قارئین وادی کشمیر طویل مدت تک سیاسی عدم استحکام ، مخدوش حالات اور غیر یقینی صورتحال کی شکار رہی ہے جس کا اثر زیادہ تر نوجوانوں پر پڑا ۔ جبکہ کھیل کود کی سرگرمیاں محدود رہیں اور نوجوانوں کیلئے کھیل کے مواقعے مسدود تھے ۔تاہم گزشتہ چند برسوں سے آئی تبدیلی نے نہ صرف امن و قانون کی صورتحال کو بہتر بنایا بلکہ کھیل کود ، سیاحت اور دیگر شعبوں میں نمایاں بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ قارئین وادی کشمیر کے وہ گاؤں، جو کبھی خوف اور خاموشی کی علامت سمجھے جاتے تھے، آج وہاں کرکٹ بال کی ٹھک سے گونجتی آواز اور تماشائیوں کی تالیوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پلوامہ، شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ جیسے علاقے جہاں ایک زمانے میں عسکریت کے سائے گہرے تھے، اب وہی میدان نوجوانوں کی ہنسی، جوش اور عزم سے روشن ہیں۔ یہ صرف کھیل نہیں، بلکہ ایک اجتماعی بیداری ہے ، ایک ایسا انقلاب جو بندوق کی گولیوں سے نہیں، بلکہ کرکٹ کی گیند اور بیٹ سے جنم لے رہا ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بارہا اس بات کا برما اظہار کیا کہ وادی کشمیر کے جو نوجوان کبھی سنگبازی کی طرف مائل رہتے تھے اب کھیل کود کے میدانوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ یہ منظر اس نئی نسل کا ہے جو کشمیر کی آبادی کا پینسٹھ فیصد سے زیادہ ہے اور جس نے اپنی توانائی کو مایوسی کے بجائے تعمیر کی سمت موڑ دیا ہے۔ یہ نوجوان محض کھلاڑی نہیں بلکہ منتظم، آرگنائزر اور سماجی قائدین ہیں۔ وہ گاؤں کے سادہ میدانوں کو کرکٹ کے میدانوں میں بدل رہے ہیں، خود سپانسر تلاش کر رہے ہیں، ٹیمیں بنا رہے ہیں اور ایک نیا سماجی رشتہ قائم کر رہے ہیں — ایسا رشتہ جو نفرت کے بجائے اْمید پر مبنی ہے۔قارئین شمالی کشمیر ہو یا وسطی کشمیر یا پھر ہم جنوبی کشمیر کی بات کریں تو پلوامہ کے لیتر علاقے کا وہ گرمیوں کا منظر یادگار ہے جہاں حال ہی میں انڈر 17 ناک آؤٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ آس پاس کے گاؤں مثلاً پیٹی پورہ سے نوجوان ٹیمیں آئیں، جنہوں نے اپنے ہی وسائل سے ٹورنامنٹ کا اہتمام کیا۔ انہوں نے نہ صرف کھیل کا مقابلہ کیا بلکہ ایک کمیونٹی احساس کو بھی جنم دیا، بزرگوں کی موجودگی، بچوں کی خوشی، اور نوجوانوں کا نظم و ضبط گویا ایک نئی کہانی لکھ رہا تھا۔’’رائل چیلنجرز پیٹی پورہ‘‘ نے فائنل جیتا، مگر اصل جیت اْن جذبوں کی تھی جو خوف کی جگہ دوستی اور مقابلے کے جذبے سے بھر گئے۔اسی جوش کی ایک اور جھلک شوپیاں کے لہن تھورہ گاؤں میں نظر آئی، جہاں بیس بائیس سال کے نوجوانوں نے “لہن تھورہ پریمیئر لیگ” کے نام سے ایک مقامی ٹورنامنٹ کرایا۔ صبح کے وقت جب سیب کے باغات میں اوس کی بوندیں چمک رہی تھیں، نوجوان اپنے ہاتھوں سے پچ تیار کر رہے تھے۔ یہ صرف کرکٹ نہیں تھی ۔ یہ معاشرتی بحالی کا عمل تھا۔ انہوں نے کھیل کے ساتھ سماجی پیغام بھی جوڑا: میدانوں میں “منشیات سے دور رہو” جیسے بینرز آویزاں کیے گئے۔ جموں و کشمیر اسپورٹس کونسل نے تھوڑا سا ساز و سامان فراہم کیا، مگر اصل روح ان نوجوانوں کی اپنی تھی، جنہوں نے نظم و ضبط، قیادت اور شفاف کھیل کو اپنی پہچان بنایا۔
اننت ناگ کا منظر بھی کچھ کم نہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے رواں برس اکتوبر میں “انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ” کا انعقاد کیا، جس میں دیہاتی علاقوں سے بارہ سے زائد ٹیمیں شریک ہوئیں۔ خاص بات یہ تھی کہ اس ٹورنامنٹ میں لڑکیاں بھی شریک ہوئیں — وہی لڑکیاں جن کے لیے کبھی کھیل محض خواب ہوا کرتا تھا۔ اب وہ مخلوط نیٹس پر پریکٹس کر رہی ہیں، اور یہ تبدیلی خود نوجوانوں کی سوچ سے جنم لے رہی ہے۔ ان کے لیے یہ مقابلے صرف کھیل نہیں بلکہ زندگی کے سبق ہیں، قیادت، ٹیم ورک، برداشت اور خود اعتمادی کے۔کولگام میں نوجوانوں نے “کوسکو بال ٹورنامنٹ” اور “شہید ولی محمد ایتو میموریل کرکٹ ٹورنامنٹ” کے ذریعے کھیل کو تہذیبی رنگ دیا۔ سیب کے باغات کے درمیان بنے عارضی میدانوں میں کرکٹ کے ساتھ ساتھ کشمیری شاعری کے پروگرام ہوئے، جس نے کھیل کو ثقافت سے جوڑ دیا۔ نوجوانوں نے مقامی کوآپریٹیوز سے کٹس حاصل کیں، ہاتھ سے اسکور بورڈ بنائے اور اپنے بزرگوں کو بطور مہمانِ اعزاز مدعو کیا۔ ان مقابلوں نے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا — جب پورے خاندان اپنی نئی نسل کو کھیلتا دیکھنے آئے تو ماحول میں ایک اجتماعی سکون اور فخر محسوس ہوا۔یہ سلسلہ صرف جنوبی کشمیر تک محدود نہیں۔ شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں بھی مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنز نوجوان سیکریٹریوں کی قیادت میں گاوں گاوں مقابلے منعقد کر رہی ہیں۔ ان میدانوں پر اب مصنوعی پچیں نصب کی جا رہی ہیں۔ وہی میدان جہاں کبھی خوف کا سایہ تھا، آج وہاں بچوں کی چیخیں اور تالیوں کی گونج ہے۔’’سیوا پرو 2025‘‘ جیسی مہمات نے ان نوجوانوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔ پلوامہ اور شوپیاں کے کھلاڑی اب صرف کرکٹ نہیں کھیلتے بلکہ میچ کے بعد گاؤں کی ندیوں کی صفائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کھیل کے ذریعے خدمتِ خلق کا نیا ماڈل ہے، جہاں ٹیم ورک میدان سے نکل کر سماج کی صفائی اور بہبود تک پھیل رہا ہے۔
جموں و کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیراہتمام انڈر 14 انویٹیشنل ٹورنامنٹ میں جب گاؤں کے لڑکوں نے شیرِ کشمیر اسٹیڈیم میں کامیابی حاصل کی تو یہ صرف ایک کھیل کی جیت نہیں تھی، بلکہ ایک پیغام تھا — کہ دیہی کشمیر کا نوجوان اب محرومی کا شکار نہیں بلکہ مواقع پیدا کرنے والا ہے۔ ان کے حوصلے نے ثابت کیا کہ تبدیلی باہر سے نہیں آتی، وہ اندر سے اْبھرتی ہے۔
آج کشمیر کا نوجوان محض کھیل نہیں کھیل رہا بلکہ ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ وہ دکھ، خاموشی اور خوف کے برسوں کے بعد امید، اجتماعیت اور قیادت کے نئے باب لکھ رہا ہے۔ یہ میدان صرف کرکٹ کے نہیں بلکہ سماجی تعمیر کے ہیں — اور ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑا بیٹ دراصل تبدیلی کی علامت ہے۔کشمیر کے یہ نوجوان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ترقی اوپر سے نازل نہیں ہوتی، یہ نیچے سے، زمین کی مٹی سے پھوٹتی ہے۔ جب ہاتھوں میں گیند اور دلوں میں عزم ہو تو بندوقوں کی گونج بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ نئی نسل کشمیر کے مستقبل کی معمار ہے — مضبوط، باشعور اور ناقابلِ شکست۔انہیں صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے یہ نوجوان نہ صرف کھیل کے میدان بلکہ تعلیمی میدان، طب، جرنلزم ، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں بھی اپنی ذہانت کا لوہا منوانے کے اہل ہیں۔
قارئین وادی کشمیر طویل مدت تک سیاسی عدم استحکام ، مخدوش حالات اور غیر یقینی صورتحال کی شکار رہی ہے جس کا اثر زیادہ تر نوجوانوں پر پڑا ۔ جبکہ کھیل کود کی سرگرمیاں محدود رہیں اور نوجوانوں کیلئے کھیل کے مواقعے مسدود تھے ۔تاہم گزشتہ چند برسوں سے آئی تبدیلی نے نہ صرف امن و قانون کی صورتحال کو بہتر بنایا بلکہ کھیل کود ، سیاحت اور دیگر شعبوں میں نمایاں بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ قارئین وادی کشمیر کے وہ گاؤں، جو کبھی خوف اور خاموشی کی علامت سمجھے جاتے تھے، آج وہاں کرکٹ بال کی ٹھک سے گونجتی آواز اور تماشائیوں کی تالیوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پلوامہ، شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ جیسے علاقے جہاں ایک زمانے میں عسکریت کے سائے گہرے تھے، اب وہی میدان نوجوانوں کی ہنسی، جوش اور عزم سے روشن ہیں۔ یہ صرف کھیل نہیں، بلکہ ایک اجتماعی بیداری ہے ، ایک ایسا انقلاب جو بندوق کی گولیوں سے نہیں، بلکہ کرکٹ کی گیند اور بیٹ سے جنم لے رہا ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بارہا اس بات کا برما اظہار کیا کہ وادی کشمیر کے جو نوجوان کبھی سنگبازی کی طرف مائل رہتے تھے اب کھیل کود کے میدانوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ یہ منظر اس نئی نسل کا ہے جو کشمیر کی آبادی کا پینسٹھ فیصد سے زیادہ ہے اور جس نے اپنی توانائی کو مایوسی کے بجائے تعمیر کی سمت موڑ دیا ہے۔ یہ نوجوان محض کھلاڑی نہیں بلکہ منتظم، آرگنائزر اور سماجی قائدین ہیں۔ وہ گاؤں کے سادہ میدانوں کو کرکٹ کے میدانوں میں بدل رہے ہیں، خود سپانسر تلاش کر رہے ہیں، ٹیمیں بنا رہے ہیں اور ایک نیا سماجی رشتہ قائم کر رہے ہیں — ایسا رشتہ جو نفرت کے بجائے اْمید پر مبنی ہے۔قارئین شمالی کشمیر ہو یا وسطی کشمیر یا پھر ہم جنوبی کشمیر کی بات کریں تو پلوامہ کے لیتر علاقے کا وہ گرمیوں کا منظر یادگار ہے جہاں حال ہی میں انڈر 17 ناک آؤٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ آس پاس کے گاؤں مثلاً پیٹی پورہ سے نوجوان ٹیمیں آئیں، جنہوں نے اپنے ہی وسائل سے ٹورنامنٹ کا اہتمام کیا۔ انہوں نے نہ صرف کھیل کا مقابلہ کیا بلکہ ایک کمیونٹی احساس کو بھی جنم دیا، بزرگوں کی موجودگی، بچوں کی خوشی، اور نوجوانوں کا نظم و ضبط گویا ایک نئی کہانی لکھ رہا تھا۔’’رائل چیلنجرز پیٹی پورہ‘‘ نے فائنل جیتا، مگر اصل جیت اْن جذبوں کی تھی جو خوف کی جگہ دوستی اور مقابلے کے جذبے سے بھر گئے۔اسی جوش کی ایک اور جھلک شوپیاں کے لہن تھورہ گاؤں میں نظر آئی، جہاں بیس بائیس سال کے نوجوانوں نے “لہن تھورہ پریمیئر لیگ” کے نام سے ایک مقامی ٹورنامنٹ کرایا۔ صبح کے وقت جب سیب کے باغات میں اوس کی بوندیں چمک رہی تھیں، نوجوان اپنے ہاتھوں سے پچ تیار کر رہے تھے۔ یہ صرف کرکٹ نہیں تھی ۔ یہ معاشرتی بحالی کا عمل تھا۔ انہوں نے کھیل کے ساتھ سماجی پیغام بھی جوڑا: میدانوں میں “منشیات سے دور رہو” جیسے بینرز آویزاں کیے گئے۔ جموں و کشمیر اسپورٹس کونسل نے تھوڑا سا ساز و سامان فراہم کیا، مگر اصل روح ان نوجوانوں کی اپنی تھی، جنہوں نے نظم و ضبط، قیادت اور شفاف کھیل کو اپنی پہچان بنایا۔
اننت ناگ کا منظر بھی کچھ کم نہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے رواں برس اکتوبر میں “انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ” کا انعقاد کیا، جس میں دیہاتی علاقوں سے بارہ سے زائد ٹیمیں شریک ہوئیں۔ خاص بات یہ تھی کہ اس ٹورنامنٹ میں لڑکیاں بھی شریک ہوئیں — وہی لڑکیاں جن کے لیے کبھی کھیل محض خواب ہوا کرتا تھا۔ اب وہ مخلوط نیٹس پر پریکٹس کر رہی ہیں، اور یہ تبدیلی خود نوجوانوں کی سوچ سے جنم لے رہی ہے۔ ان کے لیے یہ مقابلے صرف کھیل نہیں بلکہ زندگی کے سبق ہیں، قیادت، ٹیم ورک، برداشت اور خود اعتمادی کے۔کولگام میں نوجوانوں نے “کوسکو بال ٹورنامنٹ” اور “شہید ولی محمد ایتو میموریل کرکٹ ٹورنامنٹ” کے ذریعے کھیل کو تہذیبی رنگ دیا۔ سیب کے باغات کے درمیان بنے عارضی میدانوں میں کرکٹ کے ساتھ ساتھ کشمیری شاعری کے پروگرام ہوئے، جس نے کھیل کو ثقافت سے جوڑ دیا۔ نوجوانوں نے مقامی کوآپریٹیوز سے کٹس حاصل کیں، ہاتھ سے اسکور بورڈ بنائے اور اپنے بزرگوں کو بطور مہمانِ اعزاز مدعو کیا۔ ان مقابلوں نے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا — جب پورے خاندان اپنی نئی نسل کو کھیلتا دیکھنے آئے تو ماحول میں ایک اجتماعی سکون اور فخر محسوس ہوا۔یہ سلسلہ صرف جنوبی کشمیر تک محدود نہیں۔ شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں بھی مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنز نوجوان سیکریٹریوں کی قیادت میں گاوں گاوں مقابلے منعقد کر رہی ہیں۔ ان میدانوں پر اب مصنوعی پچیں نصب کی جا رہی ہیں۔ وہی میدان جہاں کبھی خوف کا سایہ تھا، آج وہاں بچوں کی چیخیں اور تالیوں کی گونج ہے۔’’سیوا پرو 2025‘‘ جیسی مہمات نے ان نوجوانوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔ پلوامہ اور شوپیاں کے کھلاڑی اب صرف کرکٹ نہیں کھیلتے بلکہ میچ کے بعد گاؤں کی ندیوں کی صفائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کھیل کے ذریعے خدمتِ خلق کا نیا ماڈل ہے، جہاں ٹیم ورک میدان سے نکل کر سماج کی صفائی اور بہبود تک پھیل رہا ہے۔
جموں و کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیراہتمام انڈر 14 انویٹیشنل ٹورنامنٹ میں جب گاؤں کے لڑکوں نے شیرِ کشمیر اسٹیڈیم میں کامیابی حاصل کی تو یہ صرف ایک کھیل کی جیت نہیں تھی، بلکہ ایک پیغام تھا — کہ دیہی کشمیر کا نوجوان اب محرومی کا شکار نہیں بلکہ مواقع پیدا کرنے والا ہے۔ ان کے حوصلے نے ثابت کیا کہ تبدیلی باہر سے نہیں آتی، وہ اندر سے اْبھرتی ہے۔
آج کشمیر کا نوجوان محض کھیل نہیں کھیل رہا بلکہ ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ وہ دکھ، خاموشی اور خوف کے برسوں کے بعد امید، اجتماعیت اور قیادت کے نئے باب لکھ رہا ہے۔ یہ میدان صرف کرکٹ کے نہیں بلکہ سماجی تعمیر کے ہیں — اور ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑا بیٹ دراصل تبدیلی کی علامت ہے۔کشمیر کے یہ نوجوان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ترقی اوپر سے نازل نہیں ہوتی، یہ نیچے سے، زمین کی مٹی سے پھوٹتی ہے۔ جب ہاتھوں میں گیند اور دلوں میں عزم ہو تو بندوقوں کی گونج بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ نئی نسل کشمیر کے مستقبل کی معمار ہے — مضبوط، باشعور اور ناقابلِ شکست۔انہیں صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے یہ نوجوان نہ صرف کھیل کے میدان بلکہ تعلیمی میدان، طب، جرنلزم ، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں بھی اپنی ذہانت کا لوہا منوانے کے اہل ہیں۔

