہے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر لوگوں کے ذہنوں میں مستقبل کی تصویر بھی بدل سکتی ہے۔ جب روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور سہولتیں قریب آئیں گی تو مایوسی اور بے چینی کے کچھ اسباب کم ہو سکتے ہیں۔ بہتر روابط سماجی تنہائی کو توڑتے ہیں اور نئے خیالات اور مواقع تک رسائی دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر فوائد یکساں طور پر تقسیم نہ ہوئے تو ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ٹھیکے اور ملازمتیں باہر کے افراد لے جائیں اور مقامی لوگ نظرانداز ہوں تو کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔ زمین کے استعمال، ملازمتوں اور مقامی شناخت کے تحفظ کے حوالے سے حکومت کی پالیسیاں طے کریں گی کہ یہ ترقی کشمیریوں کے لیے نعمت ہے یا نئی تشویش۔بڑے منصوبے دو رخ رکھتے ہیں، ایک طرف یہ زندگی کو آسان بنانے والے “لائف لائنز” ہیں، دوسری طرف یہ لوگوں پر کنٹرول کے اوزار سمجھے جا سکتے ہیں اگر ان کی منصوبہ بندی میں مقامی آبادی کو شامل نہ کیا جائے۔ مثبت نتائج اسی وقت سامنے آ سکتے ہیں جب حکومت مقامی مزدوروں کو روزگار دے، دیہات اور قصبوں میں ترقی کے ثمرات پہنچائے، اور منصوبوں کی سکیورٹی کو اس انداز میں سنبھالے کہ عام زندگی غیر ضروری طور پر محدود نہ ہو۔ادیب اور مورخ بارہا یہ دکھا چکے ہیں کہ سڑکیں اور ریل راستے صرف جسمانی سفر نہیں بلکہ ذہنی اور سیاسی سفر کو بھی جنم دیتے ہیں۔ ردیارڈ کپلنگ نے اپنے ناول ’کِم‘ میں جس طرح گرینڈ ٹرنک روڈ کو برصغیر کی رگِ جاں کے طور پر دکھایا ہے، وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راستے صرف جغرافیائی نہیں ہوتے بلکہ اثر و رسوخ کی لکیریں بھی بن جاتے ہیں۔
کشمیر میں انفراسٹرکچر کی نئی تعمیر بیک وقت موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ یہ مقامی معیشت کو مضبوط کر سکتا ہے، سیاحت کو سہارا دے سکتا ہے اور سکیورٹی کے لیے سہولت پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ثمرات مقامی لوگوں تک نہ پہنچے یا ان کی آواز شامل نہ کی گئی تو یہی ترقی اختلاف کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر حکمرانی، مقامی نوجوانوں کے لیے مواقع اور شناخت کا احترام بھی یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر، سڑکیں اور پل صرف پتھروں کا جال ہوں گے، دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ نہیں۔حالیہ برسوں میں انفراسٹریکچر کی ترقی کیلئے سرکار نے جو اقدامات اُٹھائے ہیں یقینی طور پر اس کے زمینی سطح پر بہتر نتائج ظاہر ہوں گے ۔
کسی بھی خطے میں بنیادی ڈھانچے کی بہتر سہولیات ترقی کی ضامن ہے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر لوگوں کے ذہنوں میں مستقبل کی تصویر بھی بدل سکتی ہے۔ جب روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور سہولتیں قریب آئیں گی تو مایوسی اور بے چینی کے کچھ اسباب کم ہو سکتے ہیں۔ بہتر روابط سماجی تنہائی کو توڑتے ہیں اور نئے خیالات اور مواقع تک رسائی دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر فوائد یکساں طور پر تقسیم نہ ہوئے تو ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ٹھیکے اور ملازمتیں باہر کے افراد لے جائیں اور مقامی لوگ نظرانداز ہوں تو کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔ زمین کے استعمال، ملازمتوں اور مقامی شناخت کے تحفظ کے حوالے سے حکومت کی پالیسیاں طے کریں گی کہ یہ ترقی کشمیریوں کے لیے نعمت ہے یا نئی تشویش۔بڑے منصوبے دو رخ رکھتے ہیں، ایک طرف یہ زندگی کو آسان بنانے والے “لائف لائنز” ہیں، دوسری طرف یہ لوگوں پر کنٹرول کے اوزار سمجھے جا سکتے ہیں اگر ان کی منصوبہ بندی میں مقامی آبادی کو شامل نہ کیا جائے۔ مثبت نتائج اسی وقت سامنے آ سکتے ہیں جب حکومت مقامی مزدوروں کو روزگار دے، دیہات اور قصبوں میں ترقی کے ثمرات پہنچائے، اور منصوبوں کی سکیورٹی کو اس انداز میں سنبھالے کہ عام زندگی غیر ضروری طور پر محدود نہ ہو۔ادیب اور مورخ بارہا یہ دکھا چکے ہیں کہ سڑکیں اور ریل راستے صرف جسمانی سفر نہیں بلکہ ذہنی اور سیاسی سفر کو بھی جنم دیتے ہیں۔ ردیارڈ کپلنگ نے اپنے ناول ’کِم‘ میں جس طرح گرینڈ ٹرنک روڈ کو برصغیر کی رگِ جاں کے طور پر دکھایا ہے، وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راستے صرف جغرافیائی نہیں ہوتے بلکہ اثر و رسوخ کی لکیریں بھی بن جاتے ہیں۔
کشمیر میں انفراسٹرکچر کی نئی تعمیر بیک وقت موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ یہ مقامی معیشت کو مضبوط کر سکتا ہے، سیاحت کو سہارا دے سکتا ہے اور سکیورٹی کے لیے سہولت پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ثمرات مقامی لوگوں تک نہ پہنچے یا ان کی آواز شامل نہ کی گئی تو یہی ترقی اختلاف کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر حکمرانی، مقامی نوجوانوں کے لیے مواقع اور شناخت کا احترام بھی یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر، سڑکیں اور پل صرف پتھروں کا جال ہوں گے، دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ نہیں۔حالیہ برسوں میں انفراسٹریکچر کی ترقی کیلئے سرکار نے جو اقدامات اُٹھائے ہیں یقینی طور پر اس کے زمینی سطح پر بہتر نتائج ظاہر ہوں گے ۔