قارئین وادی کشمیر پوری دنیا میں اپنی مہمان نوازی، قدرتی خوبصورتی اور آب و ہوا کے لئے پوری دنیا میں ایک الگ پہنچا رکھتی ہے تاہم جموں و کشمیر کی پہچان برسوں تک کرفیو، بےچینی اور سیاسی غیر یقینی سے جڑی رہی۔ مخدوش حالات، مار دھاڑ، قتل و غارت گری ، بندشیں اور ہڑتال نے پوری دنیامیں کشمیر کی شبیہ خراب کردی تھی اور یہ خطہ ایک شورش زدہ خطہ تصور کیا جاتا تھا۔ مگر گزشتہ چند برسوں میں اس خطے کا بیانیہ بڑی حد تک بدل چکا ہے۔ قومی سطح پر بھی اور عالمی تناظر میں بھی، وادی کو دیکھنے کا زاویہ اب محض ہنگاموں یا علیحدگی پسند جذبات تک محدود نہیں رہا۔ یہ تبدیلی سیاسی فیصلوں، ترقیاتی اقدامات، اسٹریٹیجک منصوبہ بندی اور سفارتی حکمتِ عملی کے امتزاج سے ممکن ہوئی ہے۔ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی دو مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں تنظیم نو اس سفر کا سب سے اہم موڑ ثابت ہوا۔ یہ فیصلہ یقیناً بحث و مباحثے کا باعث بنا، مگر اسی نے نئے امکانات اور نئی راہوں کے دروازے بھی کھول دیے۔ اس کے بعد سے جموں و کشمیر کی کہانی کو صرف ہنگامہ خیزی کے زاویے سے نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کے طور پر بیان کیا جانے لگا ہے جو ازسرِ نو جڑ رہی ہے، ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے اور جمہوری عمل میں زیادہ فعال شمولیت اختیار کر رہی ہے۔ اگرچہ سیاسی سوالات اور عالمی سطح پر جانچ کا سلسلہ ابھی باقی ہے، لیکن قومی سطح پر حکومت کے زیرِ اثر ابھرنے والا نعرہ یہی ہے کہ ’’نیا جموں و کشمیر‘‘ استحکام اور ترقی کو اپنی ثقافتی جڑوں کے ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ انیس سو نوّے کی دہائی جموں و کشمیر کے لیے سب سے کربناک دور ثابت ہوئی۔ تشدد بڑھا، سیاحت تباہی کے دہانے پر جا پہنچی اور پاکستان کی پشت پناہی والے دہشت گردی کے سبب ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ تر یہ تصویر نمایاں رہی کہ وادی سکیورٹی فورسز کے بھاری پہرے، سرحد پار کشیدگی، انسانی حقوق کے سوالات اور غیر یقینی معیشت میں جکڑی ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حسن، ورثے اور تہذیبی گہرائیوں سے مالا مال اس خطے کو دنیا نے ایک مشکل اور ناقابلِ رسائی جگہ کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ تاہم، پالیسی کی سمت میں تبدیلی اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے باعث گزشتہ ایک دہائی میں فضا بدلنے لگی۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کنیا کماری سے کشمیر تک ٹرین پروجیکٹ اور دریائے چناب پر دنیا کا سب سے بلند ریلوے پل جیسے منصوبے سامنے آئے۔ درجنوں بڑی ٹنلوںاور شاہراہوں کی منظوری دی گئی، اور ادھمپور۔سرینگر۔بارہمولہ ریل لنک اس ادغام کو مزید گہرا کرنے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ 2028 تک زوجللا ٹنل کی تکمیل سے لداخ کو ہر موسم میں رابطے کی سہولت میسر ہوگی، جو علامتی طور پر شمولیت اور قومی یکجہتی کی علامت بنے گی۔ان ڈھانچاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ حکمرانی، روزگار اور سیاحت پر مرکوز پالیسیاں بھی سامنے آئیں۔ ایک کھرب روپے سے زیادہ کے منصوبے منظور کیے گئے تاکہ سرحدی اضلاع کو بڑے مراکز سے جوڑا جائے اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں۔ روزگار سب سے بڑی ترجیح بنا، ’’مشن یوتھ‘‘، ’’وزیرِاعظم روزگار جنریشن پروگرام‘‘، ’’تیجسونی‘‘ اور ’’ممکن‘‘ جیسی اسکیموں کے ذریعے نوجوان کاروباری اور نوکری کے متلاشیوں کو سہارا دیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6.7 فیصد سے گھٹ کر 6.1 فیصد تک آ گئی اور محنت کش طبقے کی شمولیت میں اضافہ ہوا، جو ایک زیادہ متحرک افرادی قوت کی علامت ہے۔سیاحت، جو برسوں بدحالی کا شکار رہی، نئی زندگی پانے لگی۔ 2024 میں 43 ہزار سے زیادہ غیر ملکی سیاح آئے، جو اس اعتماد کی علامت ہے کہ وادی ایک بار پھر عالمی نقشے پر اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی 400 سے زیادہ نئے منصوبے شروع ہوئے، دو نئے ایمس کیمپس کی تعمیر جاری ہے اور آیوشمان بھارت کے تحت بیمہ کی سہولت عام ہو رہی ہے۔ یہ سب اس خطے کے لیے وہ سہولتیں ہیں جو ماضی میں محض خواب لگتی تھیں۔
ایک نسبتاً پرامن ماحول نے ترقی کے سفر کو مزید سہارا دیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ ہڑتال ، پتھراؤ، کریک ڈاؤن اور کرفیو جیسے مناظر تقریباً غائب ہو گئے ہیں، جس سے اسکولوں، کاروباروں اور ٹرانسپورٹ نے معمول کی سانس لی ہے۔ حکومت کی کثیر جہتی حکمتِ عملی—جس میں سکیورٹی کو مضبوطی اور ترقی کو توجہ دی گئی—نے اس بدلاؤ کو ممکن بنایا۔ اس کا ایک علامتی مظہر 2023 میں سری نگر میں منعقد ہونے والا جی20 ٹورازم ورکنگ گروپ اجلاس تھا، جس میں نہ صرف ’’گرین ٹورازم‘‘ اور ڈیجیٹلائزیشن پر بات ہوئی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ جموں و کشمیر عالمی تقریبات کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ حقیقی جمہوری عمل کی بحالی اور ایک منتخب حکومت کا قیام ابھی باقی ہے تاکہ سیاسی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ نوجوانوں کے احساسِ بیگانگی کو دور کرنا اور شہری آزادیوں کو مضبوط بنانا بھی وہ چیلنج ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہے۔ عالمی برادری ابھی بھی باریکی سے دیکھ رہی ہے، جہاں ایک طرف ترقی کو سراہا جا رہا ہے، وہیں حل طلب مسائل کی یاد دہانی بھی کرائی جا رہی ہے۔پھر بھی بڑی تصویر یہ ہے کہ جو خطہ کبھی صرف ہنگاموں سے پہچانا جاتا تھا، وہ آہستہ آہستہ اپنی شناخت امید، ترقی اور ادغام پر استوار کر رہا ہے۔ عوام کی آواز اب امن اور مواقع کی خواہش کے گرد گھومتی ہے اور حکومت سرمایہ کاری، رابطہ کاری اور سماجی اصلاحات کے ذریعے اس کا جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر یہ اعتماد اور تعاون مقامی برادری اور پالیسی سازوں کے درمیان پروان چڑھتا رہا تو جموں و کشمیر آخرکار اپنے ماضی کے سائے سے نکل کر قومی و عالمی منظرنامے پر ایک ایسے خطے کے طور پر سامنے آئے گا جس کی پہچان اب بےچینی نہیں بلکہ امکانات اور ترقی ہے۔اب دوبارہ وادی کشمیر عالمی سطح پر ایک پرامن خطہ، قدرتی حسن نے مالا مال اور سیاحت کےلئے بہترین خطہ مانا جاتا ہے اور یہی ایک بہت بڑی تبدیلی کی عکاس ہے ۔