قارئین حالیہ برسوں میں کشمیر نے اقتصادی سرگرمیوں، سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے اور سیاحت کے میدان میں جو پیش رفت کی ہے، اس نے اسے جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ایک نمایاں مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ بدلتی پالیسیوں، امن و امان میں بہتری اور عوامی سطح پر ترقی کے بڑھتے ہوئے احساس نے اس خطے کی معاشی رفتار کو نئی سمت بخشی ہے۔وادی کشمیر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران جو تبدیلی دیکھی جاری ہے وہ اس سے عام لوگوں میں تبدیلی کا احساس دیکھائی دے رہا ہے ۔ کشمیر کی روایتی معیشت بنیادی طور پر زرعی ڈھانچے پر استوار رہی ہے۔ زرخیز زمینوں اور معتدل آب و ہوا نے اس خطے کو اعلیٰ معیاری زعفران، سیب، بادام اور اخروٹ جیسی پیداوار کا مرکز بنا رکھا ہے، جن کی مانگ نہ صرف بھارت بھر میں بلکہ بیرونِ ملک بھی موجود ہے۔یہاں یہ بات کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وادی کشمیر کو اللہ تعلیٰ نے جہاں قدرتی حسن سے بہرور کیا ہے وہیں اس کی مٹی کو خوشبودار اور زرخیز بناکر مکینوں کےلئے ایک نعمت عطاکررکھی ہے ۔ قارئین گزشتہ برسوں میں حکومت نے جدید آبپاشی نظام، بہتر بیج، مالی سبسڈی اور زرعی تربیت کے پروگرام متعارف کروا کر اس شعبے کو مزید مستحکم کیا ہے۔ کشمیری زعفران کو جغرافیائی شناخت ”جی آئی ٹیگ “ملنے کے بعد اس کی عالمی قدر و قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا، جس نے کسانوں اور برآمدکنندگان دونوں کے لیے نئی راہیں ہموار کیں۔زرعی میدان کے ساتھ ساتھ کشمیر کی دستکاریوں نے بھی عالمی سطح پر اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ کشمیری پشمینہ، قالین بافی، نقش و نگار والی لکڑی کی مصنوعات اور پیپئر ماشی کے فن پارے خطے کے فنونِ لطیفہ کا درخشاں چہرہ ہیں۔ ہزاروں کاریگروں کی روزی انہی صنعتوں سے وابستہ ہے، جنہیں حالیہ عرصے میں ای کامرس، نمائشوں اور حکومتی معاونت نے نئی زندگی بخشی ہے۔ اس کے ساتھ باغبانی، قابلِ تجدید توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں نے بھی بتدریج اپنی جگہ بنانی شروع کی ہے۔ خاص طور پر باغبانی میں پھولوں اور پھلوں کی بڑھتی ہوئی مانگ نے نجی سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ قارئین زرعی شعبے میں ترقی کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے ، اگر ہم بات کریں آئی ٹی کے شعبے میں اگرچہ پیش رفت ابتدائی مرحلے میں ہے، مگر ٹیک پارکس اور ہنر مندی کے مراکز کی تعمیر سے روزگار اور کاروبار کے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔خطے کی معیشت کو مستحکم کرنے میں بنیادی ڈھانچے کا کردار کلیدی ہے۔ شاہراہوں، ریل منصوبوں، سرنگوں اور ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک میں ہونے والی بھاری سرمایہ کاری نے کشمیر کو باقی ملک سے بہتر انداز میں جوڑ دیا ہے۔ چناب پل اور بانہال،قاضی گنڈ ریل لائن جیسے منصوبے نہ صرف انجینئرنگ کا شاہکار ہیں بلکہ تجارت، سفری سہولت اور سیاحت کے لیے سنگِ میل بھی ثابت ہو رہے ہیں۔قارئین کو معلوم ہی ہے کہ وادی کشمیر میں زرعی شعبہ کے علاوہ سیاحت سب سے بڑی صنعت ہے جو یہاں کی معیشت کو استحکام بخشتی ہے ۔ سیاحت کشمیر کی شناخت کا لازمی حصہ رہی ہے۔ اپنے دلفریب مناظر، شفاف جھیلوں، وسیع گھاٹیوں اور مسحور کن فضا کے باعث یہ خطہ ہمیشہ سے مسافروں کا خواب رہا ہے۔ اگرچہ حالات نے کئی بار اس شعبے کو متاثر کیا، مگر حالیہ برسوں میں سیاحت نے حیرت انگیز بحالی دکھائی ہے۔ گلمرگ کی برفانی ڈھلانیں آج بھی دنیا بھر کے اسکیئرز کی منزل ہیں، پہلگام کی وادیاں قدرت کے شائقین کو اپنی جانب کھینچتی ہیں، اور ڈل جھیل اپنی شکاراو ¿ں اور ہاو ¿س بوٹس کے ساتھ کشمیر کی میزبانی کا زندہ استعارہ بنی ہوئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ کشمیر اب صرف روایتی مقامات تک محدود نہیں رہا۔ دودھ پتھری، یوسمرگ اور گریز جیسے قدرتی خزانوں سے مالا مال علاقوں نے سیاحتی نقشے پر جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ مقامات سکون اور فطری حسن پیش کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی ترقی مقامی معیشت کو براہِ راست فائدہ پہنچا رہی ہے۔ ایڈونچر ٹورزم،جس میں ٹریکنگ، رافٹنگ، اسکینگ اور پیراگلائیڈنگ شامل ہیں،نے کشمیر کو نوجوان سیاحوں اور بین الاقوامی مہم جوو ¿ں کے لیے ایک پرکشش مقام بنا دیا ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی سیاحت کے فروغ نے ماحول دوست سفر اور قدرتی وسائل کے تحفظ کو بھی مرکزِ توجہ بنایا ہے، جہاں ہوم اسٹے اور مقامی لوجز سیاحوں کو نہ صرف گھر جیسا ماحول دیتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
قارئین کشمیر کی ثقافت اس خطے کی اصل طاقت ہے۔ یہاں کی موسیقی، رقص، دسترخوان، روایتی لباس اور تہوار سیاحت میں ایک نئی جہت شامل کرتے ہیں۔ ٹولپ فیسٹیول اور زعفران فیسٹیول جیسے رنگارنگ ایونٹس نہ صرف کشمیر کی زمین کی خوبصورتی کا جشن ہیں بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اس کی تہذیبی روح سے روشناس بھی کراتے ہیں۔انتظامیہ اور نجی اداروں کی کوششوں نے بھی سیاحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جدید سہولیات، بہتر سیکیورٹی ماحول، ڈیجیٹل تشہیر، دور دراز علاقوں کے لیے ہیلی سروس اور نئے سیاحتی سرکٹس کے قیام نے سفر کو آسان، محفوظ اور قابلِ رسائی بنایا ہے۔ اگرچہ پیش رفت قابل تعریف ہے، مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے کئی چیلنجز موجود ہیں۔ ماحول کا دباو ¿، بے تحاشا سیاحت، جنگلات کا غیر محتاط استعمال اور بعض علاقوں میں سہولیات کی کمی ایسے مسائل ہیں جن کا فوری حل ناگزیر ہے۔ امن و استحکام، سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے اور مقامی افراد کی معاشی شمولیت کے لیے بھی مسلسل اقدامات کی ضرورت ہے۔ زرعی اور دستکاری کے شعبوں میں جدید مارکیٹ رسائی، کولڈ اسٹوریج، ای مارکیٹ پلیٹ فارمز اور تربیتی پروگراموں کا فروغ اس خطے کی آمدنی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
قارئین آج کشمیر ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑا ہے ایک ایسا دور جو ترقی، معاشی توانائی اور عالمی سطح پر نئی شناخت کی نوید دے رہا ہے۔ اپنی قدرتی دولت، ثقافتی ورثے اور جغرافیائی اہمیت کے ساتھ یہ خطہ ایک بار پھر ’ارضِ جنت‘ کی شان بلند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ترقی کا سفر پائیدار، منصفانہ اور مقامی شناخت کا احترام کرنے والا ہو۔ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو کشمیر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی نقشے پر بھی ایک روشن اور خوشحال مستقبل کا عنوان بن سکتا ہے۔
