قارئین وادی کشمیر کو قدرت نے نہ صرف بہت ہی حسین اور خوبصورت خطہ بنایا ہے بلکہ یہاں کی مٹی کو زرخیز بناکر زرعی سرگرمیوں کےلئے آب جاویداں بھی بنادیا ہے ۔ یا یوں کہیں کہ اس کی اصل روح اس کی زرخیز وادیاں، صدیوں پرانی کاشتکارانہ روایتیں اور کسانوں کی وہ محنت ہے جس نے ہمیشہ اس خطے کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط رکھا۔ قارئین وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھ رہی ہے اور شہری بستیاں پھیل رہی ہیں، بازار بڑھے ہیں اور نئی صنعتیں جنم لے رہی ہیں، مگر اس سب کے باوجود زراعت آج بھی لوگوں کی روزمرہ زندگی، معاشرتی ڈھانچے اور معاشی توازن کا بنیادی ستون بنی ہوئی ہے۔ پہاڑوں سے میدانوں تک پھیلا ہوا یہ متنوع خطہ آج بھی اپنے قدرتی وسائل کی بدولت زرعی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔وادی کشمیر میں صدیوں سے زراعت لوگوں کے روزگار اور معاش کا ذریعہ رہی ہے ۔ خطے کی بڑی آبادی براہِ راست یا بالواسطہ کھیتی، باغبانی، پھولوں کی کاشت، ڈیری فارمنگ یا مویشی بانی سے وابستہ ہے۔ خطے کے بدلتے ہوئے موسم اورزمینی ساخت اسے مختلف اقسام کی پیداوار کے لیے موزوں بناتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں دھان، مکئی اور گندم جیسی بنیادی غذائیں اگتی ہیں، جبکہ بلند علاقوں میں وہ پھل اور مصالحہ جات پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے جموں و کشمیر کو عالمی سطح پر پہچان بخشی ہے۔قارئین
زرعی شعبہ آج بھی یونین ٹیریٹری کی مجموعی پیداوار میں نمایاں حصہ رکھتا ہے، جس سے اس کی وہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے جو خدماتی شعبے اور سیاحت جیسے بڑھتے ہوئے میدانوں کے باوجود کم نہیں ہوئی۔ خاص طور پر باغبانی اس خطے کے لیے نعمت ثابت ہوئی ہے۔ سیب کی پیداوار میں جموں و کشمیر پورے ملک میں سرفہرست ہے اور قومی پیداوار کا تقریباً ستر فیصد صرف یہیں سے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناشپاتی، چیری، خوبانی، آلوچہ اور اخروٹ نہ صرف ہندوستان بھر میں بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں بھی بڑی مقدار میں بھیجے جاتے ہیں۔ باغبانی سے وابستہ لاکھوں خاندان اپنی روزی اسی صنعت سے کماتے ہیں، جبکہ جدید گھنے باغات، بہتر اسٹوریج سسٹمز اور فوڈ پروسیسنگ یونٹس نے اس شعبے کو مزید مضبوط بنایا ہے۔جموں و کشمیر کی زرعی شان میں زعفران کا مقام ہمیشہ الگ رہا ہے۔ پانپور کے سنہری کھیت وہ خوشبو اور رنگ پیدا کرتے ہیں جو دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ گزشتہ برسوں میں نیشنل سیفران مشن جیسے اقدامات نے آبپاشی بہتر کرنے، پیداوار بڑھانے اور مارکیٹنگ کے مواقع وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کوششوں نے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس قدیم ورثے کو بھی محفوظ رکھا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔قارئین اگرچہ زراعت اس خطے کی معاشی بنیاد ہے، مگر اسے کئی چیلنجوں کا سامنا بھی ہے۔ منتشر اور چھوٹے رقبوں کی ملکیت، روایتی طریقہ کاشت، جدید آبپاشی کی کمی، کولڈ اسٹوریج کی محدود سہولت اور بڑی منڈیوں سے کمزور ربط اکثر کسانوں کی آمدنی کو متاثر کرتے ہیں۔ موسمی تغیرات اور بے وقت بارشیں بعض اوقات تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ دیہی نوجوانوں کا بہتر ملازمتوں کی تلاش میں شہروں کی طرف رخ کرنا زرعی محنت کی قلت پیدا کر رہا ہے، جس سے زرعی پیداوار اور تسلسل پر دباو ¿ بڑھتا ہے۔
قارئین مرکزی حکومت اور یو ٹی انتظامیہ دونوں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جموں و کشمیر کی معاشی ترقی کا راستہ زراعت کو مضبوط کیے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے پی ایم کسان سمّان ندھی، ہارٹیکلچر ڈیولپمنٹ مشن، کسان کریڈٹ کارڈ اور دیگر اسکیموں کے ذریعے مالی مدد، زرعی آلات، مشاورت اور ماہرین کی رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔قدرتی کھیتی، بہتر بیجوں کی فراہمی، ای-مارکیٹنگ پلیٹ فارمز تک رسائی، کسانوں کی تربیت اور سائنسی طریقہ کاشت کے فروغ جیسے اقدامات آہستہ آہستہ زمین پر مثبت اثرات دکھا رہے ہیں۔ ان اصلاحات سے نہ صرف پیداوار بلکہ پائیداری بھی مضبوط ہو رہی ہے۔جموں و کشمیر کی زراعت کا مستقبل جدت، نئے تجربات اور بہتر منڈی ربط سے وابستہ ہے۔ نامیاتی، قدرتی اور اعلیٰ معیار کی زرعی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ اس خطے کو خاص فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اگر آبپاشی مضبوط ہو جائے، فراہمی کا نظام جدید ہو اور فوڈ پروسیسنگ و پیکیجنگ یونٹس بڑھیں تو یہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا ایک وسیع دائرہ کھول سکتا ہے۔
زرعی سیاحت، جدید کولڈ اسٹوریج نیٹ ورکس، مقامی برانڈز اور عالمی سطح کی مارکیٹنگ مستقبل میں اس شعبے کو نئی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ زرعی شعبہ نہ صرف معاشی طاقت بلکہ جموں و کشمیر کی ثقافتی شناخت کا بھی اہم حصہ ہے۔ مسلسل پالیسی حمایت، تکنیکی ترقی اور کمیونٹی کی شمولیت اس خطے کی روایتی زراعت کو ایک مضبوط، جدید اور پائیدار نظام میں تبدیل کر سکتی ہے۔قارئین کو بتادیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جموں کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں زرعی صنعت کی طرف سرکار نے خصوصی توجہ مرکوز کی ہے جس کے نتیجے میں کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے ۔ یہاں پر کاشت کی جانی والی کئی اشیاءکو عالمی جغرافیائی زمرے میں لایا گیا ہے اور ان مصنوعات کو عالمی شناخت دی گئی ہے ۔ان میں زعفران، ساگ، ندرو اور راجوری کی راجماش قابل ذکر ہے ۔

