• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Thursday, October 30, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

من کی خوشبو: گاندھی جینتی اور وادی کے بچے

Arshid Rasool by Arshid Rasool
October 10, 2025
in اردو خبریں
A A
GANDHI JAYANTI & ITS IMPACT ON CHILDREN IN KASHMIR
FacebookTwitterWhatsapp

قارئین دنیا میں مختلف شخصیات گزری ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے سماج اور ملک کو روشنی بخشی اور سچ اور انصاف پسندی کی راہ دکھائی بلکہ پوری دنیا کو اس طرف رہنمائی کی ۔ ان ہی شخصیات میں ہمارے ملک میں مہاتما گاندھی بھی تھے جنہوںنے سچ ، انصاف ، رواداری اور مساوات کی راہ دکھائی ہے ۔ ہر سال دو اکتوبر کو جب ملک بھر میں گاندھی جینتی منائی جاتی ہے تو یہ دن محض ایک قومی تعطیل نہیں ہوتا، بلکہ سچائی، عدمِ تشدد، سادگی اور خدمت کے ا ±ن اصولوں کی یاد دلاتا ہے جن پر بھارت کی فکری بنیاد استوار ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی، جنہیں دنیا پیار سے ”باپو“ کہتی ہے، صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ ایک نظریہ ہیں ، ایک ایسا نظریہ جو انسان کو انسان سے جوڑنے کا درس دیتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ دن خاص طور پر معنی رکھتا ہے کیونکہ انہی کے دلوں میں وہ بیج بوئے جا سکتے ہیں جو کل کے پرامن سماج میں تناور درخت بنیں گے۔قارئین جموں و کشمیر کے تناظر میں گاندھی جینتی کی معنویت کچھ اور ہی ہے۔ ایک ایسا خطہ جو برسوں سے سیاسی بے یقینی، سماجی تناو ¿ اور غیر یقینی حالات سے دوچار رہا ہو، وہاں بچوں کے لیے امن، استحکام اور امید کی بات محض نظری نہیں — زندگی کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں گاندھی جینتی محض ایک تہوار نہیں رہتی بلکہ تبدیلی کے بیج بونے کا موقع بن جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں اس موقع پر “سفائی ہی سیوا 2025” مہم کے تحت اسکولوں، اسپتالوں، پارکوں اور آبی ذخائر کی صفائی کے بڑے پروگرام منعقد کیے گئے، جن میں طلبہ، اساتذہ اور عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ مناظر دراصل ا ±س اجتماعی شعور کا مظہر ہیں جو گاندھی کے فلسفے کی بنیاد ہے خدمت، خود انحصاری اور ذمہ داری۔قارئین جس طرح ملک بھر میں گاندھی جی کے فلسفے ، ان کی تعلیمات پر روشنی ڈالنے کےلئے مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح وادی کے اسکولوں اور کالجوں میں گاندھی جینتی کے موقع پر مباحثے، مضمون نویسی اور مکالماتی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں بچے گاندھیائی فلسفے کی معنویت پر غور کرتے ہیں۔ “آج کے دور میں عدمِ تشدد کی اہمیت کیا ہے؟” جیسے سوال ان مباحثوں کا محور ہوتے ہیں۔ ماحولیات اور صفائی کی مہمات میں طلبہ درخت لگاتے ہیں، پارکوں کو صاف کرتے ہیں اور پائیدار طرزِ زندگی کے بارے میں آگاہی پھیلاتے ہیں۔ کئی ادارے منشیات کے استعمال، صنفی مساوات اور سماجی ہم آہنگی جیسے مسائل پر مکالمے کرواتے ہیں تاکہ گاندھی کے نظریات محض کتابوں تک محدود نہ رہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ بنیں۔اس عمل میں حکومتی اداروں کے ساتھ پولیس اور فوج بھی شامل ہوتی ہے۔ خاص طور پر سدبھاو ¿نا پروگرام جیسے اقدامات کے تحت فوج دور دراز علاقوں کے اسکولوں میں بچوں کے ساتھ تقریبات کرتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو مرکزی دھارے سے جڑا محسوس کریں۔ جب بچے فوجی اہلکاروں کو صفائی یا شجر کاری جیسے عام مگر معنی خیز کاموں میں شامل دیکھتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں امن کا تصور ایک حقیقی امکان بننے لگتا ہے۔ان تقریبات کے اثرات وقت کے ساتھ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سے بچے اب مکالمے کو تصادم پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ سچائی، صبر اور عدمِ تشدد جیسے نظریات ان کے رویّے میں اعتماد اور وقار پیدا کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے اسکول، گلی یا پارک کی صفائی میں حصہ لیتے ہیں تو انہیں اپنے معاشرے سے وابستگی اور ملکیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے میں گاندھیائی فکر ان کے لیے محض ایک اخلاقی درس نہیں بلکہ زندگی کا عملی فلسفہ بن جاتی ہے۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ مشکلات اب بھی موجود ہیں۔ بعض اوقات یہ دن رسمی تقریبات تک محدود رہ جاتا ہے اور معاشرتی حقیقتیں ، خوف، غم اور غیر یقینی ، ان نظریات کو دھندلا دیتی ہیں۔ اگر بچوں کے ساتھ مسلسل مکالمہ، جذباتی مدد اور مقامی انداز میں تربیت نہ دی جائے تو اس مثبت اثر کی عمر مختصر رہ جاتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ گاندھیائی اصولوں کو محض تقریروں میں نہیں بلکہ تجربات میں ڈھالا جائے، خدمت، کہانیوں اور عملی مشقوں کے ذریعے۔

زمینی تجربات بتاتے ہیں کہ کشمیر کے بچے امن کے خواہاں ہیں۔ اگر انہیں مستقل طور پر امید اور مثبت مثالیں فراہم کی جائیں تو وہ اس خطے کا مستقبل بدل سکتے ہیں۔ اساتذہ، سماجی ادارے اور فوج جب ایک ساتھ رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں تو گاندھی کا خواب ایک باہمی احترام اور رواداری پر مبنی معاشرہ حقیقت کا روپ لینے لگتا ہے۔قارئین گاندھی جینتی منانے کا مقصد صرف تقاریب کا اہتمام کرنا ، ان کے فلسفے پر تقاریر کرنا نہیں بلکہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ باپو نے جو عدم تشدد کا راستہ دکھایا ہے اس پر عمل کرنا ، ناانصافی عدم مساوات اور جرائم سے کنارہ کشی کرکے اپنے معاشرے کو باپو کے خواب میں ڈھالنا ہے ۔

باپو کے الفاظ میں، “اصلی امن بچوں سے شروع ہوتا ہے۔”

اور شاید کشمیر کی سرزمین پر یہی امن، ایک دن، سب سے بڑی فتح بنے گا — دلوں کی فتح۔

قارئین دنیا میں مختلف شخصیات گزری ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے سماج اور ملک کو روشنی بخشی اور سچ اور انصاف پسندی کی راہ دکھائی بلکہ پوری دنیا کو اس طرف رہنمائی کی ۔ ان ہی شخصیات میں ہمارے ملک میں مہاتما گاندھی بھی تھے جنہوںنے سچ ، انصاف ، رواداری اور مساوات کی راہ دکھائی ہے ۔ ہر سال دو اکتوبر کو جب ملک بھر میں گاندھی جینتی منائی جاتی ہے تو یہ دن محض ایک قومی تعطیل نہیں ہوتا، بلکہ سچائی، عدمِ تشدد، سادگی اور خدمت کے ا ±ن اصولوں کی یاد دلاتا ہے جن پر بھارت کی فکری بنیاد استوار ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی، جنہیں دنیا پیار سے ”باپو“ کہتی ہے، صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ ایک نظریہ ہیں ، ایک ایسا نظریہ جو انسان کو انسان سے جوڑنے کا درس دیتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ دن خاص طور پر معنی رکھتا ہے کیونکہ انہی کے دلوں میں وہ بیج بوئے جا سکتے ہیں جو کل کے پرامن سماج میں تناور درخت بنیں گے۔قارئین جموں و کشمیر کے تناظر میں گاندھی جینتی کی معنویت کچھ اور ہی ہے۔ ایک ایسا خطہ جو برسوں سے سیاسی بے یقینی، سماجی تناو ¿ اور غیر یقینی حالات سے دوچار رہا ہو، وہاں بچوں کے لیے امن، استحکام اور امید کی بات محض نظری نہیں — زندگی کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں گاندھی جینتی محض ایک تہوار نہیں رہتی بلکہ تبدیلی کے بیج بونے کا موقع بن جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں اس موقع پر “سفائی ہی سیوا 2025” مہم کے تحت اسکولوں، اسپتالوں، پارکوں اور آبی ذخائر کی صفائی کے بڑے پروگرام منعقد کیے گئے، جن میں طلبہ، اساتذہ اور عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ مناظر دراصل ا ±س اجتماعی شعور کا مظہر ہیں جو گاندھی کے فلسفے کی بنیاد ہے خدمت، خود انحصاری اور ذمہ داری۔قارئین جس طرح ملک بھر میں گاندھی جی کے فلسفے ، ان کی تعلیمات پر روشنی ڈالنے کےلئے مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح وادی کے اسکولوں اور کالجوں میں گاندھی جینتی کے موقع پر مباحثے، مضمون نویسی اور مکالماتی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں بچے گاندھیائی فلسفے کی معنویت پر غور کرتے ہیں۔ “آج کے دور میں عدمِ تشدد کی اہمیت کیا ہے؟” جیسے سوال ان مباحثوں کا محور ہوتے ہیں۔ ماحولیات اور صفائی کی مہمات میں طلبہ درخت لگاتے ہیں، پارکوں کو صاف کرتے ہیں اور پائیدار طرزِ زندگی کے بارے میں آگاہی پھیلاتے ہیں۔ کئی ادارے منشیات کے استعمال، صنفی مساوات اور سماجی ہم آہنگی جیسے مسائل پر مکالمے کرواتے ہیں تاکہ گاندھی کے نظریات محض کتابوں تک محدود نہ رہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ بنیں۔اس عمل میں حکومتی اداروں کے ساتھ پولیس اور فوج بھی شامل ہوتی ہے۔ خاص طور پر سدبھاو ¿نا پروگرام جیسے اقدامات کے تحت فوج دور دراز علاقوں کے اسکولوں میں بچوں کے ساتھ تقریبات کرتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو مرکزی دھارے سے جڑا محسوس کریں۔ جب بچے فوجی اہلکاروں کو صفائی یا شجر کاری جیسے عام مگر معنی خیز کاموں میں شامل دیکھتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں امن کا تصور ایک حقیقی امکان بننے لگتا ہے۔ان تقریبات کے اثرات وقت کے ساتھ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سے بچے اب مکالمے کو تصادم پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ سچائی، صبر اور عدمِ تشدد جیسے نظریات ان کے رویّے میں اعتماد اور وقار پیدا کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے اسکول، گلی یا پارک کی صفائی میں حصہ لیتے ہیں تو انہیں اپنے معاشرے سے وابستگی اور ملکیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے میں گاندھیائی فکر ان کے لیے محض ایک اخلاقی درس نہیں بلکہ زندگی کا عملی فلسفہ بن جاتی ہے۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ مشکلات اب بھی موجود ہیں۔ بعض اوقات یہ دن رسمی تقریبات تک محدود رہ جاتا ہے اور معاشرتی حقیقتیں ، خوف، غم اور غیر یقینی ، ان نظریات کو دھندلا دیتی ہیں۔ اگر بچوں کے ساتھ مسلسل مکالمہ، جذباتی مدد اور مقامی انداز میں تربیت نہ دی جائے تو اس مثبت اثر کی عمر مختصر رہ جاتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ گاندھیائی اصولوں کو محض تقریروں میں نہیں بلکہ تجربات میں ڈھالا جائے، خدمت، کہانیوں اور عملی مشقوں کے ذریعے۔

زمینی تجربات بتاتے ہیں کہ کشمیر کے بچے امن کے خواہاں ہیں۔ اگر انہیں مستقل طور پر امید اور مثبت مثالیں فراہم کی جائیں تو وہ اس خطے کا مستقبل بدل سکتے ہیں۔ اساتذہ، سماجی ادارے اور فوج جب ایک ساتھ رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں تو گاندھی کا خواب ایک باہمی احترام اور رواداری پر مبنی معاشرہ حقیقت کا روپ لینے لگتا ہے۔قارئین گاندھی جینتی منانے کا مقصد صرف تقاریب کا اہتمام کرنا ، ان کے فلسفے پر تقاریر کرنا نہیں بلکہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ باپو نے جو عدم تشدد کا راستہ دکھایا ہے اس پر عمل کرنا ، ناانصافی عدم مساوات اور جرائم سے کنارہ کشی کرکے اپنے معاشرے کو باپو کے خواب میں ڈھالنا ہے ۔

باپو کے الفاظ میں، “اصلی امن بچوں سے شروع ہوتا ہے۔”

اور شاید کشمیر کی سرزمین پر یہی امن، ایک دن، سب سے بڑی فتح بنے گا — دلوں کی فتح۔

Previous Post

وادی کشمیر صرف ایک سٹریٹجک کے لحاظ سے خطہ نہیں بلکہ یہ منفرد ثقافت اور آب و ہوا کا امتزاج کا سنگ میل بھی ہے

Next Post

“Educational Projects Must Deliver Tangible Results, Timeliness Non-Negotiable”: Edu Minster Sakeena Itoo

Next Post
“Educational Projects Must Deliver Tangible Results, Timeliness Non-Negotiable”: Edu Minster Sakeena Itoo

“Educational Projects Must Deliver Tangible Results, Timeliness Non-Negotiable”: Edu Minster Sakeena Itoo

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.