قارئین امن ، مساوات اور انصاف ہی پوری دنیا میں امن اور خیر سگالی کے جذبے کو فروغ دے سکتی ہے جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ وادی کشمیر میں کئی دہائیوں سے ایسے حالات بنے رہے جس میںامن اور سلامتی ایک حقیقت بعید تھی ۔ قارئین امن کا تصور انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے مرکزی اہمیت رکھتا آیا ہے۔ زرعی انقلاب کے ساتھ جب بستیاں بڑی اور پیچیدہ ہوئیں تو وسائل، زمین اور طاقت پر جھگڑے بھی بڑھے۔ زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے کی لالچ میں انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے ۔ لیکن انہی تبدیلیوں نے انسان کو یہ سکھایا کہ مل جل کر رہنے کے لیے تعاون، مفاہمت اور امن ناگزیر ہیں۔ قدیم تہذیبوں،میسوپوٹیمیا، مصر اور وادی سندھ میں امن معاہدوں اور سفارت کاری کی جھلک ملتی ہے، جبکہ بدھ مت، جین مت اور تاو ¿ مت جیسی روحانی روایتوں نے عدم تشدد اور رحم دلی کو سماجی اصول بنایا۔ اسی طرح کنفیوشس اور گوتم بدھ جیسے مفکرین نے انسانیت کی ترقی کے لیے مہربانی اور تعاون کو لازمی قرار دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف فلسفے اور نظریات ابھرتے گئے، جیسے “ڈیموکریٹک پیس تھیوری” جس نے جمہوریت کو جنگوں کی کمی سے جوڑا، اور کیپیٹلسٹ پیس تھیوری” جس نے معاشی تعاون کو امن کی ضمانت بتایا۔ عالمی تاریخ میں امن کی کوششیں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے لے کر اقوام متحدہ کے قیام اور عالمی یومِ امن کے اعلان تک پھیلی ہوئی ہیں۔قارئین کو بتادیں کہ ہندوستان ہمیشہ سے امن اور رواداری کی سرزمین سمجھا گیا ہے۔ یہ سرزمین انسانی ہمدردی اور مساوات کی شاہلکار رہی ہے ۔ اشوک اعظم نے کلنگ کی خونریز جنگ کے بعد عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا اور تمام مذاہب کے احترام کو اپنی پالیسی بنایا۔ اکبر اعظم نے مکالمے اور شمولیتی حکمت عملی کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا، جبکہ سکھ گرو، بالخصوص گرو نانک نے مذہبی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر انسانیت کے اتحاد پر زور دیا۔ یہی روایت آگے چل کر جدید بھارت کی بین الاقوامی سفارت کاری میں جھلکتی ہے۔ ”وسودھیو ک ±ٹمبکم“یعنی “دنیا ایک خاندان ہے کا فلسفہ آج بھی بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ یہ فلسفہ عالمی بحرانوں کے دوران اس کی انسانی امداد، افغانستان اور افریقہ جیسے ممالک میں ترقیاتی تعاون اور اقوام کے درمیان رشتوں کو مضبوط بنانے والے ثقافتی تبادلوں میں نظر آتا ہے یہی سوچ اسے عالمی بحرانوں میں انسانی ہمدردی کی مدد دینے، افریقہ اور افغانستان جیسے خطوں میں ترقیاتی تعاون فراہم کرنے اور ثقافتی تبادلے کے ذریعے دنیا کو قریب لانے پر آمادہ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کا بانی رکن ہونے کے ناطے، اور نان الائنڈ موومنٹ، جی 20 اور برکس جیسے پلیٹ فارمز پر سرگرم کردار کے ذریعے بھارت نے ہمیشہ امن، پائیدار ترقی اور باہمی سمجھوتے کی وکالت کی ہے۔
بھارت کی امن پسندی کا سب سے نمایاں مظہر اس کی فوج کا کردار ہے، جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں فعال شمولیت اختیار کی ہے۔ دنیا بھر میں 49 سے زائد امن مشنز میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی بھیجے گئے ہیں، جو اسے سب سے بڑے تعاون کاروں میں شمار کراتے ہیں۔ بھارتی سپاہیوں نے تنازع زدہ علاقوں میں نہ صرف امن قائم رکھنے کا بیڑا اٹھایا بلکہ مقامی آبادی کو انسانی امداد—دوائی، خوراک اور پناہ—بھی فراہم کی۔ ان کے رویے میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی بھی شامل رہی، جس نے انہیں عالمی سطح پر اعتماد اور احترام دلایا۔ لیکن یہ خدمات آسان نہیں تھیں160سے زائد بھارتی فوجی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ان قربانیوں نے بھارت کے امن قائم رکھنے کے عزم کو اور زیادہ مضبوط کیا ہے۔
امن قائم رکھنے کی یہ کوششیں چیلنجز سے خالی نہیں۔ بھارتی فوجی اکثر ایسے علاقوں میں تعینات ہوتے ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام، مقامی شکایات اور سخت جغرافیائی حالات درپیش ہوتے ہیں۔ وسائل کی کمی اور جدید سازوسامان تک محدود رسائی ان کی کارکردگی پر اثر ڈالتی ہے۔ ثقافتی فرق اور زبان کی رکاوٹیں مقامی برادری کے ساتھ اعتماد قائم کرنے میں وقت لیتی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھارت نے اپنی فوج کو زیادہ موثر بنانے کے لیے تربیت، ثقافتی آگاہی اور جدید ٹیکنالوجی جیسے ڈرونز اور سرویلنس سسٹمزاپنانے پر زور دیا ہے۔ ہندوستان، سب سے بڑے فوجی تعاون کرنے والوں میں ہونے کے باوجود مشن کے مینڈیٹ اور مشغولیت کے قواعد کی تشکیل میں محدود اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ حقائق امن کی کارروائیوں کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں میزبان ممالک، بین الاقوامی اداروں اور شراکت دار افواج کی توقعات اکثر مختلف ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود، ہندوستانی فوج تربیت کو مضبوط بنا کر، ثقافتی حساسیت کے لیے افواج کو تیار کر کے اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ڈرون اور جدید نگرانی کے نظام جیسی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے اپنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔مقامی برادریوں سے براہِ راست جڑنے، شفاف احتسابی نظام قائم کرنے اور دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک بڑھانے سے بھی ان کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔آگے بڑھتے ہوئے بھارت کو اپنی امن قائم رکھنے کی صلاحیت مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ بہتر تربیت، زبانوں پر دسترس اور ثقافتی حساسیت سے فوجی ہر ماحول میں زیادہ مو ¿ثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ جدید سازوسامان اور مضبوط لاجسٹک سہولیات ان کے آپریشنل خلا کو پورا کریں گی۔ سب سے بڑھ کر، شفافیت اور احتساب ان مشنز کو زیادہ بامقصد بنائیں گے۔ گاندھیائی فلسفے اور آئینی اصولوں پر قائم بھارت کی پالیسی دنیا کے بدلتے منظرنامے میں اسے امن قائم رکھنے کا ایک منفرد رہنما بناتی ہے۔بھارتی فوج کی خدمات اور قربانیاں عالمی برادری میں بھارت کی پہچان کو مستحکم کرتی ہیں۔ امن کا عالمی دن محض ایک علامت نہیں بلکہ ان اقدار کی جیتی جاگتی مثال ہے جنہیں بھارت عملی شکل دے رہا ہے۔ یہی جذبہ انسانیت کو ایک خاندان بنانے اور دنیا کو زیادہ پ ±رامن بنانے کی سمت رہنمائی کرتا ہے۔
قارئین امن ، مساوات اور انصاف ہی پوری دنیا میں امن اور خیر سگالی کے جذبے کو فروغ دے سکتی ہے جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ وادی کشمیر میں کئی دہائیوں سے ایسے حالات بنے رہے جس میںامن اور سلامتی ایک حقیقت بعید تھی ۔ قارئین امن کا تصور انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے مرکزی اہمیت رکھتا آیا ہے۔ زرعی انقلاب کے ساتھ جب بستیاں بڑی اور پیچیدہ ہوئیں تو وسائل، زمین اور طاقت پر جھگڑے بھی بڑھے۔ زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے کی لالچ میں انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے ۔ لیکن انہی تبدیلیوں نے انسان کو یہ سکھایا کہ مل جل کر رہنے کے لیے تعاون، مفاہمت اور امن ناگزیر ہیں۔ قدیم تہذیبوں،میسوپوٹیمیا، مصر اور وادی سندھ میں امن معاہدوں اور سفارت کاری کی جھلک ملتی ہے، جبکہ بدھ مت، جین مت اور تاو ¿ مت جیسی روحانی روایتوں نے عدم تشدد اور رحم دلی کو سماجی اصول بنایا۔ اسی طرح کنفیوشس اور گوتم بدھ جیسے مفکرین نے انسانیت کی ترقی کے لیے مہربانی اور تعاون کو لازمی قرار دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف فلسفے اور نظریات ابھرتے گئے، جیسے “ڈیموکریٹک پیس تھیوری” جس نے جمہوریت کو جنگوں کی کمی سے جوڑا، اور کیپیٹلسٹ پیس تھیوری” جس نے معاشی تعاون کو امن کی ضمانت بتایا۔ عالمی تاریخ میں امن کی کوششیں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے لے کر اقوام متحدہ کے قیام اور عالمی یومِ امن کے اعلان تک پھیلی ہوئی ہیں۔قارئین کو بتادیں کہ ہندوستان ہمیشہ سے امن اور رواداری کی سرزمین سمجھا گیا ہے۔ یہ سرزمین انسانی ہمدردی اور مساوات کی شاہلکار رہی ہے ۔ اشوک اعظم نے کلنگ کی خونریز جنگ کے بعد عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا اور تمام مذاہب کے احترام کو اپنی پالیسی بنایا۔ اکبر اعظم نے مکالمے اور شمولیتی حکمت عملی کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا، جبکہ سکھ گرو، بالخصوص گرو نانک نے مذہبی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر انسانیت کے اتحاد پر زور دیا۔ یہی روایت آگے چل کر جدید بھارت کی بین الاقوامی سفارت کاری میں جھلکتی ہے۔ ”وسودھیو ک ±ٹمبکم“یعنی “دنیا ایک خاندان ہے کا فلسفہ آج بھی بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ یہ فلسفہ عالمی بحرانوں کے دوران اس کی انسانی امداد، افغانستان اور افریقہ جیسے ممالک میں ترقیاتی تعاون اور اقوام کے درمیان رشتوں کو مضبوط بنانے والے ثقافتی تبادلوں میں نظر آتا ہے یہی سوچ اسے عالمی بحرانوں میں انسانی ہمدردی کی مدد دینے، افریقہ اور افغانستان جیسے خطوں میں ترقیاتی تعاون فراہم کرنے اور ثقافتی تبادلے کے ذریعے دنیا کو قریب لانے پر آمادہ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کا بانی رکن ہونے کے ناطے، اور نان الائنڈ موومنٹ، جی 20 اور برکس جیسے پلیٹ فارمز پر سرگرم کردار کے ذریعے بھارت نے ہمیشہ امن، پائیدار ترقی اور باہمی سمجھوتے کی وکالت کی ہے۔
بھارت کی امن پسندی کا سب سے نمایاں مظہر اس کی فوج کا کردار ہے، جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں فعال شمولیت اختیار کی ہے۔ دنیا بھر میں 49 سے زائد امن مشنز میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی بھیجے گئے ہیں، جو اسے سب سے بڑے تعاون کاروں میں شمار کراتے ہیں۔ بھارتی سپاہیوں نے تنازع زدہ علاقوں میں نہ صرف امن قائم رکھنے کا بیڑا اٹھایا بلکہ مقامی آبادی کو انسانی امداد—دوائی، خوراک اور پناہ—بھی فراہم کی۔ ان کے رویے میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی بھی شامل رہی، جس نے انہیں عالمی سطح پر اعتماد اور احترام دلایا۔ لیکن یہ خدمات آسان نہیں تھیں160سے زائد بھارتی فوجی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ان قربانیوں نے بھارت کے امن قائم رکھنے کے عزم کو اور زیادہ مضبوط کیا ہے۔
امن قائم رکھنے کی یہ کوششیں چیلنجز سے خالی نہیں۔ بھارتی فوجی اکثر ایسے علاقوں میں تعینات ہوتے ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام، مقامی شکایات اور سخت جغرافیائی حالات درپیش ہوتے ہیں۔ وسائل کی کمی اور جدید سازوسامان تک محدود رسائی ان کی کارکردگی پر اثر ڈالتی ہے۔ ثقافتی فرق اور زبان کی رکاوٹیں مقامی برادری کے ساتھ اعتماد قائم کرنے میں وقت لیتی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھارت نے اپنی فوج کو زیادہ موثر بنانے کے لیے تربیت، ثقافتی آگاہی اور جدید ٹیکنالوجی جیسے ڈرونز اور سرویلنس سسٹمزاپنانے پر زور دیا ہے۔ ہندوستان، سب سے بڑے فوجی تعاون کرنے والوں میں ہونے کے باوجود مشن کے مینڈیٹ اور مشغولیت کے قواعد کی تشکیل میں محدود اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ حقائق امن کی کارروائیوں کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں میزبان ممالک، بین الاقوامی اداروں اور شراکت دار افواج کی توقعات اکثر مختلف ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود، ہندوستانی فوج تربیت کو مضبوط بنا کر، ثقافتی حساسیت کے لیے افواج کو تیار کر کے اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ڈرون اور جدید نگرانی کے نظام جیسی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے اپنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔مقامی برادریوں سے براہِ راست جڑنے، شفاف احتسابی نظام قائم کرنے اور دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک بڑھانے سے بھی ان کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔آگے بڑھتے ہوئے بھارت کو اپنی امن قائم رکھنے کی صلاحیت مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ بہتر تربیت، زبانوں پر دسترس اور ثقافتی حساسیت سے فوجی ہر ماحول میں زیادہ مو ¿ثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ جدید سازوسامان اور مضبوط لاجسٹک سہولیات ان کے آپریشنل خلا کو پورا کریں گی۔ سب سے بڑھ کر، شفافیت اور احتساب ان مشنز کو زیادہ بامقصد بنائیں گے۔ گاندھیائی فلسفے اور آئینی اصولوں پر قائم بھارت کی پالیسی دنیا کے بدلتے منظرنامے میں اسے امن قائم رکھنے کا ایک منفرد رہنما بناتی ہے۔بھارتی فوج کی خدمات اور قربانیاں عالمی برادری میں بھارت کی پہچان کو مستحکم کرتی ہیں۔ امن کا عالمی دن محض ایک علامت نہیں بلکہ ان اقدار کی جیتی جاگتی مثال ہے جنہیں بھارت عملی شکل دے رہا ہے۔ یہی جذبہ انسانیت کو ایک خاندان بنانے اور دنیا کو زیادہ پ ±رامن بنانے کی سمت رہنمائی کرتا ہے۔