• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Wednesday, October 29, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

وادی کشمیر میں باغبانی کے ذریعے دیہی معیشت کو سہارا دینے کا سفر

Arshid Rasool by Arshid Rasool
October 12, 2025
in اردو خبریں
A A
Nature’s Harvest of Kashmir
FacebookTwitterWhatsapp

وادی کشمیر کو قدرت نے بیش بہا خزانوں سے مالا مال کردیا ہے ۔ پانی کی بہتات، آبی ذخائر ، سرد اور متعدل آب ہوا جو اس کوزرخیز بناتی ہے ۔ وادی کشمیر ہمیشہ سے اپنے حسن، فضا، اور دلکش مناظر کے لیے جانی جاتی رہی ہے، مگر اس حسن کی جڑیں زمین کے اندر چھپی ہوئی ہیں ۔ اس مٹی میں، جس نے نسلوں کو پال رکھا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں کے دامن میں اگنے والے سیب، چیری، بادام اور زعفران نہ صرف کشمیری ثقافت کی پہچان ہیں بلکہ ہزاروں چھوٹے کسانوں کے خوابوں، محنت اور روزگار کا سہارا بھی۔ آج جب روایتی کھیتی باڑی کم منافع بخش ہو گئی ہے، تو باغبانی ہی وہ نیا دروازہ ہے جو وادی کے کسانوں کو خود کفالت اور خوشحالی کی راہ دکھا رہا ہے۔قارئین کو معلوم ہوگا کہ کاشتکاری سے یہاں کی قریب 70فیصد آبادی جڑی ہوئی ہے خاص کر میوہ صنعت یہاں پر معیشت کی ریڑ ھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے جس سے لاکھوں لوگ بلواسطہ یا بلواواسطہ جڑے ہوئے ہیں ۔وادی کشمیر میں باغبانی محض پیشہ نہیں بلکہ طرزِ زندگی ہے۔ کبھی ایک وقت تھا جب کسان اپنی زمین پر دھان اور گندم بویا کرتے تھے، مگر اب بدلتے موسم، محدود زمینوں اور بڑھتی ضروریات نے انہیں پھلوں کی کاشت کی طرف مائل کیا ہے۔ سیب کی کاشت، جو کبھی محض چند وادیوں تک محدود تھی، اب پورے خطے میں ایک منظم معیشت کا روپ دھار چکی ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ باغبانی اس وقت جموں و کشمیر کی مجموعی پیداوار میں تقریباً 8 فیصد حصہ ڈالتی ہے، اور اس شعبے سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ساڑھے تین ملین افراد جڑے ہوئے ہیں۔ صرف سیب کے باغات تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہیکٹر زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، جو وادی کی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ایک کاشتکار نے بتایا کہ “میرے والد بھی سیب اگاتے تھے، مگر ا ±ن کے وقت میں درختوں کو پھل دینے میں دس سال لگتے تھے۔ اب نئی ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن سے صرف تین سال میں ہی پھل آنا شروع ہو جاتا ہے۔ زمین بھی کم لگتی ہے اور کمائی زیادہ۔”یہ “ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن” دراصل جدید باغبانی کا ایک نمونہ ہے، جس میں درخت چھوٹے مگر زیادہ تعداد میں لگائے جاتے ہیں۔ فی ہیکٹر پیداوار روایتی طریقے سے تین سے چار گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ حکومت نے اس نظام کو فروغ دینے کے لیے مشن فار انٹیگریٹڈ ڈیولپمنٹ آف ہارٹیکلچر (MIDH)کے تحت خصوصی اسکیمیں شروع کی ہیں، تاکہ چھوٹے کسان کم وقت میں زیادہ منافع حاصل کر سکیں۔اگرچہ سیب کشمیری باغبانی کی جان ہے، مگر صرف ایک فصل پر انحصار خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کئی کسان اب چیری، ناشپاتی، خوبانی، اخروٹ اور بادام جیسی متنوع فصلیں بھی اگانے لگے ہیں۔ اس تنوع سے نہ صرف خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ آمدنی کے ذرائع بھی بڑھتے ہیں۔بارہمولہ کی شکیلہ بانو، جو اپنے شوہر کے ساتھ تین کنال زمین پر چیری اور آلو بخارہ اگاتی ہیں، کہتی ہیں، “پہلے ہم صرف سیب لگاتے تھے، مگر اب مختلف فصلوں سے آمدنی سارا سال چلتی رہتی ہے۔ اگر ایک مارکیٹ میں قیمت گرتی ہے تو دوسری فصل سہارا دے دیتی ہے۔یہ تنوع صرف پھلوں تک محدود نہیں۔ فلوریکلچر یعنی پھولوں کی کاشت، اور موسم سے ہٹ کر سبزیوں کی پیداوار بھی ایک نئی مارکیٹ بنا رہی ہے۔ سرینگر، بڈگام اور گاندربل کے آس پاس کے علاقوں میں نوجوان کسان پھولوں کی نرسریاں اور سبزیوں کے گرین ہاو ¿س قائم کر رہے ہیں، جو نہ صرف مقامی طلب پوری کرتے ہیں بلکہ برآمد کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔کئی دہائیوں سے کشمیر کے کسان خام پھل بیچنے تک محدود رہے ہیں۔ لیکن آج دنیا بھر میں “ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس” یعنی ایسی مصنوعات جن میں بنیادی فصل کو کسی شکل میں بدلا جائے کی مانگ بڑھ رہی ہے۔سیب کا جوس، اخروٹ کا تیل، خشک خوبانیاں، زعفران پر مبنی صابن اور خوشبوئیں ، یہ سب وہ مصنوعات ہیں جن کی قیمت عام پھلوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔سوپور کے ایک نوجوان فارمرانٹرپرینیور عاقب نذیرنے بتایاکہ “میں نے اپنے گاو ¿ں میں چھوٹا پروسیسنگ یونٹ لگایا ہے۔ ہم اخروٹ سے تیل نکالتے ہیں اور خوبانی خشک کر کے پیک کرتے ہیں۔ اب ہم سیدھا آن لائن فروخت کرتے ہیں۔ کسان خود اگر تھوڑا ہمت کرے تو بیچوالوں پر انحصار ختم ہو سکتا ہے۔”اسی سمت میں حکومت کی مدد سے کئی فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز بنائی جا رہی ہیں، جو چھوٹے کسانوں کو مل کر کام کرنے، پروسیسنگ، پیکیجنگ اور مارکیٹنگ کی تربیت دینے میں مدد کر رہی ہیں۔کشمیری پھلوں کو ہمیشہ سے عالمی سطح پر مانگ حاصل رہی ہے، لیکن کسانوں کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ بیچوالے اصل منافع کھا جاتے ہیں۔ اگر کسانوں کو براہِ راست منڈی تک رسائی مل جائے ، چاہے وہ دہلی کی مارکیٹ ہو یا دبئی کی — تو ان کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ممکن ہے۔اسی مقصد کے لیے “کشمیر آرگینک” یا جی آئی ٹیگڈ برانڈز کے تحت مخصوص مصنوعات کی پہچان دی جا رہی ہے، تاکہ کشمیری پیداوار عالمی سطح پر اپنی ساکھ قائم کرے۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز جیسے ایمیزون اور فلیپ کارٹ پر بھی اب “کشمیر مارٹ” کے نام سے کئی مصنوعات دستیاب ہیں، جو مقامی کسانوں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔وادی کے کسانوں کے لیے سب سے بڑا نقصان فصل کی کٹائی کے بعد ہوتا ہے۔ ناقص کولڈ اسٹوریج، محدود ٹرانسپورٹ اور غیر معیاری پیکیجنگ کی وجہ سے لاکھوں روپے کی پیداوار ضائع ہو جاتی ہے۔ اگرچہ سرینگر، شوپیان اور سوپور میں کچھ کولڈ اسٹوریج یونٹس قائم کیے گئے ہیں، مگر ان کی تعداد ناکافی ہے۔ “ہمارا زعفران سونا ہے، مگر اگر اسے ٹھیک سے محفوظ نہ رکھا جائے تو قیمت آدھی رہ جاتی ہے۔ ہمیں اسٹوریج اور برانڈنگ میں مدد چاہیے، صرف نعرے نہیں۔”یہ مسئلہ صرف زعفران تک محدود نہیں۔ سیب، چیری اور اخروٹ کے لیے کولڈ چین نیٹ ورک، ماڈرن پیکنگ ہاو ¿سز، اور ٹرکنگ انفراسٹرکچرکی فوری ضرورت ہے، تاکہ کسانوں کو بروقت، منصفانہ قیمتیں مل سکیں۔باغبانی کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے صرف زمین کافی نہیں، علم اور تربیت لازمی ہے۔ جدید باغبانی میں پیڑوں کی تراش خراش، کیڑوں سے تحفظ، موسمی توازن اور مارکیٹ کے رجحان کا ادراک ضروری ہے۔ اس کے لیے زرعی تربیتی مراکز فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ساتھ ہی، کم سود پر زرعی قرضے اور فصل بیمہ اسکیمیںکسانوں کو قدرتی آفات جیسے برفباری، طوفان یا بارشوں کے اثرات سے بچا سکتی ہیں۔کشمیر کے باغات صرف آمدنی کا ذریعہ نہیں بلکہ اس خطے کی ثقافتی روح ہیں۔ موسمِ بہار میں کھلنے والے سیب کے پھول، خزاں میں سرخ ہوتے باغ، اور سردیوں میں درختوں پر پڑی برف، یہ سب کشمیری زندگی کی علامتیں ہیں۔ باغبانی یہاں کے لوگوں کے دلوں میں رچی بسی ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہی محبت ایک مضبوط معیشت میں ڈھل جائے۔اگر حکومت، ماہرین، اور کسان ایک مشترکہ وڑن کے ساتھ آگے بڑھیں — جس میں جدید ٹیکنالوجی، براہِ راست مارکیٹنگ، اور مقامی برانڈنگ شامل ہو — تو وادی کشمیر نہ صرف قدرتی حسن بلکہ باغبانی پر مبنی خوشحالی کی بھی مثال بن سکتی ہے۔آخرکار، کشمیر کے لیے یہ صرف ایک اقتصادی ضرورت نہیں، بلکہ زمین سے جڑے رہنے کا عہد بھی ہے — اس عہد کا جو نسلوں سے اس وادی کو زرخیز بناتا آیا ہے۔

 

Previous Post

Kashmir’s Creative Spirit Shines as 2nd Literature Festival 2025 Concludes at SKICC

Next Post

کشمیر کی سیاحت صرف معیشت نہیں، خطے کی روح کی عکاسی

Next Post
GROWING TOURISM AND ITS IMPORTANCE FOR KASHMIR

کشمیر کی سیاحت صرف معیشت نہیں، خطے کی روح کی عکاسی

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.