5اگست 2019— ایک تاریخ جو جموں و کشمیر کی سیاسی اور آئینی سمت کو ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ اسی دن بھارت کے آئین سے دفعہ 370اور 35اے کو منسوخ کر کے ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیا گیا۔ برسوں تک اس دفعہ نے جموں و کشمیر کو باقی ملک سے الگ آئینی حیثیت دی ہوئی تھی۔ لیکن اسی علیحدگی نے رفتہ رفتہ ایک ایسا احساس پیدا کیا جو محرومی، شکوے اور عدم شمولیت میں ڈھل گیا۔ خواتین سے لے کر دلتوں تک، پہاڑی بولنے والے طبقوں سے لے کر پناہ گزینوں تک — کئی طبقات ایسے تھے جنہیں مساوی حقوق اور مواقع حاصل نہیں تھے۔اس آئینی فیصلے کے بعد جو نیا انتظامی و سماجی ڈھانچہ ابھر کر سامنے آیا، وہ محض قانونی تبدیلی نہیں بلکہ *سوچ کی تبدیلی* ہے — ایک ایسا وژن جو کشمیر کو باقی بھارت کے ساتھ یکساں مواقع اور مساوی حقوق کے دائرے میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت ہند نے اسے شمولیت پر مبنی ترقی” کا ماڈل قرار دیا ہے، اور پچھلے چھ برسوں کے دوران اس ماڈل کی کئی جھلکیاں زمینی سطح پر نظر آنے لگی ہیں۔
دفعہ 35اے کی رو سے ریاست میں “مستقل باشندگی” کا تصور ایسا تھا جس نے ہزاروں لوگوں کو بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھا۔ مثال کے طور پر والمیکی برادری، جو 1950کی دہائی میں پنجاب سے لا کر جموں میں صفائی کے کام پر مامور کی گئی تھی، نسل در نسل اسی پیشے میں پھنسی رہی۔ انہیں نہ ووٹ دینے کا حق حاصل تھا، نہ اعلیٰ تعلیم یا سرکاری نوکریوں میں حصہ۔ اسی طرح وہ خواتین جو ریاست سے باہر شادی کرتی تھیں، اپنی جائیداد اور وراثت کے حق سے محروم ہو جاتی تھیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیرسے آئے ہزاروں پناہ گزین، جو فسادات کے بعد ادھر آ بسے، دہائیوں تک اپنے ہی ملک میں “غیر مقیم شہری” بن کر رہے۔ وہ زمین نہیں خرید سکتے تھے، سرکاری اسکیموں میں شامل نہیں ہو سکتے تھے، اور ان کا کوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں تھا۔ کشمیری پنڈت، جو 1990 کی دہائی میں دہشت گردی کے باعث وادی چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اپنے وطن میں سیاسی و سماجی طور پر بے آواز ہو گئے۔ اور پہاڑی بولنے والی برادریاں، جو ثقافتی طور پر کشمیر کے تنوع کی پہچان تھیں، تین دہائیوں سے اپنے لیے مخصوص ریزرویشن کی مانگ کر رہی تھیں۔
یہ تمام طبقات ایک مشترک احساس رکھتے تھے — “ہم اس ریاست کے شہری ضرور ہیں، مگر برابر کے نہیں۔” یہی احساس دراصل بداعتمادی کی جڑ بن گیا تھا۔
دفعہ 370اور 35اےکے خاتمے کے بعد جب جموں و کشمیر کو مکمل طور پر آئینی مرکزی دھارے میں لایا گیا، تو 890سے زیادہ مرکزی قوانین یہاں نافذ ہوئے۔ ان میں مساوات، عدم امتیاز، اور سماجی انصاف سے متعلق قوانین بھی شامل ہیں۔*والمیکی برادری کو 2023کے آئینی ترمیمی بل کے تحت شیڈول کاسٹ فہرست میں شامل کیا گیا، جس سے اب 60ہزار سے زائد خاندان تعلیم، روزگار اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کے اہل ہو گئے ہیں۔اسی طرح 2024میں پہاڑی، گڈا برہمن، کولی اور پڈاریبرادریوں کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دیا گیا۔ تقریباً ۱۱ لاکھ آبادی پر مشتمل یہ طبقہ اب9اسمبلی نشستوں اور20فیصد روزگار کوٹہ سے مستفید ہو رہا ہے۔ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ تین دہائی پرانی جدوجہد کی تکمیل ہے۔
خواتین کے لیے بھی یہ تبدیلی غیر معمولی ثابت ہوئی۔ اب وہ جائیداد خرید سکتی ہیں، زمین بیچ سکتی ہیں اور اپنی وراثت محفوظ رکھ سکتی ہیں — چاہے ان کی شادی ریاست کے باہر ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔علاوہ ازیں، پنچایتی راج اداروںمیں خواتین کے لیے 33فیصد نشستیں لازمی قرار دی گئیں۔ 2020کے ضلعی ترقیاتی کونسل انتخابات میں خواتین نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ کئی اضلاع میں قیادت کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔یہ وہ منظر ہے جو ماضی کے “پردے کے پیچھے رہنے والی” کشمیری عورت کے تصور کو بدل دیتا ہے۔2023کے جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل نے دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) کے دائرے کو وسیع کیا۔ اب ۱۵ نئی ذاتوں کو او بی سی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جن میں *جاٹ، سینی اور مغربی پاکستانی پناہ گزین* بھی شامل ہیں۔ ان کے لیے تعلیم اور نوکری میں8 فیصد کوٹہ مختص ہے۔
اسی سال ایک اور ترمیم کے ذریعے *پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر سے آئے پناہ گزینوں* کو مکمل شہریت، زمین کی ملکیت اور اسمبلی میں نمائندگی کا حق دیا گیا۔ لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار حاصل ہوا کہ وہ ان میں سے ایک نمائندہ اسمبلی میں نامزد کرے۔
کشمیری پنڈتوں کے لیے 2019کے بعد کا دور جزوی بحالی کا زمانہ سمجھا جا رہا ہے۔ 5500سے زائد افراد کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں، سٹھ ہزارخاندانوں کے لیے رہائشی منصوبے شروع ہوئے، اور اسمبلی میں دو نمائندوں (جن میں ایک خاتون بھی شامل ہوگی) کی نامزدگی کی شق شامل کی گئی۔ سب سے اہم بات یہ کہ 2019کے بعد کسی نئی ہجرت کی اطلاع نہیں ملی — جو ایک نسبتاً بہتر ماحول کی علامت ہے۔
2022کی حدبندی کمیشن رپورٹ کے بعد نئی اسمبلی میں 90نشستیں مقرر ہوئیں، جن میں7شیڈول کاسٹ اور9 شیڈول ٹرائب کے لیے مخصوص کی گئیں۔امن و امان کی صورتحال میں بھی واضح بہتری دیکھی گئی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے واقعات 2018کے 417سے گھٹ کر 2021میں 229رہ گئے — یعنی 45 فیصد کمی۔
2024کے اسمبلی انتخابات، جو دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد پہلے تھے، اس نئے ماڈل کا پہلا حقیقی امتحان تھے۔ قومی کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے بڑی کامیابی حاصل کی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاسی شرکت کا عمل دوبارہ مستحکم ہو رہا ہے۔
یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ جموں و کشمیر اب ایک ایسے راستے پر ہے جہاں بداعتمادی کی جگہ آہستہ آہستہ اعتماد لے رہا ہے۔ تاہم، اس سفر کو مکمل کرنے کے لیے محض انتظامی اصلاحات کافی نہیں ہوں گی۔ ضروری ہے کہ سماجی انصاف کے ساتھ احساسِ شرکت کو مزید گہرا کیا جائے۔ تعلیم، روزگار اور امن کے مواقع ہر طبقے تک پہنچیں، اور یہ یقین پیدا ہو کہ کشمیر کا مستقبل صرف کسی حکومت کی پالیسیوں میں نہیں بلکہ اس کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔
دفعہ 370اور 35اےکے بعد کا یہ دور دراصل ایک نئے عہد کا آغاز ہے — ایسا عہد جو علیحدگی کے بیانیے سے نکل کر شمولیت، مساوات اور بااختیاری کے نظریے کو اپنانا چاہتا ہے۔ اگر یہ عزم برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر صرف جغرافیائی طور پر نہیں بلکہ فکری، معاشی اور سماجی لحاظ سے بھی ایک متحد اور پُرامید بھارت کا حصہ بن جائے گا۔

