قارئین کشمیر کی شامیں ہمیشہ سے موسیقی اور روحانیت کی خاموش لہروں سے آشنا رہی ہیں، مگر آج ان لہروں میں ایک نیا ارتعاش، ایک نیا مقصد محسوس ہوتا ہے۔ پلوامہ کے ایک چھوٹے سے صحن میں جب ایک نوجوان موسیقار سرف علی رباب کے تاروں کو چھیڑتا ہے تو وہ محض ایک دھن نہیں بجاتا وہ ایک ایسی روایت کو پھر سے زندگی بخشتا ہے جس نے اس وادی کی شناخت کو محبت، الوہیت اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار کیا۔ چند لوگ، جن میں مختلف عمروں اور پس منظر کے افراد شامل ہوتے ہیں، خاموش بیٹھے اس س ±ر میں وہ معنویت تلاش کرتے ہیں جو شاید آج کی بے ترتیبی میں کہیں کھو گئی ہے۔ موسیقی کی یہی لہر بتاتی ہے کہ صوفی روایت کشمیر میں ماضی کا باب نہیں رہی یہ آج بھی اجتماعی علاج اور سماجی تبدیلی کا موثر وسیلہ بن رہی ہے۔قارئین جیسا کہ یہ بات عیاں ہے کہ صوفی روایت نے کشمیر میں وہ بنیادیں قائم کیں جو صدیوں سے لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی رہی ہیں۔ شاہ ہمدان جب اس وادی میں وارد ہوئے تو انہوں نے روحانی فکر کے ساتھ ایک تہذیبی انقلاب کی بنیاد بھی ڈالی۔ ان کا پیغام محض عبادت یا اصلیتِ دین تک محدود نہ تھا؛ وہ ایک ایسی سماجی ہم آہنگی کے قائل تھے جو انسان کو انسان سے جوڑتی ہے۔ اسی روایت کو بعد میں شیخ نورالدین نورانیؒ، یعنی نند ریشی نے مقامی رنگ دیا۔ ان کی سادگی، شاعری اور انسان دوستی نے کشمیر کی فضا میں وہ کشادگی گھول دی جسے صدیوں تک کشمیر یت کے نام سے پہچانا گیا۔ عسرت کے دن ہوں یا خوشی کی بہاریں، لوگوں نے ہمیشہ نند ریشی اور لال دید کے کلام میں وہ مشترک بنیاد تلاش کی جو مذہبی سرحدوں سے ماورا تھی۔یہی وہ بنیاد تھی جس نے کشمیر کی موسیقی اور فنونِ لطیفہ کو ایک منفرد پہچان بخشی۔ صوفیانہ موسیقی میں فارسی نزاکت، وسط ایشیائی س ±ر اور مقامی لطافت اس طرح گھل مل گئے کہ ایک نئی صنف وجود میں آئی جس نے کشمیریوں کے اجتماعی شعور میں گہری جڑیں گاڑ دیں۔ اس فن نے نہ صرف روحانی مکالمہ پیدا کیا بلکہ سماجی رشتوں کو بھی مضبوط کیا۔ دستکاریوں میں بھی یہی صوفی اثر جھلکتا رہا،پشمینہ کی نرمی، قالین کی گرہیں اور خطاطی کی لطافت سب اسی صبر اور سکون کی نمائندگی کرتی ہیں جسے صوفی فلسفے نے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنایا۔
قارئین وقت نے جب وادی میں بے چینی اور انتشار کی ہوائیں چلائیں، تو صوفی روایت ایک مرتبہ پھر اجتماعی یکجہتی کی علامت بن کر ابھری۔ زیارت گاہوں میں ہونے والی محفلوں میں کوئی مذہبی تفریق نہ تھی۔ لوگ قوالی سننے اور دعا میں شریک ہونے آتے تھے، مگر ان کی اصل جستجو سکون اور قربت کی ہوتی تھی، نہ کہ مذہبی شناخت کی۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی موسیقی اور فنون کشمیر میں ہمیشہ سے ایک ایسا دروازہ رہے جس کے اندر داخل ہونے کے لیے کسی شناختی کارڈ کی ضرورت نہ تھی۔گزشتہ برسوں میں نوجوانوں نے اس روایت کو نہ صرف دوبارہ زندہ کیا بلکہ اس میں اپنی نسل کی بے چینی، حساسیت اور آرزوو ¿ں کو بھی سمو دیا ہے۔ سرف علی کی موسیقی ہو یا راشد حافظ کی پراثر آواز،دونوں ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو ماضی کی روحانیت کو حال کی ضرورتوں سے جوڑنا چاہتی ہے۔ غیر رسمی محفلیں، عوامی جگہیں، چھوٹے صحن،یہ سب آج کے دور کے نئے خانقاہ بن گئے ہیں جہاں لوگ فن کے ذریعے اپنے زخموں کی مرہم جوئی کرتے ہیں۔ نوجوان سامعین ایسے ماحول کی تلاش میں ہیں جو رسمی مذہبی ڈھانچوں میں انہیں میسر نہیں آتا، اور صوفی موسیقی انہیں وہ وسعتِ دل عطا کرتی ہے جس میں وہ خود کو پہچان سکیں۔
قارئین کو بتادیں کہ موجودہ دور انٹرنیٹ اور ڈیجٹل دور کہلاتا ہے اور اس دور نے زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی لائی ہے ، ڈیجیٹل دور نے اس روایت کوبھی نئی سمت دی ہے۔ وہ آوازیں جو کبھی محدود حلقوں تک تھیں، آج پوری دنیا میں سنی جا رہی ہیں۔ آن لائن محفلیں، ریکارڈ شدہ کلام اور عالمی سطح پر تعاون نے صوفی فنون کو ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ اگرچہ روایت پسندوں کے لیے یہ تبدیلی کچھ اجنبی معلوم ہو سکتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ صوفیانہ موسیقی ہمیشہ ارتقا پذیر رہی ہے اور اسی ارتقا نے اسے زندہ رکھا ہے۔ آج کے نوجوان جب روایتی سروں میں جدید ساز شامل کرتے ہیں، تو وہ دراصل اسی لچکدار اور ہمہ گیر روایت کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔آج کے دور میں دنیا ایک دائرے میں موجود ہے دنیا کے ایک کونے میں اگر کوئی موسیقی کار اپنے فن کا مظاہرہ کررہا ہو تو دنیا کے دوسرے کونے سے اسے براہ راست دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس طرح سے فنون موسیقی نے تمام سرحدی رُکاوٹوں کو توڑ کر اس دور میں اپنی دھوم مچادی ۔ اس سب کے باوجود کئی چیلنج بھی درپیش ہیں۔ معاشی مفادات اس روحانیت کو سطحی بنانے کا خطرہ رکھتے ہیں، اور بزرگ فنکاروں کے ساتھ دیرینہ علمی ورثہ بھی وقت کے ساتھ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وادی کو اس روایت کو زندہ رکھنا ہے تو اسے محض ثقافتی مظاہر کی سطح تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس میں فنکار، ادارے، سماج اور ریاست سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔پلوامہ کی وہ شام جب رباب کی آخری لے ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، تو سننے والے چند لمحوں کے لیے خاموش رہ جاتے ہیں۔ جیسے دل اندر سے کوئی سوال اٹھا رہا ہو اور موسیقی نے اس کا جواب دے دیا ہو۔ یہی صوفی روایت کی اصل طاقت ہے،یہ نہ جنگ کو ختم کرتی ہے نہ المیے کو مٹا دیتی ہے، مگر انسان کے اندر وہ ہمت پیدا کر دیتی ہے جس کی بنیاد پر وہ پھر سے جینا شروع کر دیتا ہے۔ کشمیر میں صوفی موسیقی اور فن کا یہ نیا احیا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ تبدیلی کے آلات ہمیشہ ہمارے درمیان موجود تھے؛ ہمیں صرف انہیں پہچاننے اور دوبارہ برتنے کی ضرورت تھی۔قارئین وادی کشمیر کی اس صوفی روایت اور موسیقی کو آزادی کے ساتھ پوری دنیا تک پہنچانے کےلئے ضروری اقدامات ناگزیر ہے اور موجودہ دور میں جب نوجوان نسل اس طرف زیادہ مائل ہورہی ہے تو انہیں اس شعبے میں تمام تر سہولیات بہم رکھنا لازمی بن جاتا ہے ۔
قارئین کشمیر کی شامیں ہمیشہ سے موسیقی اور روحانیت کی خاموش لہروں سے آشنا رہی ہیں، مگر آج ان لہروں میں ایک نیا ارتعاش، ایک نیا مقصد محسوس ہوتا ہے۔ پلوامہ کے ایک چھوٹے سے صحن میں جب ایک نوجوان موسیقار سرف علی رباب کے تاروں کو چھیڑتا ہے تو وہ محض ایک دھن نہیں بجاتا وہ ایک ایسی روایت کو پھر سے زندگی بخشتا ہے جس نے اس وادی کی شناخت کو محبت، الوہیت اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار کیا۔ چند لوگ، جن میں مختلف عمروں اور پس منظر کے افراد شامل ہوتے ہیں، خاموش بیٹھے اس س ±ر میں وہ معنویت تلاش کرتے ہیں جو شاید آج کی بے ترتیبی میں کہیں کھو گئی ہے۔ موسیقی کی یہی لہر بتاتی ہے کہ صوفی روایت کشمیر میں ماضی کا باب نہیں رہی یہ آج بھی اجتماعی علاج اور سماجی تبدیلی کا موثر وسیلہ بن رہی ہے۔قارئین جیسا کہ یہ بات عیاں ہے کہ صوفی روایت نے کشمیر میں وہ بنیادیں قائم کیں جو صدیوں سے لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی رہی ہیں۔ شاہ ہمدان جب اس وادی میں وارد ہوئے تو انہوں نے روحانی فکر کے ساتھ ایک تہذیبی انقلاب کی بنیاد بھی ڈالی۔ ان کا پیغام محض عبادت یا اصلیتِ دین تک محدود نہ تھا؛ وہ ایک ایسی سماجی ہم آہنگی کے قائل تھے جو انسان کو انسان سے جوڑتی ہے۔ اسی روایت کو بعد میں شیخ نورالدین نورانیؒ، یعنی نند ریشی نے مقامی رنگ دیا۔ ان کی سادگی، شاعری اور انسان دوستی نے کشمیر کی فضا میں وہ کشادگی گھول دی جسے صدیوں تک کشمیر یت کے نام سے پہچانا گیا۔ عسرت کے دن ہوں یا خوشی کی بہاریں، لوگوں نے ہمیشہ نند ریشی اور لال دید کے کلام میں وہ مشترک بنیاد تلاش کی جو مذہبی سرحدوں سے ماورا تھی۔یہی وہ بنیاد تھی جس نے کشمیر کی موسیقی اور فنونِ لطیفہ کو ایک منفرد پہچان بخشی۔ صوفیانہ موسیقی میں فارسی نزاکت، وسط ایشیائی س ±ر اور مقامی لطافت اس طرح گھل مل گئے کہ ایک نئی صنف وجود میں آئی جس نے کشمیریوں کے اجتماعی شعور میں گہری جڑیں گاڑ دیں۔ اس فن نے نہ صرف روحانی مکالمہ پیدا کیا بلکہ سماجی رشتوں کو بھی مضبوط کیا۔ دستکاریوں میں بھی یہی صوفی اثر جھلکتا رہا،پشمینہ کی نرمی، قالین کی گرہیں اور خطاطی کی لطافت سب اسی صبر اور سکون کی نمائندگی کرتی ہیں جسے صوفی فلسفے نے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنایا۔
قارئین وقت نے جب وادی میں بے چینی اور انتشار کی ہوائیں چلائیں، تو صوفی روایت ایک مرتبہ پھر اجتماعی یکجہتی کی علامت بن کر ابھری۔ زیارت گاہوں میں ہونے والی محفلوں میں کوئی مذہبی تفریق نہ تھی۔ لوگ قوالی سننے اور دعا میں شریک ہونے آتے تھے، مگر ان کی اصل جستجو سکون اور قربت کی ہوتی تھی، نہ کہ مذہبی شناخت کی۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی موسیقی اور فنون کشمیر میں ہمیشہ سے ایک ایسا دروازہ رہے جس کے اندر داخل ہونے کے لیے کسی شناختی کارڈ کی ضرورت نہ تھی۔گزشتہ برسوں میں نوجوانوں نے اس روایت کو نہ صرف دوبارہ زندہ کیا بلکہ اس میں اپنی نسل کی بے چینی، حساسیت اور آرزوو ¿ں کو بھی سمو دیا ہے۔ سرف علی کی موسیقی ہو یا راشد حافظ کی پراثر آواز،دونوں ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو ماضی کی روحانیت کو حال کی ضرورتوں سے جوڑنا چاہتی ہے۔ غیر رسمی محفلیں، عوامی جگہیں، چھوٹے صحن،یہ سب آج کے دور کے نئے خانقاہ بن گئے ہیں جہاں لوگ فن کے ذریعے اپنے زخموں کی مرہم جوئی کرتے ہیں۔ نوجوان سامعین ایسے ماحول کی تلاش میں ہیں جو رسمی مذہبی ڈھانچوں میں انہیں میسر نہیں آتا، اور صوفی موسیقی انہیں وہ وسعتِ دل عطا کرتی ہے جس میں وہ خود کو پہچان سکیں۔
قارئین کو بتادیں کہ موجودہ دور انٹرنیٹ اور ڈیجٹل دور کہلاتا ہے اور اس دور نے زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی لائی ہے ، ڈیجیٹل دور نے اس روایت کوبھی نئی سمت دی ہے۔ وہ آوازیں جو کبھی محدود حلقوں تک تھیں، آج پوری دنیا میں سنی جا رہی ہیں۔ آن لائن محفلیں، ریکارڈ شدہ کلام اور عالمی سطح پر تعاون نے صوفی فنون کو ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ اگرچہ روایت پسندوں کے لیے یہ تبدیلی کچھ اجنبی معلوم ہو سکتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ صوفیانہ موسیقی ہمیشہ ارتقا پذیر رہی ہے اور اسی ارتقا نے اسے زندہ رکھا ہے۔ آج کے نوجوان جب روایتی سروں میں جدید ساز شامل کرتے ہیں، تو وہ دراصل اسی لچکدار اور ہمہ گیر روایت کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔آج کے دور میں دنیا ایک دائرے میں موجود ہے دنیا کے ایک کونے میں اگر کوئی موسیقی کار اپنے فن کا مظاہرہ کررہا ہو تو دنیا کے دوسرے کونے سے اسے براہ راست دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس طرح سے فنون موسیقی نے تمام سرحدی رُکاوٹوں کو توڑ کر اس دور میں اپنی دھوم مچادی ۔ اس سب کے باوجود کئی چیلنج بھی درپیش ہیں۔ معاشی مفادات اس روحانیت کو سطحی بنانے کا خطرہ رکھتے ہیں، اور بزرگ فنکاروں کے ساتھ دیرینہ علمی ورثہ بھی وقت کے ساتھ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وادی کو اس روایت کو زندہ رکھنا ہے تو اسے محض ثقافتی مظاہر کی سطح تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس میں فنکار، ادارے، سماج اور ریاست سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔پلوامہ کی وہ شام جب رباب کی آخری لے ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، تو سننے والے چند لمحوں کے لیے خاموش رہ جاتے ہیں۔ جیسے دل اندر سے کوئی سوال اٹھا رہا ہو اور موسیقی نے اس کا جواب دے دیا ہو۔ یہی صوفی روایت کی اصل طاقت ہے،یہ نہ جنگ کو ختم کرتی ہے نہ المیے کو مٹا دیتی ہے، مگر انسان کے اندر وہ ہمت پیدا کر دیتی ہے جس کی بنیاد پر وہ پھر سے جینا شروع کر دیتا ہے۔ کشمیر میں صوفی موسیقی اور فن کا یہ نیا احیا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ تبدیلی کے آلات ہمیشہ ہمارے درمیان موجود تھے؛ ہمیں صرف انہیں پہچاننے اور دوبارہ برتنے کی ضرورت تھی۔قارئین وادی کشمیر کی اس صوفی روایت اور موسیقی کو آزادی کے ساتھ پوری دنیا تک پہنچانے کےلئے ضروری اقدامات ناگزیر ہے اور موجودہ دور میں جب نوجوان نسل اس طرف زیادہ مائل ہورہی ہے تو انہیں اس شعبے میں تمام تر سہولیات بہم رکھنا لازمی بن جاتا ہے ۔
