قارئین وادی کشمیر کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں سردیوں کے موسم میں بھاری برفباری کے نتیجے میں اکثر رابطہ سڑکیں ناقابل آمدورفت بن جاتی ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کا عبورو مرور بھی دشوار بن جاتا ہے ۔ اس وجہ سے زیادہ دقتیں مریضوں کو ہوتی ہیں جن کو ہسپتال پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح وادی گریز میںبھی جہاں بھاری برفباری کی وجہ سے علاقہ ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب چھ ماہ تک کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ گریز میں اکثر و بیشتر ان موسمی حالات میں مریضوں کےلئے فوج لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ ایک تاریک رات میں جب باہر بھاری برفباری ہورہی تھی اور تمام سڑکیں برف کے نیچے دبی ہوئی تھی ۔ ایک فوجی پوسٹ پر تعینات فوجی اہلکاروں کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ پوسٹ میں تعینات فوجی اہلکاروں نے دروازہ کھول لیا اور باہر دیکھا کہ ایک شخص کھڑا تھا جس کی گود میں اس کا ایک دوسالہ بیٹا تھا جو شدید بخار میں مبتلا تھا ۔ شدید برفباری نے سڑکیں بند کر دی تھیں جس کی وجہ سے کسی بھی ایمبولینس کا ہسپتال پہنچنا ناممکن ہو گیا تھا۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، فوجی بچے کو اپنے میڈیکل روم میں لے آئے، آکسیجن فراہم کی، اور اگلی صبح اسے ہیلی کاپٹر پر لے گئے۔ ابتدائی علاج سے اس بچے کو کچھ راحت ضرور ملی اور جب اس کو ہسپتال پہنچایا گیا تو اس کا بروقت علاج ہوا جس کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی ۔ قارئین کو بتادیں کہ اصل میں اس بچے کی جان اس لئے بچ گئی کہ فوج نے اسے بروقت علاج فراہم کرکے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال پہنچایا ۔ اس طرح سے ہندوستانی فوج اس کی زندگی کی واحد امید بن گئی۔ قارئین یہ صرف ایک واقع نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات وقت وقت پر ملتے رہتے ہیں ۔ جموں کشمیر میں جو فوج تعینات ہے وہ صرف حفاظتی انتظامات میں اپنا رول ادا نہیں کررہی ہے بلکہ یہ لوگوں کے معاون، بھی ہیں جو کسی بھی مشکل وقت میں لوگوں کی جان بچانے میں پہل کرتے ہیں ۔چاہے وہ موسمی صورتحال ہو یا اور کوئی ناگہانی آفت ہو فوج بچاﺅ کارروائیوں میں پہل کرتی ہیں۔ یہاں پر لوگوں اور فوج کے درمیان ایک مضبوط رشتہ ہے کیوں کہ لوگ فوج پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں اپنا مدد گار تصورکرتے ہیں ۔ قارئین کی یاد دہانی کےلئے بتادیں کہ اکتوبر 1947میں جب پاکستانی حمایت یافتہ قبائلی حملہ آوروں نے وادی میں لوٹ مار شروع کردی اور سرینگر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہندوستانی فوج نے پہلے ہی سرینگر ائر پورٹ پرقبضہ کرکے ان قبائلیوں کے حملے کو پسپاکردیا اور لوگوں کو تحفظ فرہم کیا سرینگر ہوائی اڈے پر پہلی سکھ رجمنٹ کی لینڈنگ نے واقعات کا رخ بدل دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وادی ہندوستان کے ساتھ رہے گی۔ تب سے خطے میں فوج کا کردار الگ رہا ہے۔ بہت سی دوسری ریاستوں کے برعکس، جموں و کشمیر کو مسلسل بیک وقت تین چیلنجوں کا سامنا رہا ہے: سرحد پار سے دراندازی کی کوششیں، بنیاد پرست گروہوں کی موجودگی، اور انتہائی سخت جغرافیائی حالات۔ دنیا کے بلند ترین میدان جنگ سیاچن گلیشیئر پر برفیلی چوکیوں کا دفاع کرنے سے لے کر قصبوں اور دیہاتوں میں امن برقرار رکھنے تک، یہاں کے فوجیوں کو انتہائی مشکل ماحول میں آزمایا گیا ہے۔ اس کے باوجود، ان کی ڈیوٹی حفاظتی اقدامات کے بغیر بھی ہے جوکہ شہریوں کو وقار، موقع اور امید کے ساتھ رہنے کے قابل بنانے کے بارے میں بھی رہا ہے۔فوج کی جانب سے شہریوں کی سہولیت کےلئے متعدد سرگرمیاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ قارئین جموں و کشمیر میں فوج کی اولین ذمہ داری لوگوں کو دہشت گردی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ 1989 میں عسکریت پسندی کے عروج کے بعد سے، فوجیوں نے دیہاتوں اور قصبوں میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم رول اداکیا اور ہر گاﺅں اور ہر علاقے میں اپنی گشت کو تیز کردیا اور چوکیاں قائم کیں ۔ حفاظتی صورتحال سے نمٹنے کےلئے فوج جموں و کشمیر پولیس، نیم فوجی دستوں، اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر رابطہ کرتے ہیں، ایک کثیرالجہتی گرڈ تشکیل دیتے ہیں جو خطے میں امن لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوج عوام کے ساتھ قریبی تال میل بنائے رکھتے ہیں تاکہ زمینی صورتحال سے آگاہی ملے ۔ سال 2003میں سرنکوٹ کے جنگلات میں فوج نے ایک اہم کارووائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کردیا جو قریبی علاقہ جات میں اپنی سرگرمیاںانجام دیتے ہوئے مقامی لوگوں کےلئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔ قارئین کو پتا ہوگا کہ فوج کی مسلسل کوششوں کی بدولت جموں کشمیر میں حالات کافی حد تک بہتر ہوئے ہیں اور گزشتہ دہائی کے دوران، تشدد کے واقعات میں مسلسل کمی آئی ہے، 2016 کے بعد سے دراندازی کی کوششوں میں تقریباً نصف کمی آئی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں وادی کشمیر کے حالات میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اب نہ ہڑتالیں ہوتی ہیں اور ناہی بندشیں اور کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بچے بغیر کسی خوف کے سکول جاتے ہیں ۔ کاروباری سرگرمیاں اور ٹرانسپورٹر اپنا معمول کا کام چلاتے ہیں ۔ لوگوں میں عدم تحفظ کا خطرہ ختم ہوچکا ہے اور لوگ اپنے دیگر سماجی اور مذہبی رسومات آزادانہ طور پر انجام دے رہے ہیں۔ فوج اعتماد کا پل اور امنگوں کو تقویت دینے والی بھی رہی ہے۔ اس نے دہلی، ممبئی اور بنگلور جیسے شہروں میں نوجوانوں کے دوروں کے ذریعے ثقافتی تبادلے کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ہندوستانی ثقافت اور تاریخ کا تجربہ کرنے اور دقیانوسی تصورات کو توڑنے کا موقع ملا ہے۔ اس کی ایک روشن مثال رخسانہ کوثر ہے، راجوری کی ایک نوجوان خاتون، جو فوج کے تعاون سے 2009 میں ایک دہشت گرد کے سامنے نڈر بن کر کھڑی رہی ۔اور دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ۔ اس نے بعد میں کہا کہ اس کی ہمت سپاہیوں کو گاو ¿ں والوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے دیکھ کر آئی۔ اس طرح سے فوج عام لوگوں میں ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے کا کردار بھی اداکررہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج مختلف دیہی علاقوں میںولیج ڈیفنس گارڈ جیسے گروپ تیار کرکے انہیں ہتھیاروں کی تربیت فراہم کرتی ہے تاکہ عام لوگ خود سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے اہل بن جائیں ۔
جیسے کہ پہلے ہی عرض کیاجاچکاہے کہ فوج کی تعینات صرف حفاظتی اقدامات تک محدود نہیں ہے بلکہ جموں کشمیرمیں فوج خطے کی ترقی کےلئے بھی اپنا کردار اداکرتی ہے ۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں بارڈر رو ڑ آرگنائزیشن کی جانب سے سڑکیں تعمیر کی گئیں جس کی وجہ سے ان علاقوں مین لوگوں کو کافی راحت ملی اور انہیں سکولوں ، ہسپتال اور دیگر سرکاری اداروں تک رابطہ آسان ہوا۔ اسی طرح امن کے حالات نے سیاحت کو بھی فروغ دیا اور سال 2022میں 18ملین سے زیادہ سیاحوں نے جموں کشمیر کی سیر کی ۔ 1947میں یہاں پر تعیناتی کے بعد فوج نے نہ صرف عوام کی زندگی کو بہتر بنانے میں ذمہ داری سے کام کیا بلکہ ہر وقت لوگوں کو ناگہانی آفات کے دور میں مدد فراہم کی ۔ چاہئے وہ 2014کاسیلاب ہو ، یا 2005کا تباہ کن زلزلہ ہو یا پھر حالیہ موسمی صورتحال ہو جس میں خطہ جموں میں سینکڑوں افراد مارے گئے فوج نے بچاﺅ کارروائیوں کے دوران نہ صرف لوگوں کو راحت پہنچائی بلکہ لوگوں کی جان بھی بچائی ۔

