• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Wednesday, October 29, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

بندوقوں کے سائے سے نکل کر سکول کے کلاس تک

Khizr Muhammad by Khizr Muhammad
October 22, 2025
in اردو خبریں
A A
دائرے توڑتے ہوئے :مسلم تخلیق کار بھارت میں کثرت پسندی کا تصور از سر نو وضع کررہے ہیں 
FacebookTwitterWhatsapp

قارئین وادی کشمیر جو کہ پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کےلئے مشہور ہے جہاں بھائی چارہ اور ہم آہنگی ایک رواج تھی وہیں گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کا نام جب بھی عالمی منظرنامے پر آتا ہے تو ذہن میں بندوقوں کی گھن گرج، کرفیو کی اذیت اور لاشوں کی خاموشی ابھر آتی ہے۔ایک طویل مدت تک وادی کشمیر کے سبزہ زار ، گلپوش وادیاں ، باردود کی گند اور خون آلود ماحول سے آلودہ رہی ۔ جس کےلئے ہمارا پڑوسی ملک ذمہ دار رہا ہے ۔ قارئین پاکستان کی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گردی نے نہ صرف وادی کی فضا کو بارود سے آلودہ کیا بلکہ یہاں کی نسلوں سے بچپن، مسکراہٹ اور یقین چھین لیا۔ مگر اسی بارود کی بو کے درمیان ایک خاموش انقلاب جنم لے رہا ہے ، ایسا انقلاب جو بندوقوں سے نہیں بلکہ کتابوں سے برپا ہو رہا ہے۔قارئین ہر ایک دور کا اپنا وقت ہوتا ہے نہ ظلم رہتا ہے اور ناہی زبردستی ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بھی کروٹ لیتے ہیں جیسے کہ وادی کشمیر ماضی میں کئی ادوار کی شاہد رہی ہے ۔ تاہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کےلئے تعلیم ہی بنیادی ذریعہ ہے ۔ وادی کشمیر میں تعلیم، جو کبھی بدامنی کی سب سے بڑی قربانی تھی، آج آہستہ آہستہ امن، مفاہمت اور سماجی تبدیلی کا سب سے طاقتور ذریعہ بن رہی ہے۔دنیا کے چند ہی خطے ایسے ہیں جہاں تعلیمی نظام کو اتنی بار، اتنی شدت سے زک پہنچی ہو جتنی کشمیر میں۔ مسلح جھڑپوں، ہڑتالوں، کرفیو اور خوف کے سبب اسکولوں کا تعلیمی کیلنڈر ہمیشہ غیر یقینی رہا۔ بعض برسوں میں طلبہ کو سال بھر کے آدھے بھی تعلیمی دن نصیب نہ ہوئے۔2016 سے 2019 کے درمیان وادی میں 30 سے زائد اسکول نذرِ آتش کر دیے گئے۔ جلے ہوئے کلاس روم محض اینٹوں کا ڈھیر نہیں تھے، بلکہ ایک نسل کے گمشدہ خوابوں کی علامت تھے۔ ہر بند اسکول صرف تعلیمی نقصان نہیں، بلکہ ذہنی اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بھی بنا۔یونیسف اور مقامی این جی اوز کے مطابق، کشمیر کے تنازعہ زدہ علاقوں میں تقریباً 75 فیصد خاندانوں نے بتایا کہ ان کے بچوں کی تعلیم براہِ راست خوف یا تشدد سے متاثر ہوئی۔ طویل بدامنی اور عسکری موجودگی کے باعث بچوں میں اضطراب، ڈپریشن اور جارحانہ رویے بڑھ گئے ہیں۔معاشی بحران نے زخم مزید گہرے کر دیے۔ کئی والدین روزگار کے نقصان کے باعث فیس یا سفری اخراجات برداشت نہ کر سکے، جس کے نتیجے میں خاص طور پر لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے کشمیر کا نام تشدد، کرفیو اور پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے جڑا رہا ہے۔ نسلیں گولیوں کی گونج، بندوقوں کے سایوں اور سیاسی بے یقینی میں پروان چڑھیں۔ مگر خاردار تاروں، بنکروں اور خوف کے پردوں کے پیچھے، خاموشی سے ایک اور انقلاب جنم لے رہا ہے — ایسا انقلاب جو بندوقوں سے نہیں، بلکہ کتابوں سے برپا ہے۔ تعلیم، جو کبھی بدامنی کی پہلی قربانی تھی، اب وادی کے زخموں کو بھرنے، سوچ بدلنے اور پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کا سب سے مو ¿ثر وسیلہ بن چکی ہے۔قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ کشمیر کا تعلیمی نظام مسلسل غیر یقینی کا شکار رہا ہے۔ ہڑتالیں، کرفیو، انکاو ¿نٹر اور خوف نے نصابی دنوں کو آدھا کر دیا۔ کئی برس ایسے بھی گزرے جب بچوں نے بمشکل اسکول کا آدھا سال دیکھا۔اقوامِ متحدہ اور مقامی تنظیموں کے مطابق، کشمیر کے 75 فیصد خاندانوں نے محسوس کیا کہ ان کے بچوں کی تعلیم براہِ راست تشدد یا خوف سے متاثر ہوئی۔ اس کے نتیجے میں طلبہ میں اضطراب، مایوسی اور جارحیت میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی، معاشی زوال نے والدین کو بے بس کر دیا۔ بہت سے گھروں میں نقل و حمل یا ٹیوشن کی گنجائش نہ رہی، اور سب سے پہلے قربانی دی گئی لڑکیوں کی تعلیم نے۔ پلوامہ کی ایک طالبہ کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں،“جب اسکول بند ہوئے، میں پڑھنا چاہتی تھی، مگر سڑکیں بند تھیں، انٹرنیٹ بند تھا۔ لگا جیسے ہمارے خواب بھی کتابوں کے ساتھ جل گئے ہوں۔”پھر بھی، اسی مایوسی کے بیچ علم کی تڑپ نے نئی جان پائی۔ کشمیر میں تعلیم اب محض نصاب نہیں رہی، یہ مزاحمت کی علامت بن گئی ہے — وہ مزاحمت جو بندوق کے خلاف نہیں، بلکہ جہالت کے خلاف ہے۔ امن کی تعلیم نے اس جدوجہد کو ایک نئی جہت دی ہے۔امن کی تعلیم بچوں کو الف، ب اور جمع تفریق سے آگے سکھاتی ہے ،وہ انہیں مکالمہ، برداشت، ہمدردی اور احساسِ ذمہ داری سکھاتی ہے۔ یہ کلاس روم کو ایک محفوظ پناہ گاہ بناتی ہے جہاں خوف نہیں، اعتماد بولتا ہے۔ جہاں سوال دبائے نہیں جاتے بلکہ سنے جاتے ہیں۔سن 2020 سے 2025 کے دوران HCL فاو ¿نڈیشن کے تعاون سے “بال رکھشا بھارت” پروگرام کے تحت بڈگام اور لیہہ کے 60 سے زائد سرکاری اسکولوں میں امن و سلامتی کی تعلیم شامل کی گئی۔ اساتذہ کو جذباتی ذہانت، تنازعات کے حل اور بچوں کی نفسیاتی ضروریات کے حوالے سے تربیت دی گئی۔ طلبہ نے امن کلب قائم کیے جہاں وہ غصے کے نظم، صنفی مساوات اور مو ¿ثر گفتگو جیسے موضوعات پر بات کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسکولوں میں غیر حاضری کم ہوئی، تشدد اور بدسلوکی کے واقعات گھٹے، اور کلاس رومز میں ہم آہنگی بڑھی۔اسی طرح، سنٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ری کنسلی ایشن اور اسٹینڈنگ ٹوگیدر ٹو ایبل پیس” جیسی تنظیموں نے کشمیر میں نوجوانوں کی قیادت میں مکالمے اور امن کی تربیت کی نئی راہیں کھولیں۔ ان کے کیمپوں میں کہانیاں، فن اور مراقبہ کے ذریعے طلبہ کو دکھ اور خوف سے نکل کر امید کی سمت لایا گیا۔ ایک استاد نے بتایاکہ “میں نے پہلی بار جانا کہ کسی بچے کے درد کو سننا بھی سکھانے کا حصہ ہے۔ اب ہم صرف مضامین نہیں پڑھاتے، ہم ہمدردی پڑھاتے ہیں۔”کھیلوں نے بھی امن کا غیر متوقع دروازہ کھولا۔ بڈگام، کپواڑہ اور لیہہ میں ”اسپورٹس فار چینج“ پروگرام کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ٹورنامنٹس نے دشمنی کے بجائے مکالمے کو جنم دیا۔ ترال کا ایک نوجوان جو پہلے پتھر اٹھاتا تھا، آج بچوں کو والی بال سکھاتا ہے۔ وہ مسکرا کر کہتا ہے،“پہلے میں پتھر اٹھاتا تھا، اب گیند۔ وہ ہلکی ہے، مگر طاقت زیادہ رکھتی ہے۔ڈیجیٹل انقلاب نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ نوکیا کے “اسمارٹ پور” مراکز نے بڈگام اور کولگام کے دیہی علاقوں میں آن لائن کلاسوں کا نظام قائم کیا، خاص طور پر ان دنوں جب انٹرنیٹ بند تھا۔ کووِڈ کے دوران یہی مراکز طلبہ کے لیے تعلیم کا واحد سہارا بنے۔ان سب کوششوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ مقامی سطح پر جڑی ہوئی ہیں۔ والدین، اساتذہ، امام، پنچ اور سماجی کارکن سب اس میں شریک ہیں۔ کمیونٹی ڈائیلاگ سیشنز میں بچوں کے حقوق، تحفظ اور ذہنی صحت پر کھل کر بات ہوتی ہے۔ یوں اسکول اب صرف تعلیمی ادارے نہیں بلکہ امن کے مراکز بنتے جا رہے ہیں۔تاہم، چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ امن کی تعلیم تاحال ریاستی نصاب کا باضابطہ حصہ نہیں۔ اساتذہ کی تربیت ناکافی ہے، لڑکیوں کے لیے نقل و حرکت کے مسائل برقرار ہیں، اور نفسیاتی امداد کا فقدان ہے۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان پائلٹ منصوبوں کو پالیسی میں بدلا جائے — تاکہ امن کی تعلیم کوئی اضافی سرگرمی نہ رہے بلکہ تعلیمی نظام کا مستقل جزو بن جائے۔بڈگام کی شازیہ اس تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ جس اسکول کی کلاس کبھی جل گئی تھی، آج وہی لڑکی اسی اسکول کی “سیفٹی کمیٹی” کی سربراہ ہے اور استاد بننے کا خواب دیکھتی ہے۔ اننت ناگ کا نصیر احمد، جو کبھی تعلیم چھوڑ چکا تھا، آج نوجوانوں کو غصے سے آگے بڑھنے کی تربیت دیتا ہے۔ ایک معلمہ کہتی ہیںکہ ‘میں نے اپنے شاگردوں سے کہا، غصہ لکھ دو۔ وہ نظم بن گیا، اور درد آرٹ میں ڈھل گیا۔”یہ کہانیاں بتاتی ہیں کہ اگر سیکھنے کا موقع دیا جائے تو وہی نسل جو جنگ میں پلی، امن کی علمبردار بن سکتی ہے۔کشمیر کے لیے حقیقی پائیدار امن کی بنیاد تعلیم ہی رکھ سکتی ہے — وہ تعلیم جو ذہن کو کھولے، زخموں کو بھرے اور اعتماد بحال کرے۔ پالیسی سطح پر یہ لازم ہے کہ امن کی تعلیم کو اسکول نصاب، اساتذہ کی تربیت، اور کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ باضابطہ حصہ بنایا جائے۔آخرکار، کشمیر کا اصل معاہدہ شاید کسی میز پر نہیں بلکہ کسی کلاس روم میں طے پائے۔ بلیک بورڈ میدانِ جنگ نہیں، مگر امن کا نقشہ رکھتا ہے۔

کپواڑہ کے ایک طالب علم کے الفاظ اس کہانی کا نچوڑ ہیں:

“جب میں پڑھتا ہوں، مجھے گولیوں کی نہیں، امید کی آواز آتی ہے۔”

یہی امید کشمیر کا مستقبل ہے — اگر اس کی پرورش کی جائے تو آنے والی نسل خوف نہیں، آزادی وراثت میں پائے گی۔

گولیوں سے کتابوں تک کا یہ سفر طویل ضرور ہے، مگر ہر کھلا ہوا اسکول، ہر جاگا ہوا ذہن، اور ہر سیکھا ہوا سبق اس سفر کو مکمل کرنے کی ایک روشنی ہے۔

قارئین وادی کشمیر جو کہ پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کےلئے مشہور ہے جہاں بھائی چارہ اور ہم آہنگی ایک رواج تھی وہیں گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کا نام جب بھی عالمی منظرنامے پر آتا ہے تو ذہن میں بندوقوں کی گھن گرج، کرفیو کی اذیت اور لاشوں کی خاموشی ابھر آتی ہے۔ایک طویل مدت تک وادی کشمیر کے سبزہ زار ، گلپوش وادیاں ، باردود کی گند اور خون آلود ماحول سے آلودہ رہی ۔ جس کےلئے ہمارا پڑوسی ملک ذمہ دار رہا ہے ۔ قارئین پاکستان کی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گردی نے نہ صرف وادی کی فضا کو بارود سے آلودہ کیا بلکہ یہاں کی نسلوں سے بچپن، مسکراہٹ اور یقین چھین لیا۔ مگر اسی بارود کی بو کے درمیان ایک خاموش انقلاب جنم لے رہا ہے ، ایسا انقلاب جو بندوقوں سے نہیں بلکہ کتابوں سے برپا ہو رہا ہے۔قارئین ہر ایک دور کا اپنا وقت ہوتا ہے نہ ظلم رہتا ہے اور ناہی زبردستی ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بھی کروٹ لیتے ہیں جیسے کہ وادی کشمیر ماضی میں کئی ادوار کی شاہد رہی ہے ۔ تاہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کےلئے تعلیم ہی بنیادی ذریعہ ہے ۔ وادی کشمیر میں تعلیم، جو کبھی بدامنی کی سب سے بڑی قربانی تھی، آج آہستہ آہستہ امن، مفاہمت اور سماجی تبدیلی کا سب سے طاقتور ذریعہ بن رہی ہے۔دنیا کے چند ہی خطے ایسے ہیں جہاں تعلیمی نظام کو اتنی بار، اتنی شدت سے زک پہنچی ہو جتنی کشمیر میں۔ مسلح جھڑپوں، ہڑتالوں، کرفیو اور خوف کے سبب اسکولوں کا تعلیمی کیلنڈر ہمیشہ غیر یقینی رہا۔ بعض برسوں میں طلبہ کو سال بھر کے آدھے بھی تعلیمی دن نصیب نہ ہوئے۔2016 سے 2019 کے درمیان وادی میں 30 سے زائد اسکول نذرِ آتش کر دیے گئے۔ جلے ہوئے کلاس روم محض اینٹوں کا ڈھیر نہیں تھے، بلکہ ایک نسل کے گمشدہ خوابوں کی علامت تھے۔ ہر بند اسکول صرف تعلیمی نقصان نہیں، بلکہ ذہنی اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بھی بنا۔یونیسف اور مقامی این جی اوز کے مطابق، کشمیر کے تنازعہ زدہ علاقوں میں تقریباً 75 فیصد خاندانوں نے بتایا کہ ان کے بچوں کی تعلیم براہِ راست خوف یا تشدد سے متاثر ہوئی۔ طویل بدامنی اور عسکری موجودگی کے باعث بچوں میں اضطراب، ڈپریشن اور جارحانہ رویے بڑھ گئے ہیں۔معاشی بحران نے زخم مزید گہرے کر دیے۔ کئی والدین روزگار کے نقصان کے باعث فیس یا سفری اخراجات برداشت نہ کر سکے، جس کے نتیجے میں خاص طور پر لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے کشمیر کا نام تشدد، کرفیو اور پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے جڑا رہا ہے۔ نسلیں گولیوں کی گونج، بندوقوں کے سایوں اور سیاسی بے یقینی میں پروان چڑھیں۔ مگر خاردار تاروں، بنکروں اور خوف کے پردوں کے پیچھے، خاموشی سے ایک اور انقلاب جنم لے رہا ہے — ایسا انقلاب جو بندوقوں سے نہیں، بلکہ کتابوں سے برپا ہے۔ تعلیم، جو کبھی بدامنی کی پہلی قربانی تھی، اب وادی کے زخموں کو بھرنے، سوچ بدلنے اور پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کا سب سے مو ¿ثر وسیلہ بن چکی ہے۔قارئین جیسے کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ کشمیر کا تعلیمی نظام مسلسل غیر یقینی کا شکار رہا ہے۔ ہڑتالیں، کرفیو، انکاو ¿نٹر اور خوف نے نصابی دنوں کو آدھا کر دیا۔ کئی برس ایسے بھی گزرے جب بچوں نے بمشکل اسکول کا آدھا سال دیکھا۔اقوامِ متحدہ اور مقامی تنظیموں کے مطابق، کشمیر کے 75 فیصد خاندانوں نے محسوس کیا کہ ان کے بچوں کی تعلیم براہِ راست تشدد یا خوف سے متاثر ہوئی۔ اس کے نتیجے میں طلبہ میں اضطراب، مایوسی اور جارحیت میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی، معاشی زوال نے والدین کو بے بس کر دیا۔ بہت سے گھروں میں نقل و حمل یا ٹیوشن کی گنجائش نہ رہی، اور سب سے پہلے قربانی دی گئی لڑکیوں کی تعلیم نے۔ پلوامہ کی ایک طالبہ کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں،“جب اسکول بند ہوئے، میں پڑھنا چاہتی تھی، مگر سڑکیں بند تھیں، انٹرنیٹ بند تھا۔ لگا جیسے ہمارے خواب بھی کتابوں کے ساتھ جل گئے ہوں۔”پھر بھی، اسی مایوسی کے بیچ علم کی تڑپ نے نئی جان پائی۔ کشمیر میں تعلیم اب محض نصاب نہیں رہی، یہ مزاحمت کی علامت بن گئی ہے — وہ مزاحمت جو بندوق کے خلاف نہیں، بلکہ جہالت کے خلاف ہے۔ امن کی تعلیم نے اس جدوجہد کو ایک نئی جہت دی ہے۔امن کی تعلیم بچوں کو الف، ب اور جمع تفریق سے آگے سکھاتی ہے ،وہ انہیں مکالمہ، برداشت، ہمدردی اور احساسِ ذمہ داری سکھاتی ہے۔ یہ کلاس روم کو ایک محفوظ پناہ گاہ بناتی ہے جہاں خوف نہیں، اعتماد بولتا ہے۔ جہاں سوال دبائے نہیں جاتے بلکہ سنے جاتے ہیں۔سن 2020 سے 2025 کے دوران HCL فاو ¿نڈیشن کے تعاون سے “بال رکھشا بھارت” پروگرام کے تحت بڈگام اور لیہہ کے 60 سے زائد سرکاری اسکولوں میں امن و سلامتی کی تعلیم شامل کی گئی۔ اساتذہ کو جذباتی ذہانت، تنازعات کے حل اور بچوں کی نفسیاتی ضروریات کے حوالے سے تربیت دی گئی۔ طلبہ نے امن کلب قائم کیے جہاں وہ غصے کے نظم، صنفی مساوات اور مو ¿ثر گفتگو جیسے موضوعات پر بات کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسکولوں میں غیر حاضری کم ہوئی، تشدد اور بدسلوکی کے واقعات گھٹے، اور کلاس رومز میں ہم آہنگی بڑھی۔اسی طرح، سنٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ری کنسلی ایشن اور اسٹینڈنگ ٹوگیدر ٹو ایبل پیس” جیسی تنظیموں نے کشمیر میں نوجوانوں کی قیادت میں مکالمے اور امن کی تربیت کی نئی راہیں کھولیں۔ ان کے کیمپوں میں کہانیاں، فن اور مراقبہ کے ذریعے طلبہ کو دکھ اور خوف سے نکل کر امید کی سمت لایا گیا۔ ایک استاد نے بتایاکہ “میں نے پہلی بار جانا کہ کسی بچے کے درد کو سننا بھی سکھانے کا حصہ ہے۔ اب ہم صرف مضامین نہیں پڑھاتے، ہم ہمدردی پڑھاتے ہیں۔”کھیلوں نے بھی امن کا غیر متوقع دروازہ کھولا۔ بڈگام، کپواڑہ اور لیہہ میں ”اسپورٹس فار چینج“ پروگرام کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ٹورنامنٹس نے دشمنی کے بجائے مکالمے کو جنم دیا۔ ترال کا ایک نوجوان جو پہلے پتھر اٹھاتا تھا، آج بچوں کو والی بال سکھاتا ہے۔ وہ مسکرا کر کہتا ہے،“پہلے میں پتھر اٹھاتا تھا، اب گیند۔ وہ ہلکی ہے، مگر طاقت زیادہ رکھتی ہے۔ڈیجیٹل انقلاب نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ نوکیا کے “اسمارٹ پور” مراکز نے بڈگام اور کولگام کے دیہی علاقوں میں آن لائن کلاسوں کا نظام قائم کیا، خاص طور پر ان دنوں جب انٹرنیٹ بند تھا۔ کووِڈ کے دوران یہی مراکز طلبہ کے لیے تعلیم کا واحد سہارا بنے۔ان سب کوششوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ مقامی سطح پر جڑی ہوئی ہیں۔ والدین، اساتذہ، امام، پنچ اور سماجی کارکن سب اس میں شریک ہیں۔ کمیونٹی ڈائیلاگ سیشنز میں بچوں کے حقوق، تحفظ اور ذہنی صحت پر کھل کر بات ہوتی ہے۔ یوں اسکول اب صرف تعلیمی ادارے نہیں بلکہ امن کے مراکز بنتے جا رہے ہیں۔تاہم، چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ امن کی تعلیم تاحال ریاستی نصاب کا باضابطہ حصہ نہیں۔ اساتذہ کی تربیت ناکافی ہے، لڑکیوں کے لیے نقل و حرکت کے مسائل برقرار ہیں، اور نفسیاتی امداد کا فقدان ہے۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان پائلٹ منصوبوں کو پالیسی میں بدلا جائے — تاکہ امن کی تعلیم کوئی اضافی سرگرمی نہ رہے بلکہ تعلیمی نظام کا مستقل جزو بن جائے۔بڈگام کی شازیہ اس تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ جس اسکول کی کلاس کبھی جل گئی تھی، آج وہی لڑکی اسی اسکول کی “سیفٹی کمیٹی” کی سربراہ ہے اور استاد بننے کا خواب دیکھتی ہے۔ اننت ناگ کا نصیر احمد، جو کبھی تعلیم چھوڑ چکا تھا، آج نوجوانوں کو غصے سے آگے بڑھنے کی تربیت دیتا ہے۔ ایک معلمہ کہتی ہیںکہ ‘میں نے اپنے شاگردوں سے کہا، غصہ لکھ دو۔ وہ نظم بن گیا، اور درد آرٹ میں ڈھل گیا۔”یہ کہانیاں بتاتی ہیں کہ اگر سیکھنے کا موقع دیا جائے تو وہی نسل جو جنگ میں پلی، امن کی علمبردار بن سکتی ہے۔کشمیر کے لیے حقیقی پائیدار امن کی بنیاد تعلیم ہی رکھ سکتی ہے — وہ تعلیم جو ذہن کو کھولے، زخموں کو بھرے اور اعتماد بحال کرے۔ پالیسی سطح پر یہ لازم ہے کہ امن کی تعلیم کو اسکول نصاب، اساتذہ کی تربیت، اور کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ باضابطہ حصہ بنایا جائے۔آخرکار، کشمیر کا اصل معاہدہ شاید کسی میز پر نہیں بلکہ کسی کلاس روم میں طے پائے۔ بلیک بورڈ میدانِ جنگ نہیں، مگر امن کا نقشہ رکھتا ہے۔

کپواڑہ کے ایک طالب علم کے الفاظ اس کہانی کا نچوڑ ہیں:

“جب میں پڑھتا ہوں، مجھے گولیوں کی نہیں، امید کی آواز آتی ہے۔”

یہی امید کشمیر کا مستقبل ہے — اگر اس کی پرورش کی جائے تو آنے والی نسل خوف نہیں، آزادی وراثت میں پائے گی۔

گولیوں سے کتابوں تک کا یہ سفر طویل ضرور ہے، مگر ہر کھلا ہوا اسکول، ہر جاگا ہوا ذہن، اور ہر سیکھا ہوا سبق اس سفر کو مکمل کرنے کی ایک روشنی ہے۔

Previous Post

کشمیر کی ترقی کےلئے اہم نئی راہیں

Next Post

نئی بنیادوں پر اعتماد،کشمیر میں جمہوریت کی جڑوں سے اٹھتی روشنی

Next Post
NAYA KASHMIR: A BLUEPRINT FOR PROGRESS

نئی بنیادوں پر اعتماد،کشمیر میں جمہوریت کی جڑوں سے اٹھتی روشنی

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.