قارئین وادی کشمیر عرصہ دراز سے سیاسی خلفشاری اور مخدوش حالات کی شکار رہی ہے جبکہ یہ خوبصورت وادی کشمیر اپنے بے پناہ قدرتی صلاحیت میں بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ برف پوش پہاڑوں کے سائے میں گھری اور سیاسی حساسیتوں میں الجھی وادی کشمیر صدیوں سے تنہائی اور خوابوں کے درمیان کھڑی رہی ہے۔ ایک طرف اس کی بے مثال خوبصورتی ہمیشہ مسحور کن رہی، تو دوسری طرف یہی جغرافیہ اس کے لیے رکاوٹ بھی بنا۔ دشوار گزار درّے، بھاری برفباری اور لینڈ سلائیڈز نے برسوں تک اس خطے کے کئی علاقے دنیا سے کاٹے رکھے۔ لیکن اب منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج کشمیر کی کہانی نئی شاہراہوں، عظیم الشان سرنگوں اور جدید پلوں کے ذریعے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی صرف سڑکوں اور کنکریٹ تک محدود نہیں بلکہ یہ سلامتی، معیشت، ج ±ڑت اور امید کی علامت ہے۔قارئین اگر کشمیر کی جدید سڑکوں کے نقشے کو کسی ایک ادارے نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ بارڈر روڈز آرگنائزیشن (بی آر او)ہے۔ اس کے انجینئر اور مزدور برفانی طوفانوں اور سرحدی کشیدگی کے درمیان، خوابوں کو حقیقت میں بدلتے آئے ہیں۔ پروجیکٹ بیکن، اَمپرک اور ہِمانک کے تحت ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تعمیر ہوئیں، جنہوں نے گریز، مژھل ٹیٹوال اور کرناہ جیسے دور افتادہ علاقوں کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑ دیا۔یقیناً ان میں سب سے نمایاں کارنامہ املنگ لا پاس روڈ ہے، جو دنیا کی سب سے بلند موٹر ایبل سڑک کے طور پر تسلیم کی گئی۔ یہ صرف انجینئرنگ کی جیت نہیں بلکہ دفاعی اہمیت کا حامل ایک زندہ ثبوت بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ BRO نے درجنوں اونچائی پر واقع پل بھی تعمیر کیے، جن کی بدولت کئی بستیاں اور فوجی چوکیوں تک سال بھر رسائی ممکن ہو گئی۔ گریز اور کٹھوعہ کے حالیہ پل اسی کا مظہر ہیں۔جموں و کشمیر کی شہ رگ کہلانے والی نیشنل ہائی وے 44، جو کبھی لینڈ سلائیڈز اور ٹریفک جام کی علامت تھی، آج سرنگوں اور فلائی اوورز کی بدولت ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چنانی،ناشری اور بانہال،قاضی گنڈ سرنگوں نے سفر کا وقت گھنٹوں کم کر دیا اور سب سے بڑھ کر یہ شاہراہ اب ہر موسم میں کھلی رہتی ہے۔اسی طرح زیرِ تکمیل زوجیلا اور زیڈمور ٹنل انجینئرنگ کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔ زوجیلا ٹنل،جو مکمل ہونے کے بعد ایشیا کی سب سے طویل دوطرفہ سرنگ بنے گی، سرینگر لہہ شاہراہ کو موسم سرماءاور برفانی طوفانوں میں بھی کھلا رکھے گی۔ زیڈ مورٹنگ نے سونہ مرگ کو سال بھر سیاحت اور تجارت کے لیے قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ مغل روڈ پر پیر کی گلی ٹنل تجویز شدہ ہے، جو پونچھ اور راجوری جیسے اضلاع کو کشمیر کی معیشت سے قریب تر لے آئے گی۔ اسی طرز پر کرناہ کے لیے سادھناٹنگل اور کئی دیگر شاہراہوں پر اپ گریڈیشن منصوبے بھی جاری ہیں۔
وادی کے شہروں میں بھی تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں۔ سرینگر لالچوک،پرے پورہ فلائی اوور ٹریفک کے دباو ¿ کو کم کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے جبکہ بارہمولہ،ا ±وڑی شاہراہ پر سنگرامہ فلائی اوور آخری مراحل میں ہے۔ حالیہ برسوں میں 400 سے زائد پل مکمل ہو چکے ہیں، جو دور دراز اضلاع کو تعلیم، صحت اور بازاروں سے جوڑنے والی نئی لکیریں کھینچتے ہیں۔
قارئین کسی بھی خطے کی ترقی میں اس کی سڑکیں اہم کردار اداکرتی ہیں۔ جہاں قومی شاہراہیں بین الریاستی رابطہ فراہم کرتی ہیں، وہیں دیہی سڑکیں آخری میل تک رسائی دیتی ہیں۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت پچھلے چند برسوں میں 40 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ کشٹوار کے ورونی یا گریز کے تلیل جیسے گاو ¿ں، جہاں کبھی صرف پیدل یا ہیلی کاپٹر سے جایا جا سکتا تھا، اب پختہ سڑکوں سے ج ±ڑ گئے ہیں۔ ان بستیوں کے لیے سڑک محض راستہ نہیں بلکہ زندگی کی نئی ضمانت ہے،کسان بہتر دام پاتے ہیں، بچے سخت سردی میں بھی اسکول پہنچتے ہیں اور ایمرجنسی میں علاج ممکن ہوتا ہے۔اس پورے سفر میں بھارتی فوج کا کردار پس منظر میں مگر نہایت اہم رہا ہے۔ چاہے برف ہٹانے کے آپریشن ہوں یا حساس علاقوں میں تعمیراتی عملے کو تحفظ فراہم کرنا، فوجی دستے ترقی کے پہیوں کو گھومتے رہنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ کئی بار فوج کی انجینئرنگ رجمنٹس نے براہِ راست پروجیکٹس مکمل کیے ہیں۔وسط 2025 تک مرکز نے 10 ہزار کروڑ روپے سے زائد کے نئے منصوبے منظور کیے ہیں۔ ان میں مغل روڈ پر پیر کی گلی ٹنل سادھنا ، ٹنل سدھما دیو،درنگ ٹنل،سنگھ پورہ،وایل ±و اور سرینگر رنگ روڈ فیز II شامل ہیں۔ جموں کے لیے نیم رنگ روڈ اور درجنوں نئی دیہی سڑکیں بھی منظور ہو چکی ہیں۔یہ سب صرف سفری وقت گھٹانے کی بات نہیں بلکہ ایک سماجی و معاشی تانے بانے کو مضبوط کرنے کا عمل ہے۔ بہتر سڑکوں کے ساتھ روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں، تعلیم اور صحت کی سہولتیں قریب آتی ہیں اور سیاحت کے دروازے کھلتے ہیں۔ سونہ مرگ، گریز اور بالتل جیسی جگہیں اب سال بھر سیاحوں کے لیے پرکشش بن رہی ہیں، جس سے مذہبی یاترا، ایڈونچر ٹورزم اور ونٹر اسپورٹس کو نئی راہیں ملیں گی۔کشمیر میں سڑکیں صرف ڈھانچے نہیں بلکہ انضمام اور ترقی کی علامت ہیں۔ چاہے وہ دفاعی اہمیت کی سرنگیں ہوں یا چھوٹے دیہات کی راہداریاں، ہر منصوبہ شمولیت، استحکام اور خوشحالی کی طرف ایک قدم ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر ایک نئے دور کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مسلسل سرمایہ کاری اور حکومتی عزم کے ساتھ وادی نہ صرف اپنی جغرافیائی تنہائی سے باہر نکل رہی ہے بلکہ ایک معاشی اور سیاحتی مرکز کے طور پر ابھرنے کی راہ پر گامزن ہے۔گزشتہ چند برسوں میں جو یہاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے اس کے اثرات زمینی سطح پر بھی نمایاں ہے ۔