• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Monday, November 17, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

پچھڑے علاقوں میں بڑھتی اعلیٰ تعلیم کی سہولیت

Advocate Safa Search fo by Advocate Safa Search fo
November 17, 2025
in اردو خبریں
A A
Development of Education in Kashmir
FacebookTwitterWhatsapp

قارئین جموں کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر ستر فیصدی آبادی دیہی اور پہاڑی علاقوں میں مقیم ہے ۔ البتہ ان علاقوں میں لوگوں کو بنیادی سہولیات بہم رکھنے کےلئے سرکار کو کئی دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ خاص کر اگر ہم تعلیمی خدمات کی بات کریں تو دور دراز کے علاقہ جات میں بہتر تعلیمی نظام نہ ہونے سے ان علاقوں کے بچے بہتر اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتے تھے البتہ آج کے دور میں ان علاقوں تک تعلیم کی رسائی ممکن ہوچکی ہے ۔قائین تعلیم ہمیشہ سے سماجی تبدیلی اور قومی ترقی کا سب سے طاقتور ذریعہ رہی ہے، مگر بھارت کے قبائلی اور سرحدی علاقوں تک اس کی رسائی یکساں نہیں رہی۔ وہ خطے جو جغرافیائی طور پر کٹے ہوئے، معاشی طور پر کمزور اور ثقافتی طور پر منفرد ہیں، وہاں تعلیم کی رفتار ہمیشہ سست رہی ہے۔ ایسے ہی علاقوں میں ہائر سیکنڈری تعلیم کی توسیع آج ایک فیصلہ کن قدم کے طور پر سامنے آئی ہے، اور جموں و کشمیر کی گریز ویلی اس تبدیلی کی ایک نہایت نمایاں مثال ہے۔قارئین کو بتادیں کہ گریز ایک ایسا خطہ ہے جو سردیوں کے دوران بھاری برفباری کے بعد وادی کشمیر سے قریب چھ ماہ تک زمینی رابطے سے کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ بلند ہمالیہ کی چوٹیوں میں گھری، رازدان پاس کے ا ±س پار واقع گریز ویلی چھ ماہ تک برف میں ڈھکی رہتی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب آباد شینا بولنے والی ڈارڈ کمیونٹی صدیوں سے یہاں رہتی ہے، مگر خطے کی جغرافیائی تنہائی نے ان کی تعلیمی ترقی کی رفتار ہمیشہ محدود رکھی۔ برسوں تک صورتحال یہ رہی کہ وادی میں تعلیم پرائمری اور مڈل سطح سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتی۔ ہائر سیکنڈری کلاسز کے لیے طلبہ کو بندپورہ یا سرینگر جانا پڑتا تھا، اور یہ ہجرت بہت سے نوجوانوں، خصوصاً لڑکیوں، کے لیے ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گریز کے اندر ہائر سیکنڈری اداروں کا قیام محض تعلیمی سہولت نہیں بلکہ ایک گہری سماجی تبدیلی کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔قارئین گریز وادی میں اب تعلیمی نظام میں کافی بہتر آئی ہے اور تعلیم کے حوالے سے لوگ بھی کافی حساس بن چکے ہیں ۔ پچھلے بیس برسوں میں سرکاری کوششوں نے اس دور افتادہ وادی کا نقشہ بدلنا شروع کیا ہے۔ داور، تلیل اور بگتور میں ہائر سیکنڈری اسکول قائم ہوئے، جنہوں نے پہلی بار پوسٹ میٹرک تعلیم کو مقامی نوجوانوں کے دروازے تک پہنچایا۔ سمگرا شکشا ابھیان کے تحت اضافی کمروں، لیبارٹریوں، لائبریریوں اور جدید سہولیات کا انتظام ہوا۔ ایکلویہ ماڈل ریزیڈینشل اسکول جیسے منصوبوں نے اس خواب کو مزید مستحکم کیا۔ مقامی اساتذہ کی تربیت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے تدریس جیسے اقدامات نے تعلیمی خلا کو نمایاں طور پر کم کیا ہے۔خطے میں سکولوں کےلئے نئی عمارتیں ، سکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور دیگر سہولیات بہم رکھی جارہی ہے ۔ یہ پیش رفت سطحی طور پر چھوٹی نظر آئے مگر اس کے اثرات دور رس ہیں۔ دسویں جماعت کے بعد ڈراپ آو ¿ٹ شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ داخلوں میں اضافہ ہوا ہے، اور سب سے خوش آئند تبدیلی لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت ہے۔ نوجوانوں کو مقامی سطح پر روزگار ملا ہے، اور معاشرہ سکولوں کے انتظام و انصرام میں پہلے سے زیادہ شریک ہونے لگا ہے۔ یوں تعلیم محض ایک سرکاری پالیسی نہیں رہی بلکہ پورے معاشرے کی مشترکہ کاوش بنتی جا رہی ہے۔قارئین اگرچہ کافی حد تک خطے میں تعلیمی نظام کی بہتری کےلئے اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں تاہم مشکلات ابھی باقی ہیں۔ رازدان پاس کی لمبی بندش امتحانات، تدریس اور اساتذہ کی دستیابی کو متاثر کرتی ہے۔ اندرونی دیہات میں انٹرنیٹ کی کمزوری آن لائن تعلیم کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ سائنس اور ریاضی کے خصوصی اساتذہ کی کمی اور لڑکیوں کی کم عمری کی شادی جیسے سماجی مسائل بھی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ سخت سردیوں کے لیے گرم اور محفوظ عمارتیں اکثر دستیاب نہیں ہوتیں، جس کے باعث تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ان چیلنجوں کے باوجود گریز میں تعلیم کی روشنی مسلسل پھیل رہی ہے۔ اگر تمام موسموں کے قابل اسکول، بہتر ہاسٹل سہولیات، ڈیجیٹل کلاس روم، مقامی ثقافت پر مبنی نصاب اور دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں تو یہ سفر مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ اور کمیونٹی ای لرننگ سنٹرز جیسے اقدامات اس وادی کی جغرافیائی تنہائی کو بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔گریز ویلی میں ہائر سیکنڈری تعلیم کی توسیع صرف ایک تعلیمی منصوبہ نہیں بلکہ برابری، خود اعتمادی اور قومی یکجہتی کی بنیاد ہے۔ ایک ایسی وادی جو برسوں تک جغرافیے اور محرومی کے بیچ پھنسی رہی، آج انہی اداروں کی وجہ سے دنیا سے جڑنے لگی ہے۔ یہ اسکول نوجوان ذہنوں کے لیے نئی کھڑکیاں کھول رہے ہیں۔اگر حکومتی توجہ، مضبوط ڈھانچہ اور مقامی تعاون اسی طرح جاری رہے تو گریز ویلی پورے بھارت کے قبائلی علاقوں کے لیے ایک تابناک تعلیمی مثال بن سکتی ہے۔ایک ایسی مثال جس میں پہاڑ رکاوٹ نہیں بلکہ امید کا راستہ بن جاتے ہیں۔اب جبکہ سرکاری سطح پر اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ نجی اداروں کو بھی اس اقدام میں پیش پیش رہنا چاہئے اور اس طرح کے پہاڑی اور پچھڑے علاقوں کے بچوں کےلئے بہتری تعلیمی سہولیات کےلئے ضروری اقدامات کرنے چاہئے تاکہ ان علاقوں کے بچے بھی جدید تعلیم کے نور سے منور ہوں۔

Previous Post

ریلوے خدمات سے سیاحت اور تجارت کو فروغ ملا

Advocate Safa Search fo

Advocate Safa Search fo

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.