قارئین پاکستان جس کی ایما پر حال ہی میں پہلگام حملہ ہوا اور درجنوں بے گناہ معصوم سیاح ہلاک ہوئے ایک بار پھر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کےلئے دہشت گردی کو بحال کرنے کی کوشش میں ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کا پرانا ڈھانچہ ایک بار پھر زندہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد وقتاً فوقتاً یہ دعوے کرتا رہا ہے کہ وہ ان نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے پرعزم ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس تصویر دکھاتے ہیں۔ کئی پرانی جماعتیں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں، وسائل اکٹھے کر رہی ہیں اور اپنی حکمتِ عملیوں کو نئے سرے سے ترتیب دے رہی ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ بھارت کی مغربی سرحدی سلامتی کے حوالے سے بھی سنگین خدشات ابھارتا ہے۔پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن سندور کے بعد اس بات کی امید کی جارہی تھی کہ اب پاکستان دوبارہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کر منظم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ دوبارہ سے اس نے وہی راہ اپنائی ہے ۔ سب سے نمایاں مثال جیشِ محمد کی دوبارہ سرگرمی ہے، جو مذہبی اور سماجی منصوبوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس تنظیم نے ملک بھر میں 313 مساجد کی تعمیر شروع کی ہے، جو بظاہر عبادت گاہیں ہیں لیکن درپردہ آپریشنل مراکز کے طور پر بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 3.91 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں، جو محض مذہبی سرگرمیوں کے لیے نہیں بلکہ تربیتی مراکز کی بحالی پر بھی خرچ کیے جا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ تنظیمیں اب روایتی بینکاری نظام سے بچنے کے لیے ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز، آن لائن والٹس اور ڈارک ویب پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہیں، جو ان کے عملی ارتقا اور حکمتِ عملی کے نئے رخ کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ پیش رفت صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ بھارتی سیکورٹی ایجنسیاں مسلسل ان منصوبوں کو بے نقاب کر رہی ہیں جو سرحد پار سے امن کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالیہ تحقیقات میں دھماکہ خیز مواد کی موجودگی اور تخریبی سرگرمیوں کے منصوبے سامنے آئے، جس سے ایک بار پھر واضح ہوا کہ پاکستان میں موجود عناصر اب بھی غیر ریاستی پراکسیز کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ سرگرمیاں اب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے مزید پیچیدہ ہو گئی ہیںڈرون کے ذریعے اسلحے اور سامان کی ترسیل سے لے کر خفیہ اور انکرپٹڈ مواصلات تک، ہر حربہ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ پاکستان خود ان نیٹ ورکس سے محفوظ ہے۔ 25 اگست کو خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک بڑا حملہ ہوا، جس میں تین سیکورٹی اہلکار مارے گئے اور سترہ زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان پر ڈالی گئی، جو
پچھلے ایک سال میں نمایاں طور پر مضبوط ہوئی ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق یہ دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا دہشت گرد نیٹ ورک بن چکا ہے۔ صرف 2025 کی پہلی سہ ماہی میں ہی پاکستان میں ہلاکتوں میں 90 فیصد اور واقعات میں 81 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔دیگر گروہ جیسے ’’حرکتِ انقلابِ اسلامی پاکستان‘‘، جس نے ’’اتحاد المجاہدین پاکستان‘‘ نامی نئے اتحاد سے وفاداری کا اعلان کیا ہے، کھلے عام شہروں تک اپنی رسائی بڑھانے کے ارادے ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ وسعت ان کی حکمتِ عملی کے خطرناک رخ کی عکاسی کرتی ہے۔قارئین کو بتادیں کہ اس طرح کے دہشت گرد گروپ کسی ایک کے دوست نہیں ہوسکتے بلکہ یہ لوگ تو خود پاکستان میں عام شہریوں پر حملے میں بھی ملوث رہے ہیں ۔ پاکستان نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ باجوڑ میں ’’آپریشن سربکف‘‘ اور قومی سطح پر ’’عزمِ استحکام‘‘ جیسی کارروائیاں اسی کوشش کا حصہ ہیں۔ حکومت نے ’’انسدادِ پرتشدد انتہا پسندی کی پالیسی‘‘ بھی متعارف کرائی، جس کا مقصد تعلیم اور کمیونٹی کی سطح پر انتہا پسندی کے خاتمے کی تدابیر اپنانا تھا۔ مگر یہ پالیسی کمزور شہری ڈھانچوں، فوجی اداروں کے حد سے زیادہ اثر و رسوخ اور بعض گروہوں کے لیے نرم گوشے کے باعث مؤثر ثابت نہیں ہو پائی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کچھ تنظیمیں اب بھی بالواسطہ تحفظ حاصل کر کے دوبارہ سرگرم ہونے میں کامیاب ہیں۔بھارت کے لیے یہ حالات کثیر الجہتی اسٹریٹیجک خدشات رکھتے ہیں۔ پاکستان کے دوبارہ منظم ہوتے نیٹ ورکس، جو اب نئے فنڈز، ڈیجیٹل ذرائع، نظریاتی اتحاد اور عملی حکمتِ عملی کے ساتھ ابھر رہے ہیں، صرف روایتی میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہے۔ بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر دفاع کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ سائبر انٹیلیجنس کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کرے تاکہ ان خفیہ مالیاتی راستوں اور بھرتی کے نیٹ ورکس کو بروقت پہچانا جا سکے جو انکرپٹڈ پلیٹ فارمز پر پنپ رہے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ بھارت کو بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی دوغلی پالیسی کو بے نقاب کرنے کے لیے سفارتی دباؤ بڑھانا ہوگا۔ اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی اکثر سنجیدہ اقدامات اور اسٹریٹیجک ابہام کے درمیان جھولتی رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی دہلی کو ہر حال میں فعال اور تیار رہنا ہوگا۔ اصل راستہ یہی ہے کہ حالات کو قبل از وقت بھانپ کر، ان کے مطابق ڈھلتے ہوئے اور مضبوط ردعمل کے ذریعے قومی سلامتی کو کسی بھی صورت کمزور نہ ہونے دیا جائے۔پاکستان نے گزشتہ برس اگرچہ اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ اس کی سرزمین کسی بھی دہشت گردی سرگرمیوں کےلئے استعمال ہونے نہیں دی جائے گی البتہ زمینی سطح پر سب کچھ اس کے برعکس ہے ۔