قارئین جموں کشمیر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران حالات میں کافی بہتری دیکھی جارہی ہے اور تشدد، مار دھاڑ اور دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اور مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ تبدیلی محض اتفاق نہیں بلکہ طویل عرصے سے جاری مربوط اقدامات، کامیاب انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی، بہتر انٹیلی جنس ہم آہنگی اور سرحدی نگرانی کے مضبوط نظام کا نتیجہ ہے۔ جموں کشمیر میں تعینات مختلف حفاظتی اداروں کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب وادی کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات صفر تک پہنچ چکے ہیں اور لوگ بے خوف ہوکر اپنی روزمرہ کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ قارئین کو بتادیں کہ مقامی آبادی کو امن سازی کے عمل میں فعال شریک بنانے اور سیکیورٹی فورسز کے باہمی تعاون نے خطے میں دیرپا استحکام کی بنیاد رکھی ہے۔ بھارتی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے مل کر ایک ایسا مو ¿ثر ڈھانچہ قائم کیا ہے جو دہشت گرد نیٹ ورکس کو بے اثر کرنے، دراندازی کے راستوں کو بند کرنے اور امن و ترقی کے لیے موزوں ماحول تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ کارروائیاں اب صرف ردعمل تک محدود نہیں رہیں بلکہ علاقے پر بھرپور کنٹرول، استحکام اور عوامی شمولیت پر مبنی ایک جامع حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے۔جموں و کشمیر عرصے سے بھارت کی قومی سلامتی کے حوالے سے حساس خطہ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ سرحد پار دہشت گردی اور مقامی شدت پسندی ہے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں یہاں کی سیکیورٹی صورتحال میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ خاص طور پر 2018 کے بعد کے عرصے میں فورسز نے جدید ٹیکنالوجی، انسانی انٹیلی جنس اور انتہائی مو ¿ثر منصوبہ بندی کے ذریعے دہشت گرد نیٹ ورکس کو تقریباً بے دخل کر دیا۔ جدید نگرانی کے نظام، بشمول ڈرون، حساس آلات، مواصلاتی ریکارڈنگ اور زمینی انٹیلی جنس نے دہشت گرد عناصر کی نقل و حرکت کو انتہائی محدود کر دیا۔ دفعہ 370 کی منسوخی اور اس کے بعد ہونے والی انتظامی تنظیمِ نو نے نہ صرف حکمرانی کو مضبوط بنایا بلکہ انٹیلی جنس کے بہاو ¿ کو مربوط اور ترقی کے ماحول کو بہتر کرتے ہوئے نوجوانوں میں شدت پسندی کی طرف رجحان کو بھی کم کیا۔ ان اقدامات نے عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو مزید مو ¿ثر بنایا۔چونکہ حالات میں بہتری آئی اس سے نہ صرف کاروباری سرگرمیاں عروج پکڑنے لگی بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی کارکردگی بہتر ہوئی ہے ۔ انٹیلی جنس کے جامع نیٹ ورک نے سیکیورٹی اداروں کے درمیان حقیقی وقت میں معلومات کے تبادلے کو ممکن بنا دیا ہے۔ زمینی اور تکنیکی معلومات کی ہم آہنگی نے خطرات کو ابھرنے سے پہلے ہی ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لائن آف کنٹرول پر جدید نگرانی، مضبوط باڑ، زمینی سینسرز، نائٹ ویڑن ٹیکنالوجی اور بغیر پائلٹ طیاروں کے استعمال نے دراندازی کی کوششوں کو بے حد کم کر دیا ہے۔ مسلسل گشت اور الیکٹرانک نگرانی نے صورتحال پر گرفت کو مزید سخت کر دیا ہے۔فوج، جموں و کشمیر پولیس، سی آر پی ایف اور خفیہ اداروں کے مشترکہ آپریشنز نے متعدد اہم دہشت گرد کمانڈروں کے خاتمے کو ممکن بنایا ہے۔ یہ کارروائیاں اب زیادہ تر انٹیلی جنس پر مبنی، مو ¿ثر اور مخصوص اہداف کے گرد ترتیب دی جاتی ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات، روزگار کے مواقع اور تعلیمی پروگراموں نے نوجوان نسل کو منفی رجحانات سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فوج کے “صدبھاونہ” منصوبوں نے عوام اور فورسز کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کی ہے، اور مقامی کمیونٹی اب سیکیورٹی اداروں کی مدد میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہے۔ دیہی دفاعی کمیٹیوں اور کمیونٹی پولیسنگ نے بھی امن کے قیام میں اہم کردار نبھایا ہے۔دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کارروائیاں، گرفتار شدہ عناصر کے خلاف مو ¿ثر قانونی کاروائیاں اور غیر قانونی سرگرمیوں پر سخت قانون کے نفاذ نے ریاستی رٹ کو مضبوط کیا ہے۔ سیکیورٹی کی بہتر صورتحال نے سیاحت کے شعبے کو نئی زندگی دی ہے، جو اب ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ امن و استحکام کے باعث مقامی صنعت، باغبانی اور دستکاری کے شعبوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ سڑکوں، صحت، تعلیم اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں ترقیاتی منصوبے پہلے سے زیادہ تیزی سے مکمل ہو رہے ہیں، جس سے دور دراز علاقوں کے عوام میں بھی اعتماد اور اطمینان پیدا ہوا ہے۔پنجایت انتخابات کا پرامن انعقاد، قومی پروگراموں میں بڑھتی ہوئی عوامی شرکت اور پہلے حساس سمجھے جانے والے علاقوں میں معمول کی سرگرمیوں کی بحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ وادی میں زندگی تیزی سے معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مجموعی طور پر امن قائم ہونے سے شمالی بھارت کی مجموعی سلامتی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تشدد میں کمی سے عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کی فضا بہتر ہوئی ہے اور بھارت کی انسدادِ دہشت گردی کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔جموں و کشمیر میں دہشت گردی میں واضح کمی سیکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ مہارت، مستقل مزاجی اور عزم کا نتیجہ ہے۔ سخت کارروائیوں اور عوام دوست اقدامات کے امتزاج نے خطے میں امن کی بنیاد کو مضبوط کیا ہے۔ اگرچہ کچھ باقی ماندہ عناصر وقتاً فوقتاً کوششیں کر سکتے ہیں، مگر ان کی صلاحیتیں بڑی حد تک ختم ہو چکی ہیں۔ مسلسل نگرانی، تعاون اور بہتر حکمرانی کے ذریعے خطہ دیرپا امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جو عوام، حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی مشترکہ کاوشوں کا ثمر ہے۔اب چونکہ کئی دہائیوں کے بعد وادی کشمیر ایک نئی صبح دیکھ رہی ہے تاہم اس کو برقرار رکھنے کےلئے حفاظتی ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں میں کسی طرح کی کارروائی کے ذریعے خوف و ہراس کا ماحول نہ محسوس ہو اور عوام کو اعتماد میں لینے کےلئے عوام دوست پالیسیاں اپنائی جائیں ۔
