قارئین دنیا بھر میں ہر سال 27 ستمبر کو ”عالمی یومِ سیاحت“منایا جاتا ہے۔ یہ دن محض سفر و تفریح کے شوق کا نہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ سیاحت انسانی سماج، معیشت اور تہذیبی رشتوں کو کس طرح جوڑتی ہے۔ چونکہ وادی کشمیر ایک عالمی سیاحتی خطے کے طور پر جانا جاتا ہے اسلئے اس دن کی اہمیت یہاں زیادہ ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کے تحت یہ دن اس بات کی یاد دہانی ہے کہ سفر صرف خوشی یا تجسس کی تکمیل نہیں بلکہ ایک تبدیلی کا وسیلہ ہے۔ خاص طور پر ایسے خطوں میں، جو کبھی تنہائی، تنازع یا پسماندگی کا شکار رہے ہوں، سیاحت نئی جان ڈالنے کا کام کرتی ہے۔ اس تناظر میں جموں و کشمیر ایک نمایاں مثال ہے، جہاں سیاحت معیشت کا ستون اور ترقی کی علامت بن چکی ہے۔ دلکش جھیلوں، شاندار پہاڑوں، وسیع سبزہ زاروں اور تاریخی مقامات سے سجا یہ خطہ صدیوں سے شعراء، سیاحوں اور متلاشیوں کو اپنی جانب کھینچتا آیا ہے۔ کشمیر کے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ کشمیری مہمان نوازی، دستکاریاں اور پکوان اس خطے کو دنیا کےلئے اہم توجہ کا مرکز بناتے ہیں ۔ لیکن اس حسن کے پردے کے پیچھے ایک کٹھن تاریخ بھی ہے۔ اسی پس منظر میں آج سیاحت کی بحالی ایک بڑی کامیابی ہے، جس میں کئی عوامل کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کا کردار بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔قارئین کو پتہ ہوگا کہ وادی کشمیر گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے حالات کی شکار رہی ہے جس میں سیاحت کو سب سے زیادہ دھچکہ لگا تھا ۔جموں و کشمیر میں سیاحت صرف ایک صنعت نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کی روزی کا ذریعہ ہے۔سیاحت کے شعبے سے لاکھوں افراد براہ راست جڑے ہوئے ہیں اور یہ وادی کشمیر میں معاشی ترقی کےلئے ریڈ کی ہڈی مانی جاتی ہے ۔ یہاں کی جغرافیائی سختیاں اور غیر یقینی موسم زرعی پیداوار کو محدود رکھتے ہیں۔ ایسے میں سیاحت اس خلا کو پ ±ر کرتی ہے۔ یہ ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ، دستکاری، کھانوں اور گائیڈ سروسز کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ اس پورے سلسلے میں کاریگر، تاجر، ڈرائیور، فنکار اور چھوٹے بڑے کاروباری سب مستفید ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ مقامی ثقافت کو بھی جِلا بخشتی ہے۔ کشمیری ہنر، موسیقی، کھانے اور روایتی مہمان نوازی آج بھی سیاحوں کے ذریعے زندہ رہتے ہیں۔ ڈل جھیل، گلمرگ، سونمرگ، مغل باغات اور ویشنو دیوی و امرناتھ جیسے مقامات نہ صرف جمالیاتی دلکشی رکھتے ہیں بلکہ تہذیبی تنوع کی علامت بھی ہیں۔ یہی کشش جموں و کشمیر کو ہندوستان کی تکثیریت کا آئینہ بنا دیتی ہے۔
اکثر فوج کو صرف حفاظتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، مگر کشمیر میں اس کا کردار اس سے کہیں وسیع ہے۔ آپریشن “صدقِ دل” سد بھاوناجیسے اقدامات کے ذریعے فوج نے مقامی آبادی کے لیے سماجی اور فلاحی منصوبے شروع کیے۔ قدرتی آفات میں فوری مدد، حساس علاقوں میں امن و سکون کی فضا اور دور دراز مقامات میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر—یہ سب ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ سیاحوں کا بھی اعتماد بحال کیا۔ کئی علاقوں میں سڑکیں، پل اور کمیونٹی مراکز فوج نے تعمیر و برقرار رکھے جہاں سول انتظامیہ کی رسائی محدود تھی۔ یہی بنیاد ہے جس پر سیاحت کا پہیہ چلتا رہا ہے۔
فوج نے محض تحفظ فراہم نہیں کیا بلکہ کشمیر کی تصویر بدلنے میں بھی حصہ ڈالا۔ ٹریکنگ پروگرام، تعلیمی دورے، طبی کیمپ اور مقامی رسائی کے دیگر منصوبوں کے ذریعے اس نے اندرون و بیرون سے آنے والوں کے لیے نئی راہیں کھولیں۔ ان سرگرمیوں نے خطے کی وہ پہچان اجاگر کی جو مزاحمت اور غیر یقینی کے بجائے استقامت، مہمان نوازی اور ا ±مید کی کہانی سناتی ہے۔ یہ تاثر سازی زمینی کام جتنا ہی اہم ہے، کیونکہ سیاحت تبھی پھلتی پھولتی ہے جب مسافر خود کو محفوظ اور خوش آمدید محسوس کرے۔
اگرچہ سیاحت ترقی کا ذریعہ ہے، مگر اس راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ نازک ماحولیاتی نظام، طویل سردیاں، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور مٹی کے تودے، اور وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والی رکاوٹیں اس عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ غیر منظم اور بے قابو سیاحتی دباو ¿ ماحولیاتی آلودگی، فضلے کے انبار اور وسائل پر دباو ¿ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے مستقبل کے لیے پائیدار سیاحت ناگزیر ہے۔ ماحول دوست انفراسٹرکچر، ویسٹ مینجمنٹ، تعمیرات پر مناسب ضابطہ بندی اور مقامی برادری کی شمولیت کے بغیر یہ شعبہ دیرپا ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس مقصد کے لیے مقامی حکومت، سیاحت کے ادارے، نجی شعبہ، سول سوسائٹی اور فوج سب کو اشتراک کرنا ہوگا تاکہ فائدے سب تک پہنچیں اور ثقافتی اصلیت بھی قائم رہے۔
آج جموں و کشمیر اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ سیاحت کس طرح اعتماد بحال کر سکتی ہے، مواقع پیدا کر سکتی ہے اور اتحاد کی فضا قائم کر سکتی ہے۔ یہاں کے مناظر دلکش ضرور ہیں لیکن اصل کہانی اس سرزمین کی ہے جو اپنی شناخت نئے سرے سے تشکیل دے رہی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ سیاحت صرف تفریح نہیں بلکہ زندگیوں کو سنوارنے، معیشت کو مضبوط کرنے اور امید کا چراغ جلانے کا ذریعہ ہے۔ اس پیش رفت کے بیچ وہ خاموش کردار بھی ہے جو فوج نے ادا کیا—ایک ایسا کردار جو غیر یقینی اور ہم آہنگی کے بیچ پل کا، جمود اور ترقی کے درمیان راہ کا کام کرتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ذمہ دارانہ سیاحت کی طرف بڑھ رہی ہے، جموں و کشمیر کی یہ مثال سکھاتی ہے کہ حوصلہ، تعاون اور وڑن کے ساتھ وہ خطے بھی دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول سکتے ہیں جو کبھی نازک اور کمزور سمجھے جاتے تھے۔ یہ خطہ آج بھی اپنی فطری خوبصورتی اور انسانی ا ±میدوں کے ساتھ دنیا کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔