قارئین گزشتہ چند برسوں کے دوران جموں کشمیر میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہے جہاں امن وقانون کی صورتحال بہتر ہوئی ہے وہیں تعمیر و ترقی کانیا دور شروع ہواچکا ہے ۔ا س بیچ روزگار کے وسائل بھی بڑھے ہیں ۔ قارئین کشمیر کی کہانی اب صرف وادی کے حسن یا تنازعے تک محدود نہیں رہی ، یہ اب خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے والوں کی سرزمین بن چکی ہے۔ ایک نئی نسل، جو بندشوں سے نہیں بلکہ امکانات سے پہچانی جاتی ہے، خاموشی سے ایک معاشی انقلاب کی بنیاد رکھ رہی ہے۔یہ انقلاب بندوقوں کے شور سے نہیں، بلکہ چھوٹے کاروباروں، دستکاری، ٹیکنالوجی، تعلیم اور ہنر مندی سے جنم لے رہا ہے۔ اس کا نام ہے اختراعی معیشت ’انٹر پرنیورشپ’ اور یہی آج کے کشمیر میں خود انحصاری اور وقار کی سب سے مضبوط بنیاد بن چکی ہے۔کشمیر کی معیشت برسوں تک سیب، زعفران اور پشمینہ شالوں کی پیداوار پر انحصار کرتی رہی۔ لیکن سیاسی بے یقینی، کمزور مارکیٹوں اور روایتی طریقوں نے ان شعبوں کی رفتار سست کر دی تھی۔ ایسے میں نوجوانوں نے ایک نیا راستہ چ ±نا ”اپنا کام خود شروع کرنا، اپنی شناخت خود بنانا۔
کاروبار کے یہی ننھے بیج آج ایک بڑے معاشی درخت کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مرد و خواتین دونوں اس تبدیلی کے کردار ہیں، مگر خواتین کی شرکت نے اس کہانی کو خاص معنویت بخشی ہے۔ تعلیم، تربیت اور خود اعتمادی کے سہارے وہ گھروں کی دیواروں سے نکل کر معیشت کا حصہ بن رہی ہیں۔سیب، زعفران اور اخروٹ کے باغ اب صرف فصل نہیں دیتے بلکہ کاروباری ماڈل بھی بن چکے ہیں۔ جدید زرعی طریقے، نئی مارکیٹنگ حکمتِ عملیاں اور برآمدات میں اضافہ، یہ سب نوجوان کسانوں کی اختراعی سوچ کا نتیجہ ہیں۔
دوسری طرف، کشمیر کے دستکار ، جن کے ہاتھ پشمینہ، قالین اور لکڑی کے فن میں جادوگری دکھاتے ہیں ، اب آن لائن مارکیٹوں سے ج ±ڑ کر عالمی خریداروں تک پہنچنے لگے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کاریگر، جو کبھی محدود دائرے میں کام کرتیں، اب کوآپریٹو سوسائٹیوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمزکے ذریعے معاشی آزادی حاصل کر رہی ہیں۔کشمیر کی قدرتی خوبصورتی ہمیشہ سے روزگار کا ذریعہ رہی ہے، مگر اب یہ سیاحت صرف موسم کی محتاج نہیں رہی۔ نوجوان کاروباری حضرات نے ایکو ٹورزم، ایڈونچر ٹورزم اور ہوم اسٹے پروگرامز کے ذریعے اس شعبے کو نیا روپ دیا ہے۔عورتیں بھی اب اس میدان میں قدم رکھ رہی ہیں ۔ کبھی بطور میزبان، کبھی بطور گائیڈ، اور کبھی کسی چھوٹے کیفے یا گیسٹ ہاو ¿س کی مالک کے طور پر۔یہ راستہ آسان نہیں۔ سرمایہ حاصل کرنا آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ بینک اب بھی ضمانت کے بغیر قرض دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ سیاسی غیر یقینی، بندشیں، انٹرنیٹ کے مسائل، اور کمزور بنیادی ڈھانچہ اکثر کاروباروں کو متاثر کرتا ہے۔
خاص طور پر خواتین کے لیے سماجی رویّے ایک اور رکاوٹ ہیں ، نقل و حرکت کی پابندیاں، گھر اور کام کے توازن کا دباو ¿، اور مرد وراثت کی ترجیح جیسے روایتی تصورات۔ مگر اس کے باوجود، وہ ہار نہیں مان رہیں۔قارئین ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر میںسٹارٹ اپ پالیسی نے نوجوانوں کے لیے ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے۔ جموں و کشمیر اسٹارٹ اپ پلیٹ فارم” کے تحت تربیت، سرمایہ، اور رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔اسی طرح خواتین کے لیے تیجسونی ، سٹیٹ وومن ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے آسان قرضے، اورامیدو ساتھ جیسے پروگرام نہ صرف مالی مدد دیتے ہیں بلکہ انہیں سماجی سطح پر بااختیار بناتے ہیں۔کشمیر میں اب کاروبار صرف معیشت نہیں، سماجی تبدیلی کی علامت بھی بن چکا ہے۔ عورت جب اپنا کام شروع کرتی ہے تو وہ صرف اپنی آمدنی نہیں بڑھاتی، بلکہ اپنے گھر میں سوچ بدلتی ہے۔
خواتین کاروباری شخصیات اب اپنے گاو ¿ں اور شہر کی نئی نسل کے لیے ”رول ماڈل“بن رہی ہیں۔ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے مارکیٹ کی حدود توڑ رہی ہیں، اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کر رہی ہیں، اور ایک نئے کشمیر برینڈ کی بنیاد رکھ رہی ہیں ، جو خود انحصار، پ ±راعتماد اور جدید ہے۔قارئین کشمیر کا مستقبل ان نوجوانوں اور خواتین کے ہاتھ میں ہے جو محض نوکری تلاش نہیں کر رہے، بلکہ روزگار تخلیق کر رہے ہیں۔ یہی وہ قوت ہے جو خطے کی معیشت کو پائیدار اور خود کفیل بنا سکتی ہے۔
معاشی خود مختاری صرف دولت کا سوال نہیں، یہ عزتِ نفس، فیصلہ سازی اور معاشرتی برابری کا مسئلہ بھی ہے۔ جب مرد و عورت دونوں اس سفر میں شریک ہوں تو ترقی صرف اقتصادی نہیں، تہذیبی بھی ہوتی ہے۔کشمیر کی نئی نسل اب “روزگار کے انتظار” سے نکل کر “روزگار کے خالق” بننے کی سمت بڑھ رہی ہے۔ یہی اصل خود انحصاری ہے جہاں محنت، ہنر اور امید مل کر ایک نئے کل کی بنیاد رکھتے ہیں۔

