• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Thursday, October 30, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home Article

اکیسویں صدی میں تصوف ہندوستان کے قلب سے روحانیت کی حکمت

الطاف میر، پی ایچ ڈی جامعہ ملیہ اسلامیہ

الطاف میر پی ایچ ڈی جامعہ ملیہ اسلامیہ by الطاف میر پی ایچ ڈی جامعہ ملیہ اسلامیہ
October 11, 2025
in Article
A A
FacebookTwitterWhatsapp

يمارياس تیزرفتار اور حد سے زیادہ جڑی بولی دنیا میں، حیان خوابشون پر الگورتھم کی حکمرانی ہے اور شناختوں کے نام پر جنگ و جدل جاری ہے، وہاں قدیم روحانی راہوں کی طرف رجوع کرنا ایک گیرانی بخل سوہن عطا کرتا ہے۔ تصوف جو اسلام کا روحانی دل ہے، آج مجاور ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ حکمت ہے، جو ہماری بگیری پولی روحوں سے براہ راست ہم کلام ہوتی ہے۔ اور یہ حقیقت سب سے زیادہ واضح طور پر بھارت میں نظر آتی ہے – جو عالمی تصوف کا قلب ہے – جہاں تصوف ایک متنوع اور اکثر پرآشوب معاشرے کے سماجی و ثقافتی تانے بانے میں گہرائی سے پیوست ہو چکا تصوف کی تعليمات محض دلجولی ہی نہیں کرتیں، بلکہ جدید زندگی کے انتقار میں راستہ دکھانے کے لیے ایک انقلابی نقشه راه بهی پیش کرتی ہیں۔ ی ایک ایسی روحانیت ہے جو حامد عقائد بالاتر ہو کر معبد. دروسی سکون اور انسانی ربط پر زور دیتی ہے ایک ایسا دور جو ان تینوں کا شدت سے طلبگار ہے۔
بھارت میں تصوف کا سفر صدیوں پہلے ان وقت شروع ہوا، جب قرون وسطی میں فارسی تصوف کی خوشبو ہواؤں کے دوش پر یہاں پہنچی ابتدائی اسلامی دنیا میں تصوف کا ظہور عادی زیادتیوں اور سماجی بدعنوانیوں کے رد عمل کے طو پر ہوا، جس کا مقصد زیدہ مراقبے اور شاعری کے ذریعے خالق حقیقی سے براہ راست رابطہ قائم کرنا تھا جب تصوف یاسی بر صغیر پہنچا تو اس نے خود کو مسلط نہیں کیا بلکہ مقامی روایات جیسے ہندو بھگتی تحریک کی والمباني عقيدت اور بدھ مت کی تفکرات عبادات کے سالم ہم آہنگ ہو کر ایک ترمی اور انفرادیت کے ساتھ جذب ہو گیا۔ یہ ہم آہنگی محلی ایک اتفاق نہیں تھی۔ صوفی بزرگوں، یا پیروں، نے بھارت کے سماجی، مذہبی اور روحانی منظرنامے میں خالق حقیقی کی جستجو کو ایک عالمگیر جذبے کے طور پر پہچانا اس امتزاج کی سب سے روشن علامت چشتیہ سلسلہ تہا. جس کی بنیاد خواجہ معین الدین چشتی نے اجمیر میں رکھی خواجہ بارہویں صدی کےبھارت میں نے کسی فتوحات کے علمبردار بن کر آئے، نہ کسی لشکر کے رکن کی حیثیت سے، بلکہ ایک مالک اور شفا بخشنے والے کے طور پر وارد ہوئے انہوں نے ایک درگاہ قائم کی، جو اپنے آفاقی محبت اور خدمت انسانیت کے پیغام کے سبب ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو اپنی جانب کھینچ لائی۔ ان کی تعلیمات کے فنا انفس کا مت جانا اور بقا ادا میں قائم رہنا جیسے تصوف کے میں تصورات کو مقبول عام بنایا، اور مریدوں کو یہ سکھایا کہ وہ ہر انسان میں ان مذید رنگ یا عقیدے سے ماورا ہو کر خدا کا عکس دیکھیں۔ دیگر روحانی مشعل برداروں نے بھی اسی راہ کو اپنایا، اور پر ایک نے ایسی جہتیں شامل کیں جنہوں نے بھارت کو مذہبی رواداری اور بھائی چارے کا ایک گوناگون و دلاویز گل دستہ بنا دیا۔ دہلی کے معروف چشتی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاء نے تعلیلوں، موسیقی اور عقیدت کے ذریعے تعلیم دی اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا جہاں امیر و غریب، روحانی برابری کے عالم یکجا ہوئے۔ انہوں نے اپنے مریدوں کو سکھایا کہ خدا کی تلاش صرف ظاہری عبادات میں نہیں، بلکہ انسان کو ایسا بننا چاہیے کہ وہ خود خدا کے نور کا مظہر بن جائے کہ رب کا نور پر پاکیزہ مخلوق میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ حضرت امیر خسرو سے قوالی ایجاد کی ایک وجد آفرین روحانی موسیقی، جو فارسی شاعری کو بندوستانی راگون ہم آہنگ کر کے مجرد
البیات کو ایک کیف اور تجربے میں ڈھال دیتی ہے پنجاب کے بزرگ صوفی بابا فرید نے اہلی شاعری کے ذریعے سکھ گرو گرنتھ کو بھی متاثر کیا، اور اسلام کو ابھرتے بولے سکھ عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک توالا روحانی سنگم تخلیق کیا یہ صوفی بزرگ گوشہ نشین درویش نہیں تھے، بلکہ وہ معاشرے کے ساتھ عملی طور پر حل ہوئے تھے حکمرانوں کو مشورے دیتے، بھوکوں کو کھانا کھلائے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتے تھے۔ انہوں نے معاشرتی انحصارہ بھروسا اور باہمی تعاون جیسے اوصاف کی تعلیم دیسوں اقدار جو آج کی دنیا بڑی حد تک فراموش کر چکی ہے۔ تصوف کا سب سے مؤثر اثر یہ تھا کہ اس نے اسلامی روایت کے صحت گیر پہلوؤں کو نرم کیا، اور بین المذاہب مکالمے، ہم آہنگی اور بقائے باہمی کو فروغ دیا ۔ یہی جذبہ ایک ہم آہنگ تمدن کی بنیاد بناء جس میں ایک ہندو، شفا کی طلب میں کسی صوفی بزرگ کی درگاہ پر معدہ ریز ہوتا، اور ایک مسلمان، وحدت کے ویدانتی تصورات سے روحانی روشنی حاصل کرتاعصر حاضر میں بھارتی صوفیانہ دانش بالہل بماري موجودہ غروریات کے مطابق اور عملی محسوس ہوتی ہے یہ ہماری سوچ میں رچی بسی ہے اور سرینگر، دیلی، اجمیر، لکھنؤ اور معیلی جیسے شہروں کی فضا میں کھلی ہوئی ہے آج کے انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ ہے وجودی لنہ ائي، فکری انتشار، تفرقہ انگیز بیانیوں، ڈیجیٹل علیحدگی اور مادہ پرستی سے پیچھا چھڑانا ان مسائل نے ہمارے احساس مقصد کا گلا گھونٹ دیا ہے، لوگوں کو نظریاتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے، اور تشدد و بے یقینی کو جنم دیا ہے۔ تصوف ان تمام رجحانات کا جواب اپنے مرکزی اصول کے ذریعے دیتا ہے: آفاقی محبت اور پر ذی روح کے لیے شفقت خواہ اس کا مذہب، ذات، طبق یاعقیدہ کچھ بھی ہو، کیونکہ پر وجود میں خدائی عکس دیکھا جاتا ہے تصوف رسومات میں فرق پر نہیں، بلکہ مشترکہ روحانی تجربات پر زور دیتا ہے صوفی بزرگوں نے سکھایا کہ خدا سے سچی محبت کی بلند ترین شکل بندوں کی خدمت ہے خصوصاً ان کی جو محروم، مظلوم اور پسماندہ ہیں یہ اصول عملی زندگی میں خیرات بھوکوں کو کھانا کہلانے، دکھی دلوں کو تسلی دینے اور پسماندہ طبقات کو ابھارتے جیسے اقدامات میں اھل جاتا ہے۔ دل کے سکون کی تلاش ذکر الہی اور سماع (روحانی موسیقی و مراقبے) کے ذریعے، جب بھارت کی تبدیلی وراثت کے ساتھ جڑتی ہے، تو ایک ہم آہنگ اور اشتراکی فضا ہے ایسی فضا جو ایک مشترکہ ثقافتی شناخت کو فروغ دیتے احمير شریف یا معیلی کے حاجی علی جیسے مزارات پر منعقد ہونے والے تہواروں میں ہر سال لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں. اور وہ معل رسومات کے لیے نہیں آئے بلکہ اجتماعی شفا کے لیے آتے ہیں۔ ایسے مقامات جہاں مختلف مذاہب، طبقوں اور ہی منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک مشترکہ انسانیت میں سکون اور قربت پائے ہیں۔
تصوف کی اہمیت صرف روحانی دائرے تک محدود نہیں، بلکہ یہ وسیع تر سماجی مسائل پر بھی محیط ہے ۔ تصوف کا مرکزی پیغام صلح کل (آفاقی امن) – نے تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی تقسیم کو پاٹنے میں کردار ادا کیا ہے، اور آج بھی یہ انتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط فکری دیوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسے بھارت میں، جو بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے، صوفی رينما بين المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے رہے ہیں، اور یہ باور کرا رہے ہیں کہ سچی عبادت وہ ہے جو ہر طرح کی سرحدوں کو ملا دے۔ مثال کے طور پر آل انڈیا صوفی کونسل شدت پسته بیانیوں کا فعال طور پر رد کرتی ہے، اور ایک ایسے بردبار اسلام کی وکالت کرتی ہے جو اس اصول پر
قائم ہے کہ کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ عالمی سطح پر بھی بھارتی تصوف مذیب یا فرقے کے نام پر ہوتے والى التبايسندی، شدت پسندی اور خونریزی کو سختی سے مسترد کرتاآج کے دور میں، جب انسانیت ماحولیاتی تباہی اور معاشرتی عدم مساوات جیسے بحرانوں سے دوچار ہے، تصوف کا تصور توحيد إعدائي وحدت) ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم قدرت اور ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہوتے ہیں اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ استحصال کے بجائے اخلاقی و متوازی طرز زندگی اپنایا جائے۔بھارتی تصوف کی روحانی دانش صرف بقا کا نسخہ نہیں، بلکہ انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک لازمی ضرورت ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ اصل قوت تم تو تفریق میں ہے اور نہ ہی غلبے میں بلکہ وہ تو محبت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں ہے ایسی محبت جو زخموں کو پھر دیتی ہے اور تضادات کو یکجا کر دیتی ہے جب دنیا مختلف بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے چاہے وہ مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات ہوں یا ثقافتی روال بھارتی صوفی نقطہ نظر یعنی بیرونی تبدیلی کے لیے اندر کی طرف جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ایک ہکار ہے کہ ہم علی کے شور کےبجائے دل کی دانائی کو پھر سے دریافت کریں، اور ایک منقسم دنیا میں ہمدردی ہم آہنگی اور قربت کو فروغ دیں بھارت جو صدیوں سے تہذیبی ہم آہنگی کا مظہر رہا ہے، آج بھی اس روحانی ورثے کا امیں ہے۔ یہ یمین یاد دلاتا ہے کہ سچی روحانیت قرار نہیں، بلک شعوری شرکت اور عملی مصروفیت کا نام ہے

Previous Post

HORTICULTURE BASED INCOME BOOSTING FOR SMALL, FARMERS IN KASHMIR VALLEYS

Next Post

بندوستان کی رنگا رنگ جمہوریت

Next Post

بندوستان کی رنگا رنگ جمہوریت

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.