ہمالیائی پہاڑی سلسلہ کے بیچ واقع خوبصورت وادی کشمیر محض ایک زمین کاٹکڑا نہیں ہے بلکہ یہ نہ صرف قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے بلکہ یہ جغرافیہ، تہذیب اور اسٹریٹجک اہمیت کا حسین امتزاج ہے۔ برف پوش چوٹیوں، سرسبز وادیوں اور بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل یہ خطہ بیک وقت قدرت کا شاہکار بھی ہے اور برصغیر کی دفاعی حکمتِ عملی کا محور بھی۔ یہاں کے مناظر جہاں سیاحوں کو مسحور کرتے ہیں، وہیں یہی زمینی ساخت اس خطے کو جنوبی ایشیا کی سیاسی حرکیات میں ایک کلیدی حیثیت عطا کرتی ہے۔جموں و کشمیر کا جغرافیہ مختلف پہاڑی نظاموں اور آبی گزرگاہوں سے عبارت ہے جنہوں نے اس کے سیاسی، معاشی اور عسکری خدوخال متعین کیے ہیں۔ شمالی سمت میں قراقرم سلسلہ کوہ اپنی فلک بوس چوٹیوں کے ساتھ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ انہی برفانی چوٹیوں میں سالطورو کانگری اور سیا کانگری جیسے عظیم پہاڑ شامل ہیں، جبکہ دنیا کا بلند ترین متنازعہ گلیشیئر سیاچن بھی اسی خطے میں واقع ہے، جو دفاعی اعتبار سے بھارت کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔کیوں کہ اس دنیا کے بلند ترین میدان جنگ اور گلیشئر میں ایک طرف پاکستان تو دوسرے طرف چین کی سرحدیں بھارتی سرحدوں سے ملتی ہیں ۔ قراقرم کے جنوب میں پھیلا زنسکار سلسلہ، لداخ کے وادیاں اور دریائے سندھ کے سنگلاخ کنارے اس خطے کو ایک خاص جغرافیائی شناخت دیتے ہیں۔ لداخ کی بلندیوں پر بسا لیہ، ان ہی دشوار گزار پہاڑی راستوں کے درمیان انسانی جرات و بقا کی علامت بن چکا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلے محض قدرتی ڈھانچے نہیں بلکہ وہ قدرتی قلعے ہیں جو سرحدی استحکام اور فوجی نقل و حرکت میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔اس خطے کا آبی نظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔ دریائے سندھ، جو تبت سے نکل کر لداخ سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اس علاقے کے آبی وسائل کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔قارئین جیسے کہ یہ بات من و شمس کی طرح عیاں ہے کہ جموں و کشمیر جو کہ ایک پہاڑی خطہ ہے میں بے شمار آبی ذخائر موجود ہیں جن میں بڑے بڑے دریاء جو نہ صرف اس خطے کو سیراب کرتے ہیں اور اس کی زمین کو زرخیزبناتے ہیں بلکہ یہ دیگر ممالک کو بھی پانی فراہم کرتا ہے ۔ جہلم، جو ویرناگ کے چشمے سے جنم لے کر وادی کشمیر سے گزرتی ہے، صدیوں سے زراعت اور تجارت کی بنیاد رہی ہے۔ چناب دریائے ہند کے معاون ندیوں میں سب سے طاقتور ہے، جو جموں کے راستے بہتے ہوئے پن بجلی اور آبپاشی کے لیے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ایک طرف دریائے جہلم جنوب سے لیکر شمال تک کشمیر کو سیراب کرتے ہیں وہیں یہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے ہوتے ہوئے پاکستان کے دریائوں سے مل جاتا ہے اس طرح سے یہ دریائے کروڑوں لوگوں کی زندگی کیلئے ایک امید ہے ۔ دوسری طرف دریائے چناب اور ستلج راوی پاکستان اور پنجاب و دیگر خطوں کو سیراب کرتا ہے ۔ پانی ہی نہیں، جھیلیں بھی اس خطے کے حسن اور ماحولیاتی توازن کی ضامن ہیں۔ وْلر جھیل ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیلوں میں شمار ہوتی ہے، جو نہ صرف سیاحت بلکہ حیاتیاتی تنوع کا مرکز ہے۔ وادی کشمیر، جو عظیم ہمالیہ اور پیر پنجال کے درمیان واقع ہے، اپنی زرخیزی، کثافتِ آبادی اور فطری حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔جنوبی جموں کا علاقہ نسبتاً ہموار، معتدل آب و ہوا والا اور زرعی طور پر خوشحال ہے۔ یہاں کے میدان اور ٹیلے نہ صرف پیداوار میں نمایاں ہیں بلکہ نقل و حمل اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکزی گزرگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، لداخ کا صحرائی خطہ ایک بالکل مختلف منظر پیش کرتا ہے ایک بلند، خشک اور سرد خطہ جہاں انسان اور فطرت کے درمیان زندگی ایک مسلسل آزمائش ہے۔ یہاں کے درّے جیسے زونجی لا، کارگل، کھردونگ لا اور چانگ لا فوجی نقل و حرکت اور سال بھر کی رسائی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔یوں کشمیر کا جغرافیہ صرف حسنِ فطرت کا آئینہ نہیں بلکہ اس کی دفاعی، سیاسی اور معاشی حکمتِ عملی کا مرکز بھی ہے۔ اس خطے کی جغرافیائی ساخت نہ صرف بھارت کی سلامتی پالیسی کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے استحکام میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔آخرکار، جموں و کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو سمجھنا محض نقشوں کا مطالعہ نہیں، بلکہ ایک ایسے خطے کو پہچاننے کے مترادف ہے جو قدرت، تاریخ اور سیاست — تینوں کے سنگم پر کھڑا ہے۔ جیسے جیسے عالمی سیاست کی سمتیں بدل رہی ہیں، ویسے ویسے اس خطے کی جغرافیائی اہمیت مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کا جغرافیہ صرف زمین کا نہیں، تقدیر کا بھی جغرافیہ ہے۔کشمیر کو ہمیشہ سے ہی دفاعی لحاظ سے اہم تصور کیا جاتا رہا ہے البتہ اس خطے کو صرف دفاعی سٹریٹجک خطہ کی نظر سے ہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اس کی قدرتی ہیت اور خوبصورت ، جغرافیائی لحاظ اور تہذیب و تمدن و کلچر کے ایک منفرد خطے کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہئے جس کی حفاظت اور اس کی وحدانیت کو برقرار رکھنا ضروری ہے ۔

