قارئین وادی کشمیر جو کہ اپنی قدرتی خوبصورتی کےلئے پوری دنیا میں مانی جاتی ہے نے کئی ادوار کا مشاہدہ کیا ہے اور موسمی اور سیاسی پیچیدہ صورتحال کا سفر طے کرتے ہوئے ترقی اور امن کا مقام پانے میں کامیابی ہوئی ہے اگرچہ اغیار نے بسیار کوششیں کیں کہ وادی کشمیر کو جلتے شعلوں کی نذر کیا جائے البتہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ چنانچہ مرکزی سرکار کی جانب سے اگست 2019 میں جب آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35A کو منسوخ کیا گیا، تو یہ محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک ایسے باب کا آغاز تھا جس نے پورے منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ وادی جو برسوں سے اپنی جھیلوں، برف پوش چوٹیوں اور دلکش مناظر کے باعث ”تاجِ ہند“ کہلاتی تھی، طویل عرصے تک تنازع، علیحدگی پسندی اور بے چینی کے بیانیوں میں الجھی رہی۔ اس فیصلے نے جہاں ملک بھر میں بحثوں کو جنم دیا، وہیں ایک نئے دور کی بنیاد بھی رکھی ، ایسا دور جو چھ برس بعد اب ایک واضح تبدیلی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔قارئین کو معلوم ہوگا کہ وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں جو حالات تھے ان سے یہاں کے لوگوں کو کافی تکلیف پہنچی ، ذہنی اور جسمانی ایذیت نے ان کے دل و روح کو مجروح کیا تھا ۔ قارئین کشمیر آج صرف یادوں یا خبروں کا استعارہ نہیں، بلکہ ایک متحرک اور جیتا جاگتا خطہ ہے جو عالمی دنیا کے نقشے پر اعتماد سے ا ±بھر رہا ہے۔ بین الاقوامی اجلاسوں، کھیلوں کے مقابلوں، میراتھنوں اور ثقافتی میلوں کے ذریعے یہ وادی خود کو ایک پرامن اور امکانات سے بھرپور خطے کے طور پر منوا رہی ہے۔ یہ وہی وادی ہے جو کبھی تنازع کا استعارہ تھی، اور آج اپنی نئی پہچان کے ساتھ دنیا کو اپنی کہانی سنا رہی ہے۔”2023 میں جب سری نگر نے جی–20ٹورزم ورکنگ گروپ “کی میزبانی کی، تو ڈل جھیل کے کنارے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ دنیا کی طاقتور معیشتوں کے نمائندے اس شہر میں جمع ہوئے، اور بھارت نے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ کشمیر اب محض تنازع کا نہیں بلکہ تعلقات اور ترقی کا مرکز ہے۔ غیر ملکی مندوبین نے وادی کی فطری دلکشی، اس کے ثقافتی تنوع اور لوگوں کی مہمان نوازی کو قریب سے محسوس کیا۔یہ اجلاس صرف سفارتی کامیابی نہیں تھا بلکہ ایک علامت تھی — اس اعتماد کی کہ کشمیر اب بڑے عالمی اجتماع کی میزبانی کے قابل ہے۔ سخت سکیورٹی، مو ¿ثر انتظامات اور مربوط منصوبہ بندی نے یہ ثابت کیا کہ وادی عالمی سطح کے ایونٹس کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس طرح کشمیر نے اپنی جگہ دنیا کے سفارتی نقشے پر مضبوطی سے قائم کر لی۔سیاست اور سفارت کے ساتھ ساتھ، وادی نے کھیلوں اور ایڈونچر ٹورزم کے میدان میں بھی نئی زندگی پائی ہے۔ کبھی یہی پہاڑ اور دریا سناٹے میں لپٹے رہتے تھے، مگر اب یہاں کرکٹ ٹورنامنٹس، اسکینگ، اور میراتھن کے مناظر عام ہیں۔گزشتہ برسوں میں شروع ہونے والی “کشمیر میراتھن” اب بین الاقوامی کیلنڈر کا ایک معتبر ایونٹ بن چکی ہے۔ ملک اور بیرونِ ملک سے آنے والے دوڑنے والے جب جہلم کے کنارے اور سیب کے باغات سے گزرتے ہیں تو وہ صرف ایک مقابلہ نہیں جیتتے ، وہ کشمیر کی روح کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف معیشت کو تقویت دیتی ہیں بلکہ مقامی لوگوں کے دلوں میں فخر اور اعتماد کا جذبہ بھی بیدار کرتی ہیں۔کشمیر کی ثقافت ہمیشہ سے اس کی سب سے بڑی پہچان رہی ہے۔ آج جب یہاں ”کشمیر لٹریچر فیسٹیول“یا جے اینڈ کے ٹورزم فیسٹیول“جیسے پروگرام منعقد ہوتے ہیں، تو وہ صرف تفریح نہیں بلکہ ایک پیغام ہوتے ہیں ۔ امن، تخلیق اور باہمی ہم آہنگی کا۔پشمینہ کے نازک دھاگے، کشمیری قالینوں کے نقش و نگار، صوفی موسیقی کی لے اور وادی کے ذائقوں سے بھرپور پکوان سب مل کر ایک ایسی تصویر بناتے ہیں جو دنیا کو متوجہ کرتی ہے۔ سرینگر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی بحالی نے بھی وادی کو عالمی فلمی نقشے پر نمایاں کیا ہے، جہاں ہمالیہ کے دامن میں فلم ساز اور اداکار کشمیری منظرناموں کو نئی کہانیاں دینے آتے ہیں۔قارئین یہ تبدیلی صرف میلوں اور تقریبات تک محدود نہیں، بلکہ اس کے پسِ منظر میں وہ سماجی و معاشی ڈھانچہ ہے جو گزشتہ چند برسوں میں مضبوط ہوا ہے۔ خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سرمایہ کاری کے دروازے کھلے، نئی سڑکیں، ہوائی اڈے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے مکمل ہوئے۔
شیخ العالم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی توسیع، پہلگام اور سونمرگ میں نئی سیاحتی سہولیات، اور جدید شاہراہوں نے کشمیر کو پہلے سے کہیں زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں نوجوان نسل کے لیے روزگار، تربیت اور کاروبار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اب وادی کے زعفران، سیب اور اخروٹ عالمی منڈیوں میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں، اور آن لائن تجارت نے کسانوں اور دستکاروں کو براہِ راست دنیا سے جوڑ دیا ہے۔قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی میں امن بحالی اور عوامی اعتماد کے فروغ پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ عسکریت پسندی میں کمی اور مقامی انتظامیہ کی عوام سے مسلسل رابطے نے ایک نئی فضا قائم کی ہے۔ اب جب غیر ملکی سیاح اور کھلاڑی سرینگر کی گلیوں میں گھومتے ہیں، تو یہ منظر مقامی لوگوں کے لیے ایک خاموش پیغام بن جاتا ہے ، کہ ان کی زمین اب خوف نہیں، امکانات کی علامت ہے۔کشمیر کا نیا بیانیہ اب تصادم نہیں بلکہ تخلیق، روابط اور امید کا ہے۔ جہاں کبھی خبریں صرف جھڑپوں کی ہوتی تھیں، آج وہی وادی ثقافتی میلوں، عالمی اجلاسوں اور میراتھن دوڑوں سے جانی جاتی ہے۔ نوجوان نسل اب ایک ایسے کشمیر میں پروان چڑھ رہی ہے جو دنیا کے لیے کھلا ہے، جہاں خواب اب محدود نہیں رہے۔بھارت کا وژن کشمیر کے لیے صرف ترقی نہیں بلکہ اس کی شناخت کو عالمی برادری میں مستحکم کرنا ہے۔ دفعات کی منسوخی نے کشمیر کے لوگوں کو وہی مواقع اور حقوق دیے جو ملک کے باقی حصوں میں دستیاب ہیں۔قارئین آج جب ڈل جھیل کی خاموش سطح پر بین الاقوامی مندوبین کی کشتیاں تیرتی ہیں، یا جب سرینگر کے بازاروں میں سیاح مقامی خوشبوو ¿ں میں کھو جاتے ہیں، تو یہ منظر صرف ایک علاقے کی نہیں بلکہ ایک عہدِ نو کی داستان سناتا ہے۔کشمیر اب محض ایک وادی نہیں، ایک علامت ہے امید، ہم آہنگی اور استقامت کی۔ وہ روشنی جو کبھی دھند میں چھپی تھی، آج پوری دنیا کے نقشے پر چمک رہی ہے۔آج کے نوجوانوں میں پکڑ دھکڑ ، مار دھاڑ کا خوف نہیں ہے بلکہ یہاں کے نوجوان اب امن و سلامتی ، ترقی اور روزگار کے حصول کے ساتھ ساتھ تعلیم کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی دوڑ میں لگے ہیں اور یہی سب سے بڑی تبدیلی گرانی جاسکتی ہے ۔

